فلاں کرپٹ ہے۔ نہیں ہمارے لیڈر کرپٹ ہیں۔ ارے یار ہر کوئی
کرپٹ ہے۔ میں تو کہتا ہوں یہ پوری قوم ہی کرپٹ ہے۔ یہ وہ بیانات ہیں جو ہم
میں سے ہر ایک روزانہ کی بنیاد پربلا جھجھک دیتا بھی ہے اور سنتا بھی۔ لیکن
کیا آپ نے کبھی یہ سنا ہے کہ "میں کرپٹ ہوں؟" نہیں ناں! کیونکہ کسی میں یہ
کہنے کی ہمت نہیں حالانکہ وہ بھی کرپٹ لوگوں کی فہرست میں آتا ہے اگر وہ
خود کو اسی قوم کا حصہ تصور کرتا ہے تو۔ آپ میری اس راۓ سے متفق ہیں یا
نہیں؟
چلیں، میں آپ کو اس تصور کو سمجھانے کے لۓ اپنی بات کی وضاحت کرتی ہوں۔ میں
ملک کے اعلیٰ درجے سے شروع نہیں کروں گی کیونکہ ہم سب ان کو جانتے ہیں، ان
کی کرپشن، ان کے ریاستی پیسے کو لوٹنے کے گھناؤنے طریقے، قوم کے لوگوں کو
بے وقوف بنانے کے لیے وہ حربے جوہمارے حکمران بہت دلیری سے استعمال کرتے
ہیں، اور ان کے پوشیدہ خزانے کی بھی کافی حد تک معلومات ہم جیسی سیدھی
سادھی عوام میڈیا، خاص کر سوشل میڈیا کی مہربانی سے جانتے ہی ہیں۔
میں شروع کرنا چاہونگی (معذرت کے ساتھ) معاشرے کے عام لوگوں سے۔ میں زندگی
کی سچی مثالیں دے کر آپ کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کروں گی۔
1) ریڑھی والا: کچھ ماہ پہلے کی بات ہے میرے والدین نے ریڑھی والے سے
ٹماٹرخریدے شاید 60 روپے فی کلو کے حساب سے۔ لیکن وہ ٹماٹر لے جانا بھول
گئے اور انہیں گھر واپسی پر اس بات کا علم ہوا۔ پھر وہ ٹماٹر لینے اگلے دن
اسی ریڑھی والے کے پاس گئے اور ٹماٹر مانگے۔ اس نے کہا، "اب آپ کو مجھے
زیادہ پیسے دینا ہوں گے کیونکہ آج ٹماٹر کا ریٹ 100روپے فی کلو ہے۔" میرے
والد نے کہا کہ آپ کو اضافی پیسے کیوں دوں، میں نے کل خریدے ہیں اور آپ کو
رقم بھی ادا کر دی تھی، میں یہاں صرف وہ ٹماٹر واپس لینے آیا ہوں جو میں
گزشتہ دن بھول گیا تھا۔ مگر وہ بضد تھا کہ میرے والد سے زائد رقم وصول کی
جاۓ۔ کیا آپ نے یہاں ریڑھی والے کی کرپشن کو محسوس کیا؟
2) پیٹرول پمپ والا ملازم: کچھ دن پہلے ہوا یوں کہ پیٹرول ختم ہونے کو تھا
تو ہم نے پیٹرول پمپ کا رخ کیا۔ پیٹرول پمپ والے سے 800 روپے پٹرول ڈالنے
کو کہا۔ اسنے خوب پھرتی دیکھاتے ہوۓ ہم سے میٹر چیک کرنے کو کہے
بغیر،پیٹرول ڈالنا شروع کر دیا اور ایک یا دو سیکنڈ کے اندر، اگر میں غلط
نہیں ہوں، تو اس نے ہمیں بتایا کہ ہو گیا ہے۔ میرے شوہر غصے میں آگئے اور
اس سے رسید دینے کو کہا۔ اس نے 800 روپے کی رسید دی۔ لیکن ہم جانتے تھے کہ
اس نے ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ اس سے بحث کرنا بیکار تھا کیونکہ ہمیں علم کہ وہ
اپنی غلطی نہیں مانے گا اور ہم بھی جلدی میں تھے۔
3) واٹر ٹینکر والا: موسم گرما میں واٹر ٹینکر مافیا کافی سرگرم ہو جاتا
ہے۔ میں جس سوسائٹی میں رہتی ہوں وہاں پانی کے ٹینکر کا ریٹ 700 روپے ہے۔
مخمصہ یہ ہے کہ لوگوں کو نہ صرف ٹینکر حاصل کرنے کے لیے سوسائٹی کو 700
روپے دینے ہوتے ہیں بلکہ اگررہائشیوں کو ہنگامی بنیادوں پر پانی حاصل کرنا
ہو تو انہیں ٹینکر مافیا کو کچھ اضافی رقم (رشوت) ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ رقم
200، 500، 800 یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ آپ خود دیکھیں اور پہچانیں
کہ یہ کرپشن ہے یا نہیں؟
4) پولیس والا: یہ مثال آپ کے سامنے پیش کرتے مجھے بہت ہی ذیادہ شرم محسوس
ہو رہی ہے کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کی بھیانک تصویر کی عکاسی کر رہی ہے۔
میرے بھائ نے ایک دن مجھ سے ذکر کیا کہ ایک بار اس کا چالان ہوا۔ پولیس
والے نے شناختی کارڈ مانگا جو اس کے پاس نہ ہونے کی بنا پر پیٹی بھائ نے
سیدھا سیدھا اپنا جیب خرچ کا مطالبہ کر ڈالا۔ بھائ کے پاس اتفاق سے 150
روپے تھے، جس میں سے سو اس نے ہمارے وردی والے بھائ کو دیۓ اور اپنا راستہ
لیا۔ اب آپ نے دیکھا کیسے ایک حقیر سی رقم کے عوض پولیس والے نے اپنا ضمیر
بیچ ڈالا۔ کیا آپ کوہمارے پیٹی بھائ کا یہ عمل کرپشن کے ذمرے میں آتا نہیں
لگتا؟
قصہ مختصریہ ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے کا ہر شہری خود
کو ایماندار اور دوسرے کو بے ایمان تصور کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ آج کے دور
میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص صرف اپنے گریبان میں جھانکتے ہوۓ خود کو
ہر قسم کی چھوٹی بڑی کرپشن سے دور رکھنے کی کوشش کرے تاکہ ہم اپنے ملک کو
کرپشن سے پاک بنانے میں اپنا حقیر سہی کردار تو ادا کرسکیں۔
|