آندھرا بردیش، حیدرآباد دکن سے
ایک کرم فرما نے ہمیں محترم اثر غوری کے کلام پر حضرت نادر المسدوسی کا
ستائشی تبصرہ ارسال کیا ہے اور تبصرے کے بارے میں ہماری رائے جاننا چاہی ہے۔
صاحبو ! خامہ بگوش نے کیا خوب کہا تھا کہ فی زمانہ جس رفتار سے شعراءکرام
پیدا ہورہے ہیں، اس کے مقابلے پر قارئین کی شرح پیدائش بہت کم ہے اور اس
بات کا قوی امکان ہے کہ آگے چل کر یہ صنف بالکل ہی معدوم ہوجائے گی۔ ایسی
صورت میں قاری کی پریشانی کا تذکرہ غیر ضروری ہے، شعرائے کرام کی پیدائش پر
شکر کرتے رہنا ہی کافی ہے۔ نیزاس عذاب الہی سے ڈرتے رہنا چاہیے جو شاعروں
کی صورت میں قوموں پر مسلط کیا جاتا ہے۔“
نادر المسدوسی ، غوری صاحب کو دکن کے صف اول کے شعراءمیں شمار کرتے ہیں
لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ صف کن اشخاص پر مشتمل ہے۔ حضرت مسدودی کے مطابق ،اثر
غوری کا ایک وصف خاص جسے وہ ودیعت الہی سے تعبیر کرتے ہیں،یہ ہے کہ جناب
غوری کی ابتدا سے تاحال (1983 تا 2005) شاعری کی سطح ہموار ہے۔ ہمارے ایسے
طفل مکتب کے مطابق یہ سطح اس قدر ہموارہے کہ یہاں آپ کچھ بھی کاشت کرسکتے
ہیں۔
اپنی بیان کی تائید میں نادر المسدوسی نے اثر غوری کے 1983 کے مجموعے سے یہ
شعر نقل کیا ہے:
ہیں ویران کیوں شہر کے بام و در
اندھیرا تو کچے مکانوں میں ہے
اس کا موازنہ انہوں نے غوری صاحب کے 2005 کے مجموعے کے مندرجہ ذیل شعر سے
کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان دونوں مجموعوں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو یہ
اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سا کلام کس زمانے کا ہے۔
مجھے تو لگتا ہے پاگل ہے گھر کا سناٹا
تمام رات جو دیوار و در میں رہتا ہے
دونوں مجموعوں کے درمیان 22 برس کا وقفہ ہے اور اس دوران بات ویرانی اور
اندھیرے سے ہوتے ہوتے پاگل پن اور سناٹے کی کیفیت میں آ پہنچی لیکن حیرت کی
بات ہے کہ مسدودی صاحب اسے محسوس نہ کرپائے۔
مسدوسی صاحب نے اپنے تجزئیے میں ایک ستم یہ بھی کیا ہے کہ جا بجا اثر غوری
کے کلام کاموازنہ غالب، فیض اور ناصر کاظمی سے کرڈالا ہے ۔ ایک جگہ لکھتے
ہیں:
” ملاحظہ فرمائیے کہ ناصر کاظمی کہتے ہیں:
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سورہی ہے
اثر غوری کہتے ہیں:
چٹائی شام غم کی کیا بچھاؤں
میرے کمرے کا چھپر بن رہا ہے
ایک اور جگہ حضرت مسدودی فرماتے ہیں:
”پرانے دور کے شاعر کی تہنائی اس کی ذات اور دوون خانہ کی حد تک محدود
تھی۔لیکن آج کے شاعر کی تنہائی سماج کے ہر فرد کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔“
مسدودی صاحب اپنے بیان کی تائید میں مزید لکھتے ہیں:
فیض کا یہ شعر دیکھئے:
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکون ایسا کہ مرجانے کو جی چاہتا ہے
غالب نے کہا تھا:
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
مسدودی صاحب نے مندرجہ بالا جید شعراءکی ٹکر پر اثر غوری کا یہ ٹکڑا نقل
کیا ہے:
جدا ہو کر بھی ہم ایک دوسرے سے
جانے کیوں محبت کررہے ہیں
آنکھ بند بھی کرلے تو دکھائی دوں گا
عمر بھر میں ترے کانوں میں سنائی دوں گا
ان اشعار کو سن کر ای این ٹی کے ڈاکٹروں کے کان کھڑے ہوجانا بعید از قیاس
