جمیل الرحمن کی چالیس سالہ شاعری کا سفر اور نتیجہ

جمیل الرحمن جن کے چند مجموعے مخصوص فکری منظر پس منظر کے حوالے سے شائع ہو چکے ہیں،گزشتہ سال ان کا آزاد نظموں کا ایک مجموعہ”خواب،ہوااورخوشبو“شائع ہوا ہے۔ان کی نظموں پر کچھ لکھنے سے پہلے ان کے ایک وضاحتی نوٹ پر کچھ عرض کرنا مناسب لگتا ہے۔انہوں نے اپنے وضاحتی نوٹ کے دوسرے پیرامیں لکھا ہے: ”اگرچہ ہر نظم کو لکھتے ہوئے میں نے روایتی عروض اور پنگل سے حسبِ ضرورت کام لیا ہے مگر جہاں خیال اور جذبے کی ترسیل میں کسی معیّن لفظ کے استعمال کے بارے میں عروضی تقاضوں نے کوئی اڑچن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تو میں نے لفظ کی ناگزیریت کو عروض کی ثانویت پر ترجیح دی ہے۔عکس اور پرچھائیں ایسے قریب المفہوم الفاظ میں ان کی اپنی معنویت کے لحاظ سے زمین آسمان کا فرق ہے۔کسی ایک لفظ کی جو ہری اکائی نہ صرف معیّن بلکہ ہر دوسرے لفظ سے مختلف ہوتی ہے۔لہٰذا اگر کہیں ایک معیّن لفظ کا استعمال ناگزیر ہوجائے تو وہاں اس کا متبادل لفظ استعمال کرنے کا سوال ہی نہیں اُٹھتا۔خیال و جذبے کا جمال لفظ کے بنیادی جوہر کو بروئے کار لا کر ہی نکھر سکتا ہے۔میری رائے میں جہاں لفظ کے بنیادی جوہر کے امکانات کو بروئے کار لانے کا مسئلہ درپیش ہو،ایک نظم گو کے لیے عروض کی حیثیت ثانوی ہو جانی چاہیے۔“

جمیل الرحمن نے اپنے وضاحتی نوٹ میں اس رائے کا اظہار کرکے اس بات کا اقرار کر لیا ہے کہ وہ قادرالکلام شاعر نہیں ہیں۔یہ بات ممکن ہی نہیں کہ ایک شاعر کے پاس کوئی متبادل اور بہتر دوسرا لفظ نہ ہو،جو عروضی اور معنوی دونوں لحاظ سے درست بیٹھتا ہو۔عروض شاعری کی بنیاد ہے۔انہوں نے لفظ کی ناگزیریت کو عروض پر فوقیت دی ہے،یہ ان کی اپنی ناقص رائے ہے۔کلاسیکل شعراءاس نکتے پر دوسری طرح سوچتے ہیں۔یہاں صرف مرزا غالب کی ایک مثال دوں گا،جس سے جمیل الرحمن کے استدلال کی مکمل نفی ہوتی ہے۔غالب کا ایک مشہور شعر ہے۔
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے

غالب کے شعر کے دوسرے مصرعہ میں لفظ ”درد“استعمال ہوا ہے جو صرف عروض کی مرکزیت کو قائم کرنے کے لیے ہے۔ورنہ یہاں لفظ”مرض“ معنوی لحاظ سے بھرپور مفہوم کا حامل ہوتا،لیکن اس سے وزن کا خانہ خراب ہوجاتا۔

جیسا کہ جمیل الرحمن نے اپنی کئی نظموں میں لفظ کی ناگزیریت کا سہارا لے کر کیا ہے۔

جمیل الرحمن کے ایک تعارفی نوٹ میں اس بات کا ذکر بھی ہے کہ وہ اردو زبان و ادب ،علم المعانی و علم البیان میں بھی خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔انہوں نے اپنی نظموں میں اس بات کا کس حد تک خیال رکھا ہے،ابھی معلوم ہوجاتا ہے۔پہلی غلطی ان کے وضاحتی نوٹ کے آخری جملے میں موجود ہے۔
”ایک نظم گو کے لیے عروض کی حیثیت ثانوی ہو جانی چاہیے“

یہاں انہوں نے مصد ر ”جانا“چاہیے کو ”جانی“چاہیے،لکھا ہے جو قواعد کی رُو سے غلط ہے۔

ان کی ایک نظم”نامکمل بیاں“ کی ایک لائن ہے: ”درمیاں میں زمانوں سے ہوتی ہوئی“

یہاں موصوف نے درمیاں میں لکھا ہے،جو غلط ہے جبکہ درمیاں کا مطلب ہی بیچ میں ہے۔جیسے:دراصل،اصل میں۔۔درحقیقت،حقیقت میں۔۔اسی طرح درمیان،میان میں،یعنی بیچ میں۔

