' لانس نائیک محمد محفوظ شہید ' اسے لکھتے ہوئے جذب و کیف
کی عجیب فضا طاری رہی ،جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا!
---------
لانس نائیک محمد محفوظ شہید
از قلم : عصمت اسامہ ۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ،انھیں مردہ مت کہو،بلکہ وہ زندہ
ہیں لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے ۔سورہ البقرہ ،آیت154.
کسے معلوم تھا کہ ' ملکاں ' گاؤں میں ایک ایسا فرزند پیدا ہوگا جس کے نام
کے ساتھ یہ گاؤں بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور کسے معلوم تھا کہ 30
کلومیٹر کے فاصلے پر جہاں پانیوں پر پن چکیاں چلائی جاتی ہیں ،اس علاقے کا
نام اسی وجہ سے چکیاں کہلاتا ہے ،وہ زرخیز زمین ایک شہید کے جسد سے سرفراز
کی جاۓ گی؟ یہ تذکرہ ہے ،محمد محفوظ شہید کا جو 1971ء کی جنگ میں مادر_ وطن
کی حفاظت کی خاطر داد_شجاعت دیتے ہوئے شہید کئے گئے۔ آپ کو پاکستانی فوج کا
سب سے بڑا اعزاز ،نشان_حیدر عطا کیا گیا۔ یہ اعزاز حضرت علی رضی اللہ عنہ
کے نام 'حیدر ' سے موسوم ہے۔ حیدر کے معنی 'بار بار حملہ کرنے والے شیر '
کے ہیں۔ایسا شیر جو مسلسل جدوجہد جاری رکھتا ہے ۔بلاشبہ محمد محفوظ شہید اس
اعزاز کے مستحق تھے جب کہ شہید کا اخروی اجر ،رب العالمین ہی جانتا ہے۔
یہ سترہ اور اٹھارہ دسمبر 1971ء کی درمیانی رات تھی ۔ 16 دسمبر کو پاک
بھارت جنگ میں سیز فائر ہوچکا تھا ۔ پاک فوج نے جنگ بندی کی وجہ سے اپنی
کارروائیوں کو روک دیا تھا لیکن بھارت جیسا دشمن کب کسی معاہدے کا لحاظ
رکھتا ہے، وہ موقع کی تاک میں تھا ،خصوصا" اس حالت میں کہ پاک فوج نے کچھ
علاقے کو بھارت سے چھڑوایا تھا اور اب دشمن اس علاقے پہ دوبارہ قبضہ کرنا
چاہتا تھا۔بھارت نے رات کے اندھیرے میں پاک فوج پر،واہگہ اٹاری سیکٹر کے
مقام پر بھاری اسلحہ بارود کے ساتھ ،دھاوا بول دیا۔ پلاٹون نمبر 3، جس میں
محمد محفوظ شامل تھے ،ہراول دستے کے طور پر آگے آگے تھی ، دشمن کی مشین
گنوں کا نشانہ بن گئ،گولیوں کی بوچھاڑ نے محمد محفوظ کی ٹانگوں کو شدید
زخمی کردیا اور ان کی گن بھی اڑادی گئ لیکن محفوظ نے ساتھی سپاہی کی گن
پکڑی جو شہید ہوچکا تھا اور دشمن کا بھر پور مقابلہ کیا ،جب گولیاں ختم
ہوگئیں تو آپ نے پیش قدمی شروع کردی۔ حالت ایسی تھی کہ دونوں ٹانگیں گولیوں
سے چھلنی تھیں ،پاک دھرتی کے نگہبان نے کہنیوں کے بل رینگتے ہوئے آگے بڑھنا
شروع کیا اور زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے ،بغیر کسی اسلحہ کے ،دشمن کے بنکر
تک پہنچ گیا۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی !
کی عملی مثال بن کر محمد محفوظ نے دشمن کے مورچے میں اتر کر گارڈ کو گردن
سے دبوچ لیا ،اتنے میں دشمن کے ایک سپاہی نے محفوظ پر وار کیا اور پاک فوج
کے فرزند نے اس حالت میں جام_ شہادت نوش کیا کہ دشمن کی گردن ہنوز اس کے
آہنی ہاتھوں کے شکنجے میں پھنسی تھی !
ہم سے جو ٹکراۓ،وہ گنواۓ اپنی جان
سب فوجوں سے اعلیٰ ہے فوج_ پاکستان!
محمد محفوظ کی حیران کن پیش قدمی اور شہادت سے دشمن بھی ششدر رہ گیا اور
بعد میں بھارتی کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل پوری نے بھی محفوظ شہید کی ہمت
و جرات کا اعتراف کیا۔
شہید کے بھائی محمد معروف کا کہنا ہے کہ میں بھائی کی شہادت کے بعد لاہور
گیا تاکہ معلوم کروں کہ میرا بھائی کس طرح لڑا تھا، اس کے ساتھیوں نے جواب
دیا کہ جس طرح محفوظ لڑا ہے ،اس کی مثال نہیں ملتی ،اس نے سینے پر گولیاں
کھائیں ،اس کی ایک ٹانگ جسم سے بالکل جدا ہوچکی تھی لیکن وہ حواس برقرار
رکھتے ہوئے کہنیوں کے بل دشمن کے مورچے میں جا گھسا۔محفوظ کے صوبیدار میجر
نے کہا کہ ہم ان شاءاللہ،اس کے لئے پاک فوج کے سب سے بڑے اعزاز کو حاصل
کرنے کی سفارش کریں گے ،اگر وہ نہ مل سکا تو ہلال_جرات ضرور ملے گا۔ پھر وہ
وقت آیا کہ محمد معروف نے ریڈیو پاکستان سے اعلان سنا کہ حکومت_پاکستان کی
جانب سے محمد محفوظ شہید کو نشان حیدر دیا جائے گا۔ صدر ہاؤس میں ایک
سرکاری تقریب کے دوران ،شہید کے والد کو بیٹے کا یہ اعزاز عطا کیا گیا۔
سلام ہے ایسے والدین پر ! اعزاز ملنے کے بعد شہید کی میت کو دوسری جگہ
منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیوں کہ وہاں جگہ تنگ تھی ،فوجی سلامی نہیں دی
جاسکتی تھی۔ شہادت کے چھ ماہ ،تیرہ دن بعد جب قبر کھولی گئ ،اس وقت ہزاروں
کا مجمع تھا،مٹی سے بہت پیاری خوشبو آنا شروع ہو گئی۔ شہید کے بھائی نے
تابوت کے نیچے ہاتھ ڈالا تو وہ تازہ خون سے تر ہوگیا۔ میت کو چارپائی پر
رکھا گیا تو تابوت سے خون ٹپکنا شروع ہو گیا۔شہید کے خون کے تقدس کی وجہ سے
نیچے ایک برتن رکھ دیا گیا جس میں خون ٹپکتا رہا۔شہید کے بھائی نے عالم_
دین کی اجازت سے کفن ہٹا کے شہید کا چہرہ دیکھا تو وہ بالکل ہشاش بشاش تھا
اور داڑھی بڑھی ہوئی تھی ،حالانکہ شہادت کے وقت داڑھی موجود نہیں تھی ۔شہید
کے سینے پر 6 ماہ پرانے پھول ،بالکل تروتازہ تھے ،مہک رہے رھے۔ ان کے
خاندان کا ایک بندہ صغیر جو قبریں کھودتا تھا ،وہ جب قبر میں میت رکھنے لگا
تو اسے قبر سے آواز آئی کہ اب تم چھوڑ دو ،میں سنبھال لوں گا !
پنڈی کہوٹہ روڈ پر چکیاں کے مقام پر شہید کا مزار ہے جہاں ہر سال فوجی
سلامی دی جاتی ہے۔
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم ،جو چلے تو جاں سے گذر گئے
رہ_یار ،ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنادیا !
محمد محفوظ شہید کی پیدائش 25 اکتوبر 1944ء کو ہوئی،بچپن میں کبڈی کھیلا
کرتا تھا،اس نے اپنی طاقت سے دشمن کو پچھاڑ کے رکھ دیا ،اپنے خون_معطر سے
پاک سرزمین کو سیراب کیا،شہید کے کردار کی ہیبت اس کے مزار پر بھی محسوس کی
جاسکتی ہے ۔ جہاں شہید کو سب سے پہلے دفن کیا گیا تھا ،وہ جگہ اس کے والد
صاحب نے اپنے لئے مخصوص کرلی تھی چنانچہ 2003ء میں جب والد صاحب کی وفات
ہوئی تو انھیں اپنے شہید بیٹے کی قبر میں دفن کیا گیا۔محمد معروف نے بیان
کیا کہ ایک دن شہید بھائی میرے خواب میں آئے ،میں نے کہا کہ تمہاری تو ٹانگ
کٹ گئ تھی ؟ وہ کہنے لگے ،نہیں یار ،صرف انگوٹھا زخمی ہوا ہے ،تم ایک کام
کرو ،میرے مزار پر پانی نہیں ہے ،اس کا بندوست کرو۔ چنانچہ پھر میں نے
کنواں کھدوایا اور پانی کا بندوبست کر دیا۔
محمد محفوظ شہید نے جان لڑادی اور دشمن پر اپنی ہیبت کی دھاک بٹھا دی ،آپ
کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
نکھار ،گلشن_ اسلام پر جو آیا ہے
خدا کے فضل سے ہے یہ عطا شہیدوں کی
ولا تقولوا لمن یقتل سے ہے واضح
رہے گی دہر میں قائم ،وفا شہیدوں کی
کسی نے موڑا نہیں چہرہ اپنا مقتل سے
گواہی دیتی ہے یہ کربلا شہیدوں کی !
#
|