گجرات جیتنے کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے
گزشتہ دومہینے میں ملک کی ساری طاقت جھونک دی، ذرائع ابلاغ کی تو انہیں
پروا نہیں ہے،لیکن عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو بھی بالائے طاق رکھ
دیا،وزیراعظم نریندرمودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے جلسوں اور جلوسوں میں
انتخابی ضابطوں کی سراسر خلاف ورزی پر اُف تک نہیں کیاگیا،بلکہ ہماچل پردیش
کے اسمبلی انتخابات کے اعلان کے دیڑھ دو ہفتے بعد گجرات میں انتخابی
تاریخوں کا اعلان کیا۔مودی کی پچاس کلومیٹر طویل انتخابی کے بعد حق رائے
دہی استعمال کرنے کے بعد بھی انتخابی بوتھ سے پیدل کئی کلومیٹر تک جانے پر
الیکشن کمیشن کے آفیسرز آنکھیں بند کیے رہے،کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ
کہیں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ہوگی۔
خیر اس تاریکی راہ پر اُمید کی کرنیں بھی پھوٹ رہی ہیں۔میں نیشنلسٹ کانگریس
پارٹی (این سی پی)کے قومی سر براہ شرد پوار کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں
،جوانہوں نے گجرات،ہماچل۔پردیش اسمبلیوں اور نئی دلی کارپوریشن(ایم سی
ڈی)کے نتائج کے پس منظر میں دیا ہے ،شردپوار نے ناامیدی میں گھیرے سیاسی
پارٹیوں کے ورکرس کاحوصلہ بڑھانے کی کوشش کی ہے۔انیوں واضح طور سے کہاکہ "
گجرات انتخابات کے تعلق سے کسی کے ذہن میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ یکطرفہ
ہوگا۔ ملک کی ساری طاقت اس کے لیے استعمال کی گئی۔ کئی فیصلے صرف ایک ریاست
کی سہولت کے لیے گئے۔ اس بات کا خیال رکھا گیا کہ دیگر ریاستوں کے منصوبوں
کو اس ریاست میں کیسے لایا جائے۔اس کے نتیجے کے طور پر کسی کے ذہن میں کوئی
شک نہیں تھا کہ گجرات انتخابات کا نتیجہ یک طرفہ آئے گا۔ گجرات کے نتائج کے
پیش نظر یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ملک کی عوام کا رحجان ایک ہی سمت ہے، غلط
ہوگا۔کیونکہ دہلی میونسپل کارپوریشن سے بی جے پی کا پندرہ سالہ لوگوں نے اس
سے اقتدار چھین لیاہے۔ یہ دہلی والوں کا بہترین مظاہرہ ہے۔ ہماچل پردیش میں
بھی انتخابات ہوئے جہاں بی جے پی کی حکومت تھی۔ وہاں سے بھی بی جے پی
اقتدار سے باہر ہوگئی ہے۔ وہاں بی جے پی کو 25 اور کانگریس کو 40 نشستوں پر
کامیابی ملی ہے۔"
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تبدیلی آہستہ آہستہ شروع ہو چکی ہے۔ سیاست میں
خلاء ہوتا ہے۔ گجرات کا خلاء بی جے پی نے پُر کیا اور دہلی کا خلاءکجریوال
کی عام آدمی پارٹی نے پر کیا۔ سیاسی طور پر باشعور کارکنوں کو یہ حقیقت پیش
نظر رکھنی چاہئے کہ بہت سے لوگ آج تبدیلی چاہتے ہیں اور سیاسی کارکنوں کو
اس تبدیلی کے لیے ضروری اقدام و پروگرام رو بہ عمل لانا چاہئے۔
یہ حق گوئی ہے اور شرد پوار کے مطابق آج مہاراشٹر میں بھی وہی خلاء موجود
ہے۔
گجرات اور ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ جن سے
صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عوام نے جمہوری طرز عمل کے حق میں فیصلہ سنایا ہےگجرات
کے نتائج سے دیگر پارٹیوں کے حوصلے پست ہوئے ہوں ،لیکن ہماچل اور ایک حد تک
ایم سی ڈی کے فیصلے سے کئی اشارے ملے ہیں گجرات میں سیاست سے الگ ہٹ کر
کھیل کھیلے گئے۔
حیثیت مجموعی اس بار دو اسمبلیوں اور ایک میونسپل کارپوریشن کیلئے انتخابات
ہوئے تھے۔ تینوں ہی جگہ ہی ہے پی کو اقتدار حاصل تھا ۔ دہلی میونسپل کار
پوریشن بھی بی جے پی کے قبضہ میں تھی تو گجرات کی طرح ہماچل میں بھی بی جے
پی کی حکومت تھی ۔ اس اعتبار سے دہلی میونسپل کارپوریشن پر عام آدمی پارٹی
نے قبضہ کر لیا ہے اور وہاں بی جے پی کے پندرہ سال سے پہلے سے چلے آ رہے
اقتدار کوختم کر دیا ہے۔ اس طرح ہماچل پردیش میں بھی بی جے پی کی حکومت
تھی، کانگریس نے اقتدار پر واپسی کی ہے۔یہاں کی روایت کو ختم کرنے میں بی