نہیں۔ ہمارے خیال سے عاشق اگر محبوب کے کانوں میں عمر بھر سنائی دیتا رہے
گا تو محبو بھی کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہ سکتا۔ بلکہ اس کی زندگی
تو عمر بھر کے لیے ’ گونجتے کانوں ‘ کا مرکب بن کر رہ جائے گی اور اس بات
کا قوی امکان بھی ہے کہ یہ گونجتے کان کچھ عرصہ میں بہنے بھی لگیں گے۔
محض گونجتے کانوں پر کیا موقوف، مسدودی صاحب نے اثر غوری کے کلام میں چند
مزید ُپرہول کیفیات کی بھی نشان دہی کی ہے۔ لکھتے ہیں:
” اثر غوری کا جدید لب و لہجہ دیکھئے کہ کس طرح انہوں نے چونکا دینے والی
کیفیت پیدا کی ہے۔
رات بھر چیختے ہیں سناٹے
کوئی آسیب ہے مکان میں کیا
اثر غوری کے پہلے مجموعہ کلام ’بوند بوند روشنی‘ کا یہ شعر بھی اسی تنہائی
کی طرف اشارہ کرتا ہے:
ہر طرف خوفناک چیخیں ہیں
کس بھیانک کھنڈر میں اترا ہوں“
ہمیں تو ان اشعار کا قاری چونکنے سے زیادہ خوف زدہ ہو تا نظر آتا ہے ، ساتھ
ہی ساتھ اس کو جناب اثر غوری کی سلامتی کی فکر بھی لاحق ہوجاتی ہے ۔ خامہ
بگوش کی رحلت کے بعد ان کے دیرنیہ ہمدم، استاد لاغر مراد آبادی ہمیں ایک
سالخوردہ چائے خانے میں بیٹھے مل گئے۔ان چھ برسوں میں وہ مزید لاغر ہوچکے
ہیں لیکن بذلہ سنجی کا وہی عالم ہے جو خامہ بگوش کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔
استاد نے یہ اشعار سن کر فرمایا کہ ” اس قسم کے اشعار کے ساتھ تو کسی کھنڈر
ہی میں اترا جاسکتا ہے۔لیکن شاعر کو فکر مند ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کہ
اس کے پاس ان آسیبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک موثر حربہ ہے اور وہ ہے ان
کی اپنی شاعری! “
انہی آسیبی کیفیات کو مزید بیان کرتے ہوئے جناب غوری کا تازہ شعر ملاحظہ
ہو:
جھولتی ہے فکر کی کرسی اثر
اپنے کمرے کے ذرا اندر چلو
خامہ بگوش نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا:
” ہماری طرح بے شمار لوگوں کو پہلے بار معلوم ہوگا کہ شاعری کتنی مشکل سے
وجود میں آتی ہے۔ ردیف اور قافیے کی حد تک تو کام آسان ہے لیکن احساس کی
مکانیت اور زمانیت تخیل اور جذبے کے جمالیاتی آہنگ کے ساتھ منطق کو صورت
پذیر کرنا، ہفت خوان رستم طے کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ “
خامہ بگوش نے ٹھیک ہی تو کہا تھا ، جناب اثر غوری کے معاملے میں یہ بات
واضح ہوئی کہ اتنی مشقت کے بعد ہی اس قسم کے شعر کہے جاسکتے ہیں:
بچے کی آنکھ لگ گئی اتوار بھی ہے کل
بتی بجھاؤ گہری بہت رات ہوگئی
۔۔۔
اثر دفتر سے جلدی لوٹ آنا
کوئی ماں کے علاوہ بولتا ہے
حضرت مسدودی مندرجہ بالا اشعار پر فریفتہ ہوکر یہ نوید بھی سناتے ہیں کہ
سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد دکن میں ایک ریسرچ اسکالر انجم شافعی نے
پروفیسر محمد انور الدین کی زیر نگرانی ” اثر غوری فن اور شخصیت“ کے عنوان
سے مقالہ تحریر کیا اور درجہ اول میں کامیابی حاصل کی۔
ہمارے خیال سے یہاں حضرت مسدودی سے مقالے کے عنوان کے بیان میں سہو ہوا ہے۔
مقالہ ضرور لکھا گیا ہوگا اور اس کی درجہ اول میں کامیابی پر تو ہمیں صد
فیصد یقین ہے ، البتہ درست عنوان یہ رہا ہوگا:
اثر غوری۔FUN اور شخصیت |