حالیہ انتخاب میں عوام نے واضح فیصلہ کیا ۔ اس لیے تینوں
جماعتوں کو بڑے سکون سے اپنی اپنی حکومت بناکر عوام کے فلاح بہبود میں لگ
جانا چاہیے تھا لیکن موجود سیاسی رہنماوں کو اس میں دلچسپی ہی نہیں ہے۔ ان
کے اندر اقتدار کی ہوس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اور عدم تحفظ کا احساس
چین نہیں لینے دیتا۔ ہماچل سے شروع کریں تو جملہ 68 ارکانِ اسمبلی میں سے
40 کا تعلق کانگریس سے ہے اور بی جے پی کے صرف 25 ہیں ۔ ان دونوں جماعتوں
کے درمیان 15کا فرق معمولی نہیں ہے۔ کانگریس اپنے ارکان کے مشورے سے
وزیراعلیٰ کا تعین کررہی تھی ۔ اس میں دو دن لگ گئے حالانکہ اس بیچ نہ تو
گجرات میں وزیر اعلیٰ کی حلف برداری ہوئی اور نہ دہلی کا میئر بنا لیکن بی
جے پی کا بیان آگیا کہ اگر ضرورت پیش آئی تو ہم تیار ہیں۔ یہ بیان دراصل
بلی کے خواب میں چھیچھڑے جیساتھا لیکن ’ بلی کے بھاگوں چھینکا ‘ہر بار نہیں
ٹوٹتا الٹا بی جے پی کا سپنا ٹوٹ کر بکھر گیا۔ یہ بیان دوبارہ اقتدار حاصل
کر لینے کی شدید خواہش کے انگڑائی لینے کا اشارہ تھا ۔ کمل والے مناجات
کررہے تھے کہ کسی طرح مخالفین کے درمیان پھوٹ پر جائے اور ان کے بھاگ کھل
جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کانگریس نے سکھویندر سکھو کو وزیر اعلیٰ بناکر
بی جے پی کواقرباء پروری کی الزام تراشی سے بھی محروم کردیا ۔
ہماچل پردیش میں تو خیر سب کچھ خوش اسلوبی سے نمٹ گیا لیکن دہلی میونسپل
کارپوریشن میں عام آدمی پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان جوتم
پیزار کا سلسلہ تھمتا نظر نہیں آتا ۔ سب سے پہلے دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ
نے خریدو فروخت کی کوشش کا الزام لگا کر کہا کہ اگر بی جے پی والے عآپ
کونسلرس سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ ان کے فون ریکارڈ کرلیے جائیں
گے۔ اس طرح گویا عآپ نے اپنے حریف کو خبردار کردیا کہ وہ فون کے ذریعہ
معاملات طے کرنے کی غلطی نہ کرے حالانکہ یہی تاکید خفیہ طور پر کی جاتی اور
دوچار فون ریکارڈ ہوجاتے تو بہتر تھا لیکن ممکن ہےاس کا مقصد چور کو پکڑنے
کے بجائےاس کو خوفزدہ کرنا رہا ہو۔ اس اعلان کے بعد عآپ نے دوسرا دعویٰ یہ
کردیا کہ بی جے پی نے اس کے نمائندوں کو 100؍کروڑ روپے میں خریدنے کے لیے
3؍ کونسلروں ڈاکٹر روناکشی شرما، ارون نواریا اور جیوتی رانی سے رابطہ کرنے
کی کوشش کی ۔
عآپ کے رہنما ر سنجے سنگھ نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں کہا کہ دہلی کے
بلدیاتی انتخابات میں30؍ کم سیٹیں حاصل کرنےاور گزشتہ کے مقابلے 80؍نشستیں
گنوانے کےباوجودبی جے پی والے مہاراشٹر، اروناچل پردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ
پردیش، کرناٹک، گوا، اور گجرات کی مانند خرید و فروخت پر اتر آئے ہیں
۔انہوں نےدہلی پولیس کمشنرسے ایسے لوگوں کو گرفتار کرنے اور جیل بھیجنے کی
اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ دھمکیوں اور پیسے کے ذریعے‘‘جمہوریت کو قتل
کرنے اور عوام کے مینڈیٹ کی توہین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘سنجےسنگھ
کےمطابق بی جےپی ایسی بے شرم پارٹی ہے، جو 30؍ سیٹیں کم حاصل کرنے کے بعد
بھی اپنا میئر تھوپنے کا دعویٰ کرتی ہے ۔ سنگھ کے مطابق یوگیندرچندولیا
نامی شخص نے شرما سے فون پر رابطہ کیا اور نواریہ نےبدسلوکی ، گھروں پر
آکر غلیظ گالیاں اور سنگین نتائج یعنی جان سے مار دینے کی دھمکی دینے کا
الزام لگایا ۔ جیوتی رانی کے شوہر نے سڑک پر ایک طرف کھینچ کربی جے پی کو
ووٹ کرنے کے لیے50؍لاکھ دینے کی پیشکش کی بات کہی لیکن ثبوت کے طور پر سنجے
سنگھ فون کی ریکارڈنگ یا دھمکی کی شوٹنگ والی کوئی ویڈیو کیوں پیش نہیں
کرسکے؟ اس لیے یہ الزامات ماحول سازی کی کوشش معلوم ہوتے ہیں۔
بی جے پی کے اوپر یہ سنگین الزامات لگاتے لگاتے خو د عام آدمی پارٹی نے
دہلی ہی میں وہی شنیع حرکت کردی جس کی وہ مخالفت کررہی ہے۔عآپ کا ایسا
کرنا اس لیے بھی شرمناک ہے کیونکہ بی جے پی اپنے آپ کو کٹرّ ایماندار
پارٹی کے لقب سے نہیں نوازتی ۔ اس دوران جب یہ خبر آئی کہ دہلی کانگریس کے
نائب صدر علی مہدی کے ساتھ برج پوری وارڈ سے کانگریس کونسلر نازیہ خاتون
اور مصطفی آباد وارڈ کی کونسلر سبیلہ بیگم نے عام آدمی پارٹی میں شمولیت
اختیار کرلی تو بھلا کون اس بات پر یقین کرے گا کہ ان لوگوں نے بغیر کسی
لالچ کہ یہ اقدام کیا ہوگا؟ ظاہر ہے بی جے پی نے جس طرح کے معاملات
مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں طے کیے اسی طرح کا لین دین عآپ نے دہلی میں کیا
ہوگا ۔ اس لیے کہ موجودہ سیاست میں نہ تو کوئی راجہ ہریش چندر اور نہ یہ
حیرت کی بات ہے ۔ نوٹ کی خاطر ووٹر بلکہ لیڈر کا بک جانا ایک عام سی بات
ہوگئی ۔ اپنی پارٹی سے غداری کرنے والوں کوسزا دینے کے بجائے ان کے اندھے
مقلد پھر سے انہیں کو منتخب کرکے بے ایمانی کی تائیدو حمایت کرتے ہیں لیکن
برج پوری اور مصطفیٰ آباد میں وہ ہوگیا جس کا تصور محال بھی ہے۔ یہ کا
امتیاز مسلم رائے دہندگان کا ہے کہ انہوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔
اس مذموم بغاوت کے بعد مصطفی آباد میں احتجاج شروع ہوگیا ۔ رائے دہندگان اس
فیصلے کی سخت مخالفت کرتے ہوئے سڑکوں پر اتر آئے اورباغیوں کا گھر سے باہر
نکلنا مشکل ہوگیا ۔ عوام کا مطالبہ تھا کہ انہیں اس طرح غداری کی اجازت
نہیں دی جائے گی ۔ وہ اگر کسی نئی پارٹی میں جانا چاہتے ہیں تو پہلے اپنا
استعفیٰ دیں پھر سے انتخاب لڑیں اور جہاں چاہیں جائیں لیکن ’یہ ووٹ ہمارا
نوٹ تمہارا ‘ والی ابن الوقتی برداشت نہیں کی جائے گی ۔ اس دباو کا نتیجہ
یہ نکلا کہ شام ہوتے ہوتے تینوں لیڈر دوبارہ کانگریس میں لوٹ آئے ہیں۔ علی
مہدی نے معافی مانگی اور کہا کہ وہ اپنی پرانی پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں
اور خود کوراہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کا وفادار سپاہی بتایا ۔ ان کے
ساتھ عام آدمی پارٹی میں شامل ہونے والی مصطفی آباد سے کونسلر سبیلہ بیگم
اور برج پوری سے نازیہ خاتون کی بھی گھر واپسی ہوگئی ۔ مسلمان رائے دہندگان
کے اس قابلِ قدر اقدام سے ترغیب لے کر اگر دیگر طبقات بھی اس کی تقلید کریں
