2014کے قومی انتخاب سے قبل گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر
مودی چین کو لال آنکھیں دِ کھا کر ڈرانے کا مشورہ دیا کرتے تھے ۔ اس وقت
لوگوں کو یہ مغالطہ ہوگیا کہ یہ چھپنّ انچ کے سینے والا شخص اگر وزیر اعظم
بن گیا اور اس نے لال آنکھوں سےچین کی جانب نگاہِ غلط ڈال دی تو وہ خطرناک
ڈریگن یہ کہہ کر ڈھیر ہوجائے گا کہ ’یہ تو اکھیوں سے گولی مارے۔ اے جی کمال
یہ تو اکھیوں سے گولی مارے‘۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بقول
کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے مودی جی نے چینی عینک پہن لی اور شی جن پنگ کی
خدمت میں حاضر ہوئے تواپنی چھپنّ انچ کی چھاتی پر لال کرتازیب تن
کرلیا۔2020 میں گلوان کی سرحد پر ہندی اور چینی فوجیوں کا تصادم ہوا تو
طویل عرصے تک یہ رہنما نہیں ملے۔ امسال ستمبر میں سمرقندکے اندر منعقد ہونے
والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں مودی اور جن پنگ ایک ا سٹیج پر
موجود تو تھے لیکن پھر بھی دونوں نے نہ نظر ملائی اور نہ ہاتھ ملایا تھا ۔
بالی کے اندر گزشتہ ماہ جی-20 سربراہی اجلاس کے موقع پر دونوں رہنماوں کی
ملاقات ہندوستانی میڈیا میں بحث کا موضوع بن گئی۔
کانگریس پارٹی نے نریندر مودی اور شی جن پنگ کا ویڈیو اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے
شیئر کرکے لکھا ’انڈونیشیا کے آفیشل یوٹیوب چینل پر دیکھا جا سکتا ہے کہ
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اپنی نشست سے اٹھے اور چینی صدر شی جن پنگ سے
مصافحہ کیا اور کچھ دیر بات کی‘۔وزیر اعظم کا ازخود اپنی نشست سے ملاقات کے
لیےاٹھ کر جانا حیرت کا سبب تھا ۔ اس پر اتحادالمسلمین کے سربراہ اور رکن
پارلیمان اسد الدین اویسی نے ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے چٹکی لی کہ 'صاحب نے لال
آنکھ نہیں دکھائی۔'انھوں نے متواتر کئی ٹویٹس کرکے یہ بھی پوچھا کہ : 'دنیا
نے آفیشل ویڈیو دیکھ لی ہے اور اب تک جان گئی ہے کہ شی (جن پنگ) سے ملنے
کون گیا؟ مودی نے اس بارے میں ٹویٹ کیوں نہیں کیا، جیسا کہ انھوں نے دوسرے
لیڈروں کے لیے کیا؟ کس بات کی پردہ داری ہے؟ملک کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ
مودی اور شی کے درمیان کیا ہوا؟ یہ انڈیا اور ہندوستانیوں کے متعلق معاملات
ہیں، مودی یا ان کے خاندان کا ذاتی معاملہ نہیں۔ شی کو مودی کیا پیشکش کر
رہے ہیں؟'ان تیکھے سوالات کاجواب بی جے پی تو نہیں فراق گورکھپوری اس طرح
دیتے ہیں؎
جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں
کانگریسی رہنما ونیت پونیا نے بھی ویڈیو ٹوئٹ کرکے لکھا کہ 'لال آنکھ کا
وعدہ تھا۔ چین دو سال سے ہماری سرحدوں میں گھسا بیٹھا ہے، لیکن یہاں کھڑے
ہو کر استقبال کیوں کیا جا رہا ہے؟'یوتھ کانگریس کے صدر این سرینواس نے
ٹویٹ کیا کہ 'اٹھانی آواز تھی، خود اٹھے چلے آئے۔ دکھانی لال آنکھ تھی،
کرتہ دکھا آئے۔ 19 سیکنڈ میں مودی جی کے قول و فعل۔' بظاہر یہ تنقید بیجا
معلوم ہوتی تھی لیکن توانگ کے سانحہ نے ثابت کردیا کہ وزیر اعظم کی خیر
سگالی ملاقات کا چین نے الٹا اثر لیا۔ اس کے حوصلے بلند ہوگئے ۔ اس لیےایک
ماہ بعد ہی فوجیوں کو اروناچل پردیش کے توانگ میں در اندازی کا حکم دے دیا
۔ پہلے تین دن تک تو اس بات کو چھپایا گیا لیکن ذرائع ابلاغ کے اس دور میں
کوئی بات کہاں چھپتی ہے؟ اس معاملے میں حکومت نے پراسرا ر خاموشی اختیار
کررکھی تھی لیکن 13؍دسمبر کی صبح ایوان کی کارروائی شروع ہوتے ہی قائد حزب
اختلاف ملکارجن کھڑگے کو اپنا بیان پڑھ کر سنانے کی اجازت ملی تو انہوں نے
چین کی دراندازی کا مدعااٹھاکر حکومت سے بیان دینے اور بحث کرنے کا مطالبہ
کردیا۔ ایوان کے قائد پیوش گوئل نے اس کے جواب میں یقین دلایا کہ وزیر دفاع
راج ناتھ سنگھ اس مسئلہ پر ایوان میں وقفہ سوال کے دوران 12:30 بجے بیان
دیں گے۔
کانگریس کےرہنما پی چدمبرم نے حکومت سے ایوان میں چینی دراندازی کے معاملے
پر بحث سے متعلق موقف واضح کرنےکا مطالبہ کیا ۔حکومت کی جانب سے وضاحت نہ
ملنے پر کانگریس سمیت حزب اختلاف کے تمام اراکین نے چینی دراندازی کے
