کراجی جو کبھی عروس البلاد
کہلاتا تھا جسے روشنیوں کا شہر ہونے کا اعزاز حاصل تھا جو غریب پروری کی
بناءپر غریبوں کی ماں کہلاتا تھا۔ آج بدامنی، قتل و غارت اور کرپشن کی
علامت بن چکا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات اتنے تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں کہ
اہلیان کراچی اس کو بھی معمولات کا حصہ سمجھنے لگ گئے ہیں۔ جب سے ایم کیو
ایم نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ اسی دن سے شہر قائد میدان کارزار
کا نقشہ بنا ہوا ہے۔ شاہ فیصل کالونی ہو یا ناظم آباد، بنارس ہو یا کورنگی،
ہر جگہ خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور اس پر مزید سیاست دانوں کے دل
جلانے والے بیانات ”مجرموں کو بے نقاب کردیں گے، امن خراب کرنے والوں کو
کیفر کردار تک پہنچائیں گے“ پتہ نہیں لاشوں کی سیاست کرنے والے کن مجرموں
کی بات کر رہے ہیں اور معلوم نہیں یہ نقاب کشائی کی تقریب کب ہوگی؟ جنگ
خواہ ایم کیو ایم اور اے این پی کی ہو یا حکومت اور ایم کیو ایم کی۔ نقصان
ہمیشہ غریب کا ہوتا ہے اور جب وہ غریب اندھی گولی کا نشان بن کر گرتا ہے تو
نہ تو اس کا خون اے این پی کے جھنڈے کی سرخی میں اضافہ کرتا ہے اور نہ ہی
وہ جئے بھٹو کا نعرہ لگاتا ہے اور نہ ہی اس کے کانوں میں لندن کا فکر انگیز
خطاب گونج رہا ہوتا ہے بلکہ اس کی آنکھوں میں فقط اس کے ادھورے خواب ہوتے
ہیں۔ اس کی نگاہوں میں صرف اس کے گھر کی چوکھٹ ہوتی ہے جہاں اس کی باوفا و
باشعار بیوی اپنے سہاگ کی سلامتی کی دعائیں کرتے نہیں تھکتی اس کی چشم تصور
میں وہ معصوم بچے ہوتے ہیں جن کے لیے اس غریب نے ہزاروں سپنے دیکھے ہوتے
ہیں۔
بہرکیف! کراچی کے حالات اپنے معمول پر آ گئے ہیں لیکن کیا پتہ یہ شعلہ کب
بھڑک اٹھے ہر پارٹی دوسرے کو حالات کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ پاکستان کے
وزیر داخلہ ملک صاحب نے اپنا بیان داغ دیا ”کراچی میں کٹی پہاڑی پر طالبان
فائرنگ کر رہے ہیں“ اور دوسرے بیان میں ارشاد فرمایا کہ 70 فیصد قتل بیویاں
اور گرل فرینڈز کرواتی ہیں۔ حیرت اس پر ہے کہ جو شخص سورة الاخلاص نہ پڑھ
سکتا ہو اسے طالبان کا نام کیسے یاد رہ گیا ہے اور اگر بقول ان کے یہ قتل
بیویاں اور نیم بیویاں کرواتی ہیں تو اچھا ہے ہم اب تک کنوارے ہیں۔
کراچی کے ان حالات کی وجوہات کسی بھی باشعور انسان سے مخفی نہیں۔ لسانی
بنیادوں پر پارٹی بازی، ناجائز اسلحہ کی بھرمار، جدید اسلحہ سے لیس گینگ،
بیرونی رقم سے چلے ہوئے ٹارگٹ کلر اور اپنے مفادات کے لیے بے گناہوں کے خون
کے نذرانے چڑھانے والے کراچی کے ماتھے پر وہ کلنک ہیں جن سے اس کی تاریخ
ہمیشہ بدنما رہے گی۔ شہر قائد کے ان حالات کا حل بیانات نہیں بلکہ مثبت اور
ٹھوس اقدامات ہیں سب سے پہلے تو کراچی کو اسلحہ کی لعنت سے نجات دلائی
جائے۔ دوسرا پولیس اور رینجرز کو بااختیار بنایا جائے۔ تیسرا اگر پولیس اور
دیگر امن قائم کرنے والے ادارے امن قائم کرنے میں ناکام ہوں تو فوج سے
تعاون لیا جائے جب وانا اور وزیرستان میں قیام امن کے لیے فوج کی مدد لی
جاسکتی ہے تو کراچی جیسے اقتصادی لحاظ سے ملک کے دارالحکومت ہونے کا مرتبہ
حاصل ہے اس میں فوج سے مدد کیوں نہیں لی جائے گی کراچی میں اگر بدامنی کی
صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو بعید نہیں یہ آگ ملک کے دوسرے شہروں میں
بھی پھیل جائے۔ چوتھا اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی تہہ دل سے معافی
مانگیں آخر وہ کونسا گناہ ہے جو ہم میں نہیں پایا جاتا۔ جھوٹ رشوت، غیبت،
چوری، شراب نوشی، سودی لین دین، زنا، اہل علم کا تمسخر غرض ہر قسم کے گناہ
میں ہم پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں گناہوں کے نتیجہ میں زمیں پر فساد برپا ہے
یہ اللہ کا عذاب ہی ہے جو کرپشن، لوڈشیڈنگ مہنگائی اور بدامنی کی صورت میں
ہم پر مسلط ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے گناہوں کو معاف
فرمائیں اور ہمیں ان کرپٹ حکمرانوں سے نجات عطا فرمائیں کیونکہ یہ بھی کسی
عذاب سے کم نہیں۔ |