جے پی ناکام رہی ہے۔ ویسے بھی ہماچل میں یہ روایت رہی ہے کہ ہر پانچ سال
میں ایک بار اقتدار کو بدلا جاتا ہے،یہ روایت راجستھان میں بھی ہے۔ بی جے
پی تاہم ریاست میں اس روایت کو توڑنے کی کوشش کر رہی تھی جس میں اسے کا
میابی نہیں ملی ہے ۔ گجرات میں مسلسل ساتویں مرتبہ اقتدار حاصل کرنے میں
کامیاب ہوئی ہے اور اس بار اسے ریکارڈ اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ جو نشانہ آج بی
جے پی کو حاصل ہوا ہے اس کی کوشش بی جے پی نے گذشتہ انتخابات میں کی تھی،
لیکن اس وقت راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے شاندار مظاہر ہ کیا تھا
اور تقریبابی جے پی کواقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔ تا ہم کچھ حواریوں اور
مفاد پرستوں نے بی جے پی کی مدد کی تھی اور اس بار بھی اپنا سر گرم رول ادا
کیا ہے۔
بی جے پی کی گجرات میں کامیابی پر چیخ وپکار کرنے والے صحافی اور ذرائع
ابلاغ کوئی بھی اس حقیقت پر روشنی نہیں ڈال رہا ہے کہ بی جے پی دہلی
میونسیل کارپوریشن اور ہماچل پردیش میں اپنا اقتدار گنوا بیٹھی ہے اور وہاں
اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ کا نگریس ک ہماچل کی جیت نے قدرے راحت
پہنچائی ہے۔ تاہم گجرات کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے
کہ بی جے پی نے اس کیلئے جو تیاری کی تھی وہ انتہائی موثر ثابت ہوئی ہے۔
اس کی نوجوانوں کو قریب کرنے اور اثرانداز ہونے والی پالیسیوں کااستعمال
کرنے کی حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی ہے۔امت شاہ جیسے لیڈر نے ووٹ بینک کاپی
سہارا لیا جوکہ ان سے توقع رہتی ہے۔اپوزیشن کے ووٹ بینک میں دراڑ اور تقسیم
کا بھی پورا پورا انتظام کردیا گیاتھا۔ بی جے پی کیلئے اس قسم کی حکمت عملی
انتہائی موثر ہوئی اور بی جے پی کو ریاست میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں
کامیابی ملی ہے۔
کانگریس کو جس شکل میں گزشتہ دو عشرے سے بی جے پی لیڈرشپ کے ذریعے سے پیش
کیا جارہا ہے،اس خول سے وہ باہر نہیں نکل پائی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گجرات
میں کانگریس اپنی زمین کھوچکی ہے۔ اسے گذشتہ انتخابات میں جو عوامی تائید
ملی تھی وہ برقرار نہیں رکھی جاسکی۔ اس میں اضافہ نہیں بلکہ نقصان کا پارٹی
کو سامنا کرنا پڑا ہے۔
گجرات میں بی جے پی کو19،میں سے 17 مسلم اکثریتی علاقوں میں کامیابی ملنا
ان کی موثروجامع حکمت عملی کا تجہ ہے۔ گجرات میں سیاسی اعتبار سے بی جے پی
کو کامیابی کی ہے لیکن دو مقامات پر اس کا اقتدار ختم بھی ہوا ہے اور یہ
حقیقت ہے کہ اسے گجرات میں بھی منفی حکمت عملی کا سہارا لینا پڑا تھا۔
دیکھتہ قابل غور ضرور ہو سکتا ہے۔
جنوبی ہندمیں اب کرناٹک اسمبلی انتخابات کی باری ہے اور بی جے پی اور اس
کی۔ہمنوا تنظیموں کی سرگرمیاں اس بات کو اجاگر کررہی ہیں کہ وہ ج وب کی اس
ریاست کو کھونا نہیں چاہتی ہے،حجاب،وقف ،لو جہاد،اور روزانہ نئے فتنے گروپ
پرست عناصر اٹھاتے ہیں۔ جس انداز میں بومئی حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی
ہیں۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک کوچھوڑنا نہیں
چاہتی ہے۔
کرناٹک میں یدورپانے اقتدار کے لیے خرید وفروخت کابازار گرم کیا ،وہ اظہر
من الشمس ہے اور دیڑھ دوسال سے فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔حال
میں مہاراشٹر _کرناٹک سرحدی تنازعہ کو چھیڑ دیا گیا ہے کہ اگر کمی وبیشی ہو
تو اس تنازعہ سے مدد مل جائے ،تقریباربع صدی سے معاملہ دبا ہواتھا،لیکن
مہاراشٹر کانگریس سربراہ نے الزام لگایا ہے کہ یہ کھیل کرناٹک انتخابات
جیتنے کے لیے مہاراشٹر کے نائب وزیراعلی دیویندرفڑنویس نے رچا ہے،خیراسمبلی
اور ضمنی انتخابات سے جو نتائج سامنے آئے ہیں،اس سے ثابت ہوچکا ہے کہ
مسلمان ایک بار پھر اپنے ووٹوں کی وقعت کھو چکے ہیں۔بڑی منصوبہ بندی سے
ووٹوں کے بارے میں ان کی اوقات دکھادی گئی ہے۔
|