تو ملک کے اندر سے موقع پرستی کی سیاست کا خاتمہ ہوجائے لیکن جہاں نظریہ کے
بجائے شخصیت پرستی کا بول بالہ ہو وہاں اس کا تصور محال ہے۔
دہلی کے اندر کیجریوال کانگریس پر جھاڑو چلانے کی سازش کررہے تھے تو اچانک
گجرات سے میں 3؍آزاد ارکان اسمبلی سمیت عا ٓپ کے ایک ایم ایل اے کی بی جے
پی میں جانے کی قیاس آرائی شروع ہوگئی۔ جوناگڑھ ضلع کی ویساودرسیٹ سے
کامیاب ہوکے عآپ رکن اسمبلی بھوپت بھیانی پہلی بار اسمبلی پہنچے ۔
انتخابات سے چندماہ قبل چولہ بدلنے والے بھیانی کسی زمانے میں بی جے پی کے
اندر تھے اس لیے ان کا لوٹنا گھر واپسی کہلائے گا۔ تاہم میڈیا سےبات کرتے
ہوئے بھوپت نے بی جے پی میں شامل ہونےسےانکار کرتےہوئے کہا کہ وہ پارٹی سے
غداری نہیں کریں گے ۔ اس کے باوجود بی جے پی میں جانے کا امکان یہ کہہ کر
باقی رکھا کہ وہ اپنے رائے دہندگان سے پوچھ کر اگلا قدم اٹھائیں گے ۔ یہ
نہایت مضحکہ خیز بیان ہے۔ رائے دہندگان نے ابھی حال میں ان کو جھاڑو تھمایا
اب اگر وہ اسے پھینک کر کمل تھامنا چاہتے ہیں تو اس غداری میں دوسروں کو
ملوث کرنا سراسر نوٹنکی ہے لیکن اروند کیجریوال کا یہ پرانا حربہ ہے۔ پہلی
بار اروند کیجریوال کانگریس کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بنے تھے ۔ انہوں نے جب
کانگریس سے پیچھا چھڑانے کا فیصلہ کیا توعوام سے پوچھنے کا ناٹک کیا ۔ اندھ
بھگت حامی تو کوڑا کرکٹ کی طرح ہوتے ہیں جن کو کیجریوال جیسے لوگ جھاڑو سے
اِدھراُدھر کرتے رہتے ہیں۔
ہندوستانی سیاست میں اصول نظریہ کے مقابلے موقع پرستی کا کس قدر بول بالہ
ہے اس کو بی جے پی اور اے اے پی کی رسہ کشی کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ویساوادر اسمبلی حلقہ انتخاب سے آدمی پارٹی کےایم ایل اے ب بھوپت بھیانی
کو اس خطےمیں بی جے پی کا دبنگ لیڈرمانا جاتا ہے۔ وساوادر اسمبلی سیٹ برسوں
تک بی جے پی کاگڑھ رہی ہے۔ یہاں سے1995،1998،2002اور2007 کے انتخابات میں
بی جے پی نے کا میابی حاصل کی لیکن2012کےانتخابات میں یہ سیٹ بی جےپی کے
ہاتھ سے نکل کر جی پی پی کے کھاتے میں چلی گئی۔ اس کے بعد2017کے اسمبلی
انتخابات میں کانگریس امیدوار ہرشد کمار رباڈیا نے بی جےپی کے کریٹ
بالوبھائی پٹیل کو شکست دےدی۔ یعنی یہاں پر نریندر مودی کو وزیر اعلیٰ اور
وزیر اعظم دونوں حیثیت سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس بار الیکشن سےپہلے
کانگریس کے رکن اسمبلی ہرشد رباڈیہ نے بی جےپی میں شمولیت اختیارکرلی اور
بی جے پی نے اس غدار کو ٹکٹ بھی دے دیا۔ اس طرح بھوپت بھیانی کی امیدوں پر
پانی پھر گیا ۔ انہوں جھاڑو تھام چلاکر ہرشد کو دھول چٹا دی اور پھر ایک
بار بی جے پی ہاتھ ملتی رہ گئی۔ اب بھوپت گھر واپسی میں حیرت کی کیا بات
ہے؟ کیجریوال کی یہ ذلت جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق ہے۔ خیرپچھلے ایک
ماہ میں انتخابی مہم سے لطف اندوز ہونے والے عوام اب خریدو فروخت کا سرکس
دیکھ کر محظوظ ہورہے ہیں ۔ مہنگائی کے اس دور میں یہ مفت کی تفریح باشندگان
وطن کے لیے جمہوریت کا انمول تحفہ ہے۔
|