نظم”اک مٹھی آٹا لا دینا“کی سطریں
ناوقت صدائیں دینے لگے
بے طلب دعائیں دینے لگے
”ناوقت“کون سی زبان ہے۔یہاں بے وقت ہی فصیح ہوتا۔
نظم”کہاں ہے وہ جس کے لیے“ کی آخری سطر:
”الجھتے ہوئے خواب کی ہر گرہ کھولنی ہے“
یہاں ”کھولنا“ مصدر ہے۔موصوف نے کئی دوسری نظموں میں بھی مصدرکو غلط باندھا ہے۔
نظم”بستی اور مسافر“کی آخری سطریں:
کون ہے جو اڑتے بادل کو ٹوک سکا ہے کون ہے جو بہتی خوشبو کو روک سکا ہے
یہاں ”بہتی خوشبو“کی بجائے”مہکتی خوشبو“شاید بہتر رہتا۔بہتی شے کو کسی نہ کسی طرح تھوڑا بہت روکا جا سکتا ہے۔
نظم ”ماہی گیر“ کی سطر مری طرح سے وہ بھی بہت اکیلا ہے
یہاں ”مری طرح سے“ غلط ہے۔”مری طرح“درست ہے۔
نظم”دل کے افق پر ،ہوا سے پہلے“ کی سطر ”تیزی غم سے پھوٹ بہیں پھپھولے“
یہاں تیزی غم غلط ہے،کیونکہ فارسی و عربی لفظ کے ساتھ اردو و ہندی لفظ پر اضافت جائز نہیں لیکن جمیل الرحمن اسے درست خیال کرتے ہیں۔اس عیب سے بچنے کے لیے یہاں ”سرعتِ غم“لایا جا سکتا تھا۔اور بھی کئی نظموں میں انہوں نے اردو اور ہندی الفاظ پر اضافت لگائی ہے جو اساتذہ کے نزدیک فصیح اور مستحسن نہیں ہے۔البتہ اردو اور ہندی اسم کے ساتھ اضافت کو جائز قرار دیا گیا ہے اور اساتذہ نے برتا بھی ہے۔

نظم”میں خود سوچتا ہوں“کی سطریں۔
بلا ریب کوئی نہیں جانتا
میں خود سوچتا ہوں مجھے ایک مدت سے کیا ہو گیا ہے
”بلا ریب“ کونسی زبان ہے۔لاریب تو سنا اوربرتا دیکھاہے لیکن بلا ریب نہیں۔اس کی جگہ”حقیقت میں کوئی نہیں جانتا“ درست ہوتا۔دوسری سطروزن میں نہیں ہے۔وہی لفظ کی ناگزیریت والی بات لاگو ہو گئی ہے۔حالانکہ یہ سادہ سی سطر اس طرح بھی ہو سکتی تھی جس سے وزن بھی قائم رہتاہے۔
”سوچتا ہوں میں خود بھی ،مجھے ایک مدت سے کیا ہو گیا ہے“

نظم”نئے زینے کی تلاش“ کی سطریں:
”اک نئے زینے کی خواہش پر دبے پاؤں قدم رکھتی
پسِ در پھیلی تنہائی کی چادر کو لپیٹے
گھر کے اندر لوٹ جاتی ہو
کوئی تارہ افق پر ہو“

پہلی سطر میں ”دبے پاؤں“کے بعد”قدم رکھتی“کیا بات ہوئی؟یہاں”قدم رکھتی“معنوی اور ترکیبی لحاظ سے اضافی اور غیر ضروری ہے۔”قدم رکھتی“کے بغیر ہی سطر درست ہے،یعنی:
”اک نئے زینے کی خواہش پر دبے پاؤں
پسِ در پھیلی تنہائی کی چادر کو لپیٹے
گھر کے اندر لوٹ جاتی ہو
کوئی تارہ افق پر ہو“
نظم”فنا کے بے اسم راستے پر“ کی سطر:
”غبارِ فرسِ خیال کی طرح ایک دھند سی مسافتوں میں اُگی ہوئی تھی“