معاملے پر بحث کے لیے نعرے بازی شروع کردی اور اسپیکر کی کرسی کے سامنے
آگئے۔ ایسے میں ایوان کی کارروائی دوپہر 12 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔ایوان
کی کارروائی کے دوبارہ شروع ہونے پر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بتایا کہ 9
دسمبر کو اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں چینی فوجیوں کی لائن آف ایکچوئل
کنٹرول (ایل اے سی) کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کو ہندوستانی فوجیوں نے
ہاتھا پائی کے ذریعہ بہادری اور عزم کے ساتھ روک دیا۔ راجناتھ سنگھ کے
مطابق دونوں فریقین کو معمولی چوٹیں آئیں لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
وزیر موصوف نے کہا کہ ہندوستانی فوجی علاقائی سالمیت کی حفاظت اور اس پر کی
جانے والی کسی بھی دراندازی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔اپنے
مختصر بیان کے بعد انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ایوان ہندوستانی
فوجیوں کی حمایت میں متحد ہے۔ وزیر دفاع کے یکطرفہ بیان میں چونکہ ایوان کے
اندر بحث کی دعوت نہیں دی گئی تھی اس لیے لوک سبھا میں ہنگامہ ہوگیا۔ اس
سنگین قومی سلامتی کے معاملے میں حکومت کا گفتگو سے راہِ فرار اختیار کرنا
تشویشناک ہونےکے ساتھ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ہمارا کوئی فوجی شدید زخمی نہیں ہوا ہے لیکن نہ تو
انہوں نے زخمیوں کی تعداد بتائی اور نہ ان کی حالت بتانے کی زحمت کی ۔
گوہاٹی کے جس اسپتال میں یہ فوجی بھرتی ہیں وہاں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ وزیر
دفاع اپنے بیان میں اس حقیقت کو نہیں چھپا سکے کہ توانگ سے ہوائی جہاز کے
ذریعہ فوجیوں کو ۱۵۱ بیس اسپتال لایا گیا ۔ یہ دونوں باتیں متضاد باتیں چور
کی داڑھی میں لگے تنکے کا اشارہ کرتی ہیں۔ سوال یہ ہےچونکہ توانگ کے اندر
بھی ایک فیلڈ کیمپ ہےتو وہاں علاج کیوں نہیں کیا گیا ؟ کیا فوجی عملہ
معمولی چوٹ کا علاج کرنے کی صلاحیت بھی اپنے اندر نہیں رکھتا؟ یا وزیر دفاع
کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ارونا چل پردیش کے
ٹینگا اور لکا بالی میں فوجی اسپتال موجود ہونے کے باوجود 440کلومیٹر دور
ائیر لفٹ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ارونا چل پر دیش کے ضلعی اسپتال اور
کھمرو میں ۴۵ بیڈ کےفوجی اسپتال کے بجائے فوجیوں کو بیس اسپتال میں لانا ان
کے شدید زخمی ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فوجی اگر معمولی طور پر زخمی ہیں
تو جھڑپ کے ۶ دن بعد بھی اسپتال سے کیوں نہیں نکلے؟ دینک بھاسکر کے مطابق
۶؍ دن بعد تک کوئی فوجی ڈسچارج نہیں ہوا۔ سرکار کا ہیلتھ بولیٹن جاری نہ
کرنا بتاتا ہےکہ دال میں کچھ کالا ہے۔
وزیر دفاع راجناتھ سنگھ پہلے جھوٹ بولنے سے بچتے تھے اس لیے ان پراعتماد
کیا جاتا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان پر بھی اب صحبت کا اثر ہونے لگا
ہے۔اس سانحہ کے دو دن بعد سے توانگ کے نام پر ۲؍ سال پرانے ویڈیوز وائرل
ہونے لگے۔ ان سے بھرم پھیلانے کا کام لیا جانے لگا مگرسرکار نے نہ تو ان کے
خلاف کو اقدام کیا اور نہ ان کی تردید کی ۔ عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ
آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے جب نریندر مودی پر امریکہ
میں پابندی تھی تو وہ بار بار چین اور جاپان جیسے ممالک کا دورہ کیا کرتے
تھے ۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی انہوں نے شی جن پنگ کو احمد
آباد میں بلا کر جھولا جھلایا اور دوسری مرتبہ تمل ناڈو میں بھی بڑی
گرمجوشی کے ساتھ ان کا استقبال کیا ۔ اس کے باوجود 2017میں ڈوکلام کے اندر
ہندوستانی اور چینی فوجی 80؍دنوں تک ایک دوسرے کے سامنے ڈٹے رہے۔ اس کے بعد
2020میں گلوان کے اندر خونی تصادم ہوا اور اب توانگ میں ہنگامہ ہوگیا ہے۔
سوال یہ کہ بار بار اس قسم کی وارادات کیوں وقوع پذیر ہوجاتی ہے؟
ہند چینی تعلقات میں کشیدگی کی ایک وجہ تجارتی اور دوسری سفارتی ہےنیز
سیاسