وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان ہمارے لیے
کانٹے بچھا کر گئے لیکن ہم نے اپنی سیاست کو قربان کرکے پاکستان کو ڈیفالٹ
کی صورتحال سے بچا لیا ہے،حکومت میں آئے تو آئی ایم ایف کے سامنے ایڑیاں
رگڑیں، عالمی مالیاتی ادارے نے پتا نہیں کہاں کہاں نگوٹھے لگوائے ۔ڈیلی میل
میں جھوٹی خبر شائع کرانا عمران نیازی کی سازش تھی، ان کی کوشش تھی پاکستان
کو کوئی عالمی گرانٹ نہ ملے، دو سال کی تحقیقات میں کچھ ثا بت نہ ہوا، دس
سال گزر جائیں یا بیس سال سچ سامنے آکر رہتا ہے۔ عمران خان کا کام دن رات
جھوٹ بولنا ہے، توشہ خانہ کی گھڑی بیچی اور رسید بھی جعلی بنوائی گئی۔ نواز
شریف اور ہمارے خاندان پر بے بنیاد الزامات لگائے، الزامات کا مقصد نواز
شریف اور مجھے پارٹی کو بدنام کرنا تھا، اصل کیس پانامہ کا تھا اور سزا
اقامہ میں ہوئی، پانامہ میں نواز شریف کا دور دور تک نام نہیں تھا، نواز
شریف پر گند اچھالا گیا، جسٹس شوکت صدیقی کا بیان بھی سب کے سامنے ہے،
جھوٹی بات چھپ نہیں سکتی، یہ عمران نیازی، شہزاد اکبر کی ہارٹ لیس اپروچ
تھی، انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس طرح پاکستان کی بدنامی ہوگی، ان کا مقصد
صرف شریف خاندان کو رسوا کرنا تھا، پی ٹی آئی سوشل میڈیا کی گالم گلوچ کے
نتیجے میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔انہوں نے کہا کہ سعودی ولی عہد نے ایک
خانہ کعبہ ماڈل والی گھڑی بنوائی تھی، عمران نے کعبہ کی حرمت کا بھی خیال
نہیں کیا، اس بات کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا، 2 ملین ڈالرمیں دکاندار نے گھڑی
خریدی، ایک وہ دکاندار بھی سامنے آگیا جس نے کہا یہ رسید جھوٹی ہے، انہوں
نے فراڈ کیا، عمران نے ملکی معیشت، خارجی تعلقات کو برباد کیا، دن رات جھوٹ
بولا۔ فنانشل ٹائمز میں خبر لگی کہ شوکت خانم کے فنڈز کو سیاسی سرگرمیوں پر
خرچ کیا گیا، عمران نے مریم نواز کو والد کے سامنے گرفتار کروایا، مریم
نواز کو بھی کلین چٹ مل گئی۔ عمران کی بہن مس ڈکلیئریشن کی مرتکب ہوئی اسے
این آر او دلوایا۔ آنیوالی حکومت کیلئے عمرا ن خان نے کانٹوں بھرا جال
بچھایا، ہمیں سرمنڈواتے ہی اولے پڑے ۔ایک طرف ریاست، دوسری طرف سیاست تھی،
ہم نے سیاست کو قربان کر کے ریاست کو بچایا۔ عمران خان کی پوری کوشش تھی کہ
ملک سری لنکا بن جائے، لیکن پاکستان ڈیفالٹ ہونے کیلئے معرض وجود میں نہیں
آیا۔ یہ سٹیٹمنٹ وزیراعظم شہباز شریف کی تھی ۔اب عمران خان کی گفتگو کو بھی
چیف جسٹس کی خد مت میں پیش کرتے ہیں۔عمران خا ن نے کہا ہے کہ پاکستان اس
وقت خطرے کے کنارے پرکھڑا ہے لیکن میڈیا ہاؤسز قوم کواس خطرے سے آگاہ نہیں
کررہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ملک کے سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کی
حیثیت سے اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ قوم کومعاشی خطرے سے آگاہ کروں اور
بتاؤں ملک کے حا لات بہت خراب ہو چکے ہیں ۔ نیشنل سکیورٹی کے اداروں، عدلیہ
کو بھی سوچنا چاہیے کیونکہ سب قوم کو جوابدہ ہونگے۔ ہماری ایکسپورٹ کم ہو
گئی ہیں ٹیکس کلیکشن نہیں ہو رہی اور کاروباری حضرات سب سے زیادہ پریشان
ہیں۔ میں سب کو کہہ رہا ہوں کہ اگر اب بھی آواز بلند نہ کی تو ذمہ دار سب
ہونگے، ہمیں سوچنا چاہیے کہ ملک کو نیچے جانے،روپیہ کی قدر گرنے اور ڈالر
کے اوپر جانے کو کیسے روکا جا ئے۔ ہماری حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ،ملکی
قرضوں کو اتارنے کیلئے لیا تھا۔ میں ایسٹیبشلمنٹ سمیت ہرطبقے سے پوچھتا ہوں
کیا آپ کوفکرنہیں ،پاکستان کدھرجارہا ہے؟ نیا آرمی چیف آیا ہے ان کو وقت
دینا چاہیے، ہم نے جنرل عاصم منیر کی بڑی تعریفیں سنی ہیں، وہ حافظ قرآن
ہیں، امید کرتا ہوں جنرل عاصم امربالمعروف پرچلیں گے۔ ہم ان سے امید لگا
کربیٹھے ہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اپنی گھڑی
بیچنے پر اتنا شور مچا ہے ۔ٹی وی چینلز لوگوں کے معاشی قتل پر کیوں خاموش
ہیں۔؟عمران خان اور شہباز شریف کی گفتگو کا نچوڑ میں چیف جسٹس آف پاکستان
کی خدمت میں من و عن پیش کردیا ہے۔میری ان سے اتنی سی درخواست ہے کہ وہ
اپنی سرپرستی میں غیرجانبدار معاشی ماہرین پر مشتمل ایک ایسا کمیشن تشکیل
دیں جو موجودہ حکومت اور عمران خان کی حکومت کی معاشی پالیسیوں اور اقدامات
کا جائزہ لے کر پاکستانی قوم کے سامنے اصل حقائق پیش کرکے بتائے کہ شہباز
شریف اور عمران خان میں سے جھوٹ کون بول رہا ہے اورسچ کون ۔اگر پاکستان میں
غیرجانبدار معاشی ماہرین نہ مل سکیں تو دوبئی جیسے کسی بھی ترقی یافتہ ملک
سے منگواکروزارت خزانہ کو حکم دیں کہ عمران خان کے دور حکومت اور موجودہ
حکومت میں اٹھائے جانے والے تمام اقدامات کا دستاویزی ثبوت انہیں فراہم
کرے۔تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ چونکہ آٹھ ماہ بعد قومی
الیکشن ہونے والے ہیں ۔ اس طرح عوام کو رہنمائی مل سکے گی کہ کس سیاسی
جماعت کی پالیسیاں ملک و قوم کے مفادمیں ہیں اور عوام اس جماعت کو ووٹ کے
ذریعے سپورٹ کرسکیں گے۔اگر ایسا ہوجائے تو چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ
پاکستانی قوم پر بہت بڑا احسان ہو گا۔
|