کراچی جل رہا ہے اور کئی نیرو
بانسریاں بجا رہے ہیں۔دکھ کی بات یہ ہے کہ ہر نیرو کی ہر بانسری سے امن کی
کوئی دھن برآمدنہیں ہوتی۔آگ خون وحشت اور دہشتت ہی نکل کے تباہی اور بربادی
کا ننگا ناچ ناچتی ہے۔کوئی ایسا نہیں جو کہتا ہو کہ کراچی مر رہا ہے۔ہر شخص
یہی دہائی دیتا دکھائی پڑتا ہے کہ میں مر رہا ہوں۔ مہاجر مر رہے
ہیں۔پختونوں کو مارا جا رہا ہے۔بلوچوں کو نشانہ بنایاجا رہا ہے۔کوئی یہ
نہیں کہتا کہ دشمنوں کا ہاتھ پاکستان کی شہہ رگ پہ ہے۔پاکستان لہو لہو
ہے۔پاکستان کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں۔سوچ کے سارے زاویئے ہی لسانیت کی
جانب ہیں۔وہ سندھی جنہوں نے ان لٹے پٹے اور بے ٓاسرا لوگوں کو امان دی
تھی،آج خود بھی اس کشت وخون کا حصہ ہیں۔ان کے جسموں میں سوراخ کئے جا رہے
ہیں۔انہیں بھی ان کے علاقوں سے در بدر کیا جا رہا ہے۔وہ بھی تیر ونفنگ سے
لیس ہیں۔
مہاجروں کی پاکستان سے محبت کی بات کریں تو ذہن اس بات کو ماننے پہ آمادہ
ہی نہیں ہوتا کہ وہ لوگ جو اس نئے ملک کو اپنا جان کے اس کے لئے اپنی
عصمتوں اور جانوں کی قربانی دے کے یہاں پہنچے تھے۔آج اسی شاخ پہ بیٹھ کے
اسی پہ کلہاڑا چلانے کے در پے ہیں۔یہ وہ لوگ نہیں ہیں اور نہ ہی یہ اس نسل
کے لوگ ہیں۔یہ ماننا چاہئیے کہ اردو بولنے والوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں
اور انہی زیادتیوں کی بناءپہ یہ لوگ جنگ پہ آمادہ ہوئے اور الطاف حسین نے
انہیں اسلحہ تھما دیا۔یوں یہ لوگ ہندی فلموں کے بھائی بن گئے اور الطاف
حسین ان بھائیوں کا سر غنہ۔غریب اور مظلوم کو جائے پناہ کی تلاش ہوتی
ہے۔کراچی کے اردو بولنے والے امن پسند تھے۔ان کی اس امن پسندی نے انہیں
غریب کی جورو بنا دیا تھا۔انہیں سائباں میسر آیا تو انہوں نے اپنی ساری
شفقتیں الطاف بھائی پہ لوٹا دیں۔پڑھا لکھا آدمی ظلم اور جبر کو بھی ایک حد
سے زیادہ برداشت نہیں کرتا۔جب الطاف بھائی اور ان کے گرگوں نے اپنی دھاک
بٹھانے کو کراچی کے باقی لوگوں پہ اسلحہ تانا تو اسے اردو بولنے والے عام
شہری نے بھی ناپسند کرنا شروع کر دیا۔دشمنوں کی طرف اٹھی ہوئی بندوقوں کا
رخ اپنے ہی لوگوں کی طرف پھیر کے انہیں حکم دیا گیا کہ وہی کرو جو کہا جاتا
ہے ۔کچھ کوعبرت کا نشان بھی بنایا گیا۔باقی عوام کو کان ہو گئے کہ اب ہمیں
وہی کرنا ہوگا جس کا یہ لوگ حکم دیں گے۔ایم کیو ایم کا پہلے انتخابات کا
مینڈیٹ حقیقی تھا اور آج کل کا یر غمالی۔اب جو نہیں مانتا عمران فاروق بنا
دیا جاتا ہے۔
سندھ خصوصاََ کراچی کو شہر دلبراور شہر دلبراں کا نام دیا جاتا ہے۔یہاں جو
بھی آیاکراچی نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔اسے کھانے کو دیا۔اس کا تن
ڈھانپا۔آہستہ آہستہ اسے عزت بھی دی۔پورے پاکستان کی طرح سرحد کے باسیوں کے
لئے بھی کراچی ہمیشہ خوابوں کا شہر رہا۔جس کا رزق اپنے علاقے میں تنگ
ہوا۔اس نے کراچی کی راہ لی اور کراچی نے اسے ماں کی طرح گود لے لیا۔پٹھان
اپنی جبلت میں محب وطن ہے۔پٹھانوں کی تحریک آزادی میں پاکستان کے لئے
قربانیوں کو جھٹلانا بڑی زیادتی ہو گی۔جب سرحد کے کچھ علاقوں میں آپریشن
شروع ہوا تو پاکستان کے اندر ایک دوسری ہجرت وقوع پذیر ہوئی۔اس دوسری ہجرت
کے نتیجے میں بہت سارے پٹھان بھی کراچی پہنچے۔جس طرح مہاجر ذہنی طور پہ
انتہائی ترقی یا فتہ اور جسمانی طور پہ انتہائی کمزور تھے۔یہاں اس کا الٹ
تھا۔پٹھان جسمانی طور پہ انتہائی تنومند اور پھرتیلا تھا اور ذہنی طور پہ
اس میں وہ مولوی مدن کی سی بات نہ تھی۔ان لوگوں نے وہاں چھوٹا موٹا کاروبار