یہاں ”غبارِ فرسِ خیال“وزن میں نہیں کیونکہ فرس کی ”ف“ اور”ر“متحرک ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جمیل الرحمن کے نزدیک اگر ایک معیّن لفظ کا ستعمال ناگزیر ہو جائے تو وہاں اس کا متبادل لفظ اختیار کرنے کا سوال ہی نہیں اُٹھتا۔دوسرے اس بحر میں کسی قسم کا خلط جائز نہیں۔یہاں”غبارِ اسپِ خیال“کی ترکیب درست رہتی۔اس سطر میں دوسرا عیب”اُگی ہوئی تھی“ہے۔کوئی بتائے کہ دھند کبھی اُگتی بھی ہے؟
نظم”پھولو آؤ کب آؤ گے“کی پہلی دو سطریں غور طلب ہیں۔
سانسوں کی آہٹ مدھم ہے
سینے میں شورِ تلاطم ہے
یہاں اگر ”مدھم“ اور ”تلاطم“ قافیہ ہے تو یہ غلط ہے،کیونکہ تلاطم کے ”ط“پر پیش ہے،زبر نہیں۔
نظم”جہنم“ کی سطر: نہ ملتا ہے افق کوئی کہیں پر
یہاں”کہیں پر“ غلط ہے۔کہیں،کہاں،یہاں ،وہاں،یہیں اور جگہ کے ساتھ”پر“ نہیں لگایا جا سکتا اور نہیں لگانا چاہیے۔

ایسی اغلاط سے ہٹ کر جمیل الرحمن نے جو نئی نئی تراکیب استعمال کی ہیں،وہ بہت ہی ناقص اور حقیقت سے دور اورمعنوی طور پر انتہائی کمزورہیں،بلکہ غلط بھی ہیں۔اب ہمیں کوئی بتائے کہ”برفیلے سورج“بھی ہوا کرتے ہیں؟دہشتِ کم خرام“،”گھنگور اداسی“ یہ کیسی تراکیب ہیں اور ان کے کیا معنی ہیں۔”طعنِ رنجِ سفر“اور اسی قسم کی دوسری تراکیب کیا معنی رکھتی ہیں۔یہ نہ صرف جمیل الرحمن کی ناقص کوشش ہے بلکہ انہوں نے اپنی صلاحیت کو غلط سمت موڑا ہے۔ان کی اکثر نظمیں عام سی نظمیں ہیں،کئی نظموں میں تسلسل نہیں،نہ لفظی اور نہ معنوی۔کئی سطریں بے تعلق اور بے ربط ہیں جو نظر ثانی چاہتی ہیں۔

یہاں تک تو ایک طائرانہ نظر سے تنقیدی پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جمیل الرحمن اصلی اور معتبر شاعر نہیں ہیں۔وہ واقعی شاعر ہیں اور انہوں نے اچھی نظمیں بھی کہی ہیں۔جمیل الرحمن نے آزاد نظم کی روایت کو اپنے فکری اور شعوری تناظر میں سمجھنے اور برتنے کی پوری اور مستحسن کوشش کی ہے۔ان نظموں میں جہاں دھیما پن ہے،وہاں کہیں کہیں لہجہ بلند آہنگ بھی ہے۔
شیر کی شہ پر ہے گرگِ بد نہاد اپنی فتح پر نعرہ زن
لے رہے ہیں کتنے اطمینان سے جنگل کے سارے جانور
گردشِ شام و سحر سے دم بدم اپنی زباں بندی کی داد
اور چلاتی ہے دام گرگ میں بز
الجہادوالجہادوالجہاد (فلسطین)

ان کی بعض نظموں میں بلا کی سلاست اور روانی ہے جس سے قاری ایک خوش کن حظ سے ہمکنار رہتا ہے۔

ان کی نظمیں”کیا عجب تماشا ہے“،”خاموشی کا سچ“،”مگر ہے بابا فلسطین“،”اجازت“،”عکسِ بے نشاں“”اندیشہ“،”خوف رواں“اور”ناراض روشنی سے روٹھی ہوئی نظمیں“اہم نظمیں ہیں اور اعلیٰ معیار کی حامل ہیں۔جمیل الرحمن نے اپنی شاعری میں تنہائی کے احساس کو ایک انوکھے انداز میں پیش کیا ہے،جس سے قاری کا ذہن متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
خواب زدہ زمین پر
وقت کی بات رہ گئی
دیدہ غم کے روبرو
ہجر کی رات رہ گئی
۔۔۔
چہرہ خاک پہ مرتسم
ایک جہانِ خواب تھا
اور جہانِ خواب تک
فاصلہ بے حساب تھا (ناراض روشنی سے روٹھی ہوئی نظمیں)

مجموعی طور پر جمیل الرحمن کا یہ مجموعہ آزاد نطم کی تاریخ میں اپنی خامیوں کے باوجود ایک مخصوص اہمیت کا حامل ثابت ہوگا۔جمیل الرحمن نے مجموعے کے آخر میں چند طویل نثری نظمیں بھی شامل کی ہیں،جو نثری نظم کم اور مختصر افسانہ زیادہ لگتی ہیں۔
Ehsan Sehgal
About the Author: Ehsan Sehgal Read More Articles by Ehsan Sehgal: 2 Articles with 3449 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.