جب بھی میری زندگی میں کوئی ایسا جوڑا میاں بیوی آئے جو
بیٹی کی پیدائش پر غم زدہ تھے یا یہ کہہ رہے تھے کہ بیٹیوں پر اعتراض نہیں
بیٹیوں کے مقدر سے ڈر لگتا ہے تو ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کر نے کو دل
کرتا ہے کیونکہ جن آنگن میں بیٹی کی نازک ادائیں گڈیاں کھلونے نہیں وہ اجاڑ
بنجر خانہ ہے رخسانہ حیات میری بہن ایک کامیاب ترین زندگی گزار کر اﷲ کو
پیاری ہو گئیں غربت کی گود میں پلنے والی رخسانہ باجی کو اﷲ تعالی نے شادی
کے بعد پیار کرنے والا خاوند دو بیٹے اور ایک چاند سی بیٹی سے نوازا دولت
رخسانہ باجی کے گھرانے پر موسلا دھار بارش کی طرح بر سی ۔رخسانہ باجی نے
کیونکہ یتیمی کے آنگن میں زندگی کے ابتدائی دن جوانی تک گزارے اِس لیے دولت
مند ہو نے کے بعد بھی اپنی اصل اوقات نہیں بھولیں پھر جب شاندار کامیاب
زندگی گزارنے کے بعد اِس جہاں فانی سے رخصت ہو ئیں تو اپنی یادگار بیٹی کی
شکل میں چھوڑ گئیں جس طرح چراغ سے چراغ روشن ہو تا ہے اُسی طرح اپنے کردار
کی ساری خوبیاں اپنی بیٹی میں چھوڑ گئیں بیٹی امریکہ کے مادیت پر ست ماحول
میں جوان ہوئی وہی پر شادی ہو ئی لیکن ماں کے کردار کی چھاپ اور مشرقی
روایات کا حسن پوری طرح قائم رہا جس طرح رخسانہ باجی سال میں دوتین چکر لگا
کر ضرورت مندوں تک پہنچ کر اُن کی مدد کر تی تھی اب بیٹی بھی اُسی مشن پر
پاکستان آئی تھی والدہ کی طرح مُجھ سے رابطہ کیا راہنمائی کی درخواست کی
اور کہا مجھے اُن حاجت مندوں کے ایڈریس دے دیں تاکہ میں ماں جی کے مشن کو
جاری رکھ سکوں تو میں نے گرم چادروں گرم کپڑوں جرابو ں ٹوپیوں جرسیوں گرم
خشک میوہ جات غریب مستحق مریضوں کے بارے میں باجی کی نیکیاں گنوادیں یہاں
میں کریڈٹ اُس پیر صاحب کو بھی ضرور دوں گا جو سجادہ نشینوں کے طرح مریدوں
کے گھروں میں لوٹ مار کے لیے نہیں بلکہ ضرورت مندوں کی مدد کے لیے جاتے تھے
اب جب وہ بزرگ اپنے غریب مرید کے گھر جاتے ہیں وہاں پر مرید کی بہن اور
بھانجی کو غربت کی امر بیل میں لپٹے دیکھا تو اپنا گرم بستر اور گرم چادر
دونوں کو دے کر انسان دوستی کا ثبوت دیا پیر صاحب کی دی ہوئی ایک چادر باجی
رخسانہ کی زندگی میں انقلاب کا باعث بن گئی اُسے زندگی کے جلتے سلگتے صحرا
میں کسی تازہ ہوا کے جھونکے کا احساس ہوا پھر یہی سے باجی رخسانہ کی سخاوت
انسان دوستی کا آغاز ہوا وہ جب بھی آتیں کسی سفید پوش کی مدد اِس وقار کے
ساتھ کرتیں کہ لینے والے کو ذرہ برابر بھی ندامت کا احساس نہ ہو تا میں اور
وہ جب بھی کسی بیوہ کے گھر جاتے تو وہ بہت ساری ضرورت کی چیزوں کپڑوں کے
ساتھ جاتیں پھر اُس غریب عورت کے بچوں کو بہانے سے کمرے سے نکال کر چپکے سے
اُس کی پیسوں کی مدد کر دیتیں بلکہ مجھے بھی اشارہ کر دیتیں میں بہانے سے
کمرے سے نکل جاتا تو انتہائی وقار اور شفیق لہجے میں یہ کہہ کر آپ اِس کو
قبول فرمائیں یہ میرا نمبر ہے جب بھی ضرورت ہو مجھے کال کر نی ہے جب آپ کی
بچیوں کی شادی کا وقت آئے گا تو میں ضرور مدد کروں گی اگر میں زندہ نہ ہوئی
تو میری بیٹی یا بیٹا آپ کی مدد کرے گا یہ میں نے اپنے بچوں سے وعدہ لے لیا
ہے یعنی وہ اگر کسی کی مدد بھی کرتیں تو اِس وقار عزت کے ساتھ کہ لینے والے
کی عزت نفس پامال نہ ہو کسی کی مدد کرتے وقت باجی کا رویہ احسان مندوں والا
ہو تا کہ آپ کی مہربانی آپ میری شے قبول کر رہے ہیں آج اگر آپ ہمارے معاشرے
کے ہمالیہ جیسے نام نہاد سخی لوگوں کو دیکھیں تو وہ سخاوت تو کرتے ہی لیکن
جس حقارت اور تکبر کے ساتھ کہ گھروں کے باہر طویل ضرورت مندوں کی قطاریں
لگی ہیں چوکیدار سیکورٹی گارڈ ضرورت مندوں کو کس طرح دھکے اورگالیاں دے کر
ذلیل کر تے ہیں یا اگر ہمارے معاشرے میں اگر کوئی کسی کی مدد کر تا ہے تو
پھر توقع کر تا ہے کہ جس غریب کی مدد کی ہے وہ مراثی بن کر نوکر بن کر گردن
جھکا ئے سامنے کھڑا ہو اگر کسی کو مدد سخاوت کا موقع مل جائے اور پھر آگے
زندگی میں جس کی مدد کی ہو وہ سامنے آجائے تو دینے والا مختلف بہانوں سے یا
کھل کر کہتا ہے میں نے فلاں وقت پر تمہاری مدد کی تھی ایسے نمائشی دور میں
باجی رخسانہ مدد کر تے وقت کبھی بھی لینے والے کی عزت نفس کو مجروح نہ کرتی
باجی مختلف انداز طریقوں سے ضرورت مندوں کی مدد کر تیں ان کو احساس دلائے
بغیر بلکہ اِس قدر خاموشی اور وقار سے مدد کرتیں کہ لینے والے کو ذرہ برابر
بھی شرمندگی یا ندامت نہ ہوتی یہاں ایک اور حقیقت بھی روشن ہو تی کہ اگر
خلوص نیت سے کوئی انسان کسی یتیم ضرورت مند بچی کو صرف ایک گرم چادر دیتا
ہے تو یہ ایسا چراغ روشن کرتا ہے کہ آنے والی صدیاں اُس چراغ سے روشنی لے
کراندھے بہرے بانجھ معاشرے کی تاریکیاں دور کرتی ہیں باجی جب بھی آتیں تو
یہی بتاتیں فلاں بیوہ یتیم غریب مسکین کی بیٹی کی شادی فلاں غریب کا آپریشن
فلاں بچے کی سکول کی فیس باجی کی سخاوت کا دائرہ بہت زیادہ پھیلا ہوا تھا
جو بعض اوقات کروڑوں کو بھی کراس کر جاتا تو میں نے حیرت سے ایک بار پوچھا
باجی آپ کروڑوں روپے لوگوں کی مدد میں خرچ کر جاتی ہیں تو کیا آپ کا میاں
یا بیٹے فیملی اِس پر اعتراض نہیں کرتی تو وہ مسکرا کر کہتی بلکل نہیں بلکہ
یہ بات میرے میاں اور بیٹے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے خاندان پر جو اﷲ کی
نعمت کرموں کی بارش دولت کی شکل میں ہو رہی ہے یہ دوسرے ضرورت مند لوگوں کے
لیے پھر ایک اور بات آپ کو بتاؤں میں نے غربت کی آغوش میں جوان ہوئی میں
سردی گرمی بھوک پیاس اور ضرورتوں کے درد سے واقف ہوں مجھے غربت کے سارے غم
درد یاد ہیں میں اُن کو بھولی نہیں بابا مرشد کی ایک گرم چادر جس طرح میری
زندگی بد ل گئی اور پھر باباجی کا امریکہ میں نیک انسان سے میری شادی کرانا
یہ مرشد کی نگاہ خاص اور اﷲ کا کرم ہے اگر مرشد باباجی میری زندگی میں نہ
آئے ہو تے تو میں آج بھی غربت کی خوفناک چتا پر سلگ رہی ہوتی جس طرح مرشد
بابا کے ذریعے اﷲ تعالی نے مُجھ یتیم پر کرم کیا تو اب یہ مجھ پر قرض ہے کہ
جس طرح اﷲ تعالی نے مجھے غربت کے تاریک اندھیروں سے نکال کر زندگی کی ساری
آرام دہ آسائشوں سے نواز ا اب جب مُجھ پہ اچھا وقت آیا ہے تو میں بھی اُسی
طرح اﷲ کی نعمتوں کو آگے ضرورت مندوں میں تقسیم کر وں ایک دن باجی پاکستان
آئی ہوئی تھیں جو میرے پاس آئیں مجھے اپنی کار کے پاس لے گئیں تو اندر عجیب
نظارہ سینکڑوں ابلے انڈوں سے گاڑی بھری ہوئی تھی ساتھ میں نمک کی چھوٹی
چھوٹی پڑیاں مجھے دکھا کر مسکراتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور درد بھرے
شفیق لہجے میں بولیں میں بچپن میں سردیوں میں ابلا انڈہ نہیں خرید اور کھا
سکتی تھی میرا بہت دل کر تا تھا میں انڈہ کھاؤں اُس وقت تو نہ کھا سکی لیکن
جب آج اﷲ نے مجھے ہر نعمت سے نوازا ہے تو کیونکہ اُن لوگوں تک یہ نعمتیں
پہنچاؤں پھر باجی کسی دربار پر روڈ پر ابلے گرم انڈے لوگوں میں تقسیم کر تی
نظر آتیں کبھی مونگ پھلی ڈرائی فروٹ تو کبھی جوس کے ڈبے لوگوں میں بانٹتی
نظر آتیں وہ اکثر کہتی میرے باطن میں خدمت کا لاوا کھولتا رہتا ہے مجھے بے
چین رکھتا ہے جب تک میں کسی کی مدد نہ کر لوں مجھے سکون نہیں ملتا میں
باطنی سکون کے لیے ضرور مندوں میں چیزیں بانٹتی ہوں باجی مسرت کی یہ ادا اﷲ
کو اِس قدر پسند آئی کہ باجی کے مرنے کے بعد اُن کی بیٹی ماں کی طرح خدمت
خلق کا جھنڈا لہراتی پھر رہی ہے یہ سچ ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے ۔ |