کرنا شروع کیا۔مزدوری کی، ریڑھیاں لگا لیں۔شام کو جب یہ لوگ اپنے خون پسینے
کی کمائی لے کے گھر جانے لگتے تو بھائی لوگ اپنا حصہ وصولنے کو آموجود
ہوتے۔یہ فطرت میں آزاد لوگ تھے۔انہیں بڑی بڑی طاقتیں اپنا غلام نہ بنا سکی
تھیں۔یہ اپنے ہی ملک میں یہ غنڈہ گردی کیسے برداشت کرتے۔انہوں نے بھی
سائباں کی تلاش شروع کر دی۔اے این پی نے انہیں پلٹ فارم دیا۔پٹھان کے بارے
میں مشہور ہے کہ روٹی ہو نہ ہو اس کے پاس اسلحہ ضرور ہوتا ہے۔کچھ اسے اے
این پی والوں نے دے دیا۔پھر اس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے۔خون بہانا تو
پٹھان کی فطرت میں ہے۔انہوں نے وہ رنگ دکھائے کہ ایم کیو ایم جو اپنے آپ کو
استادفن سمجھتی تھی اس کی بھی چیخیں نکل گئیں۔
بد قسمتی سے اسی پراسس کے دوران سندہ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی اور
زرداری "سب پہ بھاری "سندھ کے بلا شرکت غیرے مالک بن گئے۔ذاتی جبلت اور
سندھی کلچرکے عین مطابق انہوں نے بھی کراچی والوں سے اپنا حصہ وصولنے کے
لئے ذوالفقار مرزے اور شرجیل میمنے مقرر کردئیے۔شام ڈھلے ان کے کلاشنکوفوں
کے جلو میں جھانکتے کشکول بھی کراچی کی شاہراہوں پہ رقصاں نظر آنے لگے۔پہلے
سے اس ڈیوٹی پہ مامور دوسری پارٹیوں کو یہ مداخلت ایک آنکھ نہ بھائی اور
یوں وہ منظر نامہ تخلیق ہوا جو آج کل ہمارے سامنے ہے۔ اب سائیں زرداری کے
بڑی حکومت میں بھی کچھ سٹیک ہیں۔اس لئے وہ ایم کیو ایم کو راضی رکھ کے بڑا
بزنس اپنے ہاتھ رکھنا چاہتے ہیں۔جبکہ ذوالفقار مرزا چونکہ پیپلز پارٹی کی
طرف سے سائیں کا کامدار ہے،منشی ہے۔اسے کراچی سے بھتہ وصولی کا مشن سونپا
گیا ہے۔اس لئے اس کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی کہ سائیں کی کیا مجبوریاں
ہیں۔مرزا شاہ کا شاہ سے زیادہ وفادار ہے۔اسے لگتا ہے جیسے وہ نااہل ہے۔ اسے
جو کام سونپا گیا تھا وہ اسے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا سکا۔اسے لگتا ہے کہ
اس سے تو اس کی گھر والی زیادہ بہتر انداز میں کام کر رہی ہے۔اسے لگا کہ بے
چارہ" رامان ملک" (جس بندے کو سورہ اخلاص تک نہ آتی ہو وہ اپنے آپ کو رحمٰن
ملک کہتا ہے) اس کا دمن ہے۔وہ یہ بات جانتا ہی نہیں کہ وہ تو کسی اور دائرے
میں سائیں کی چاکری کر رہا ہے جس کا مرزے کو اندازہ نہیں۔ذوالفقار مرزا وہ
چاکر ہے جو مالک کے لئے اپنی جان مال عزت سب کچھ قربان کر سکتا ہے۔ایسے لوگ
روحانیت میں ولایت کے انتہائی اعلیٰ درجے پہ فائز ہوتے ہیں۔جن کا سب کچھ
مالک ہوتا ہے۔وہ مالک کے حکم پہ بھی خاک کے پتلے کے آگے سجدہ ریز نہیں
ہوتے۔اسی دھن میں مرزا نے مہاجروں کو بھوکے ننگے قرار دیا۔ایسے ہی لوگ مالک
کی مرضی کے خلاف وحدت کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ان کے من میں یہی ہوتا ہے کہ
وہی مالک کے سب سے زیادہ وفادار اور سب سے قریبی ہیں۔جب انہیں خبر پڑتی ہے
کہ یہ منصب تو ان کے پاس نہیں تو پھر وہ سب کچھ تباہ کرنے پہ اترآتے ہیں
اور آخر کو راندہ درگاہ قرار پاتے ہیں۔ذوالفقار مرزا غریب بھی کچھ محبت اور
کچھ تکبر میں مارا گیا۔اب وہ راندہ درگاہ ہے۔سیاست سے اس کی چھٹی ہوگئی
ہے۔مالک کا وہ ابھی بھی دم بھرتا ہے لیکن اپنے منصب کے چھن جانے کا اسے وہ
دکھ ہے کہ اس کے لئے وہ مالک کی بھی ایسی تیسی کرنے کو تیار ہے۔اور جناب
ہمیں دیکھیئے کہ ہم اب " قدم بڑھاﺅ ذوالفقار مرزا کا نعرہ مارنے کے لئے
اپنا حلق پھاڑنے ہی والے ہیں "خیر یہ کوئی ایسی انہونی بھی نہیں ہر راندہ
درگاہ اپنے لئے مالک کی بارگاہ سے کچھ اختیار تو طلب کرتا ہی ہے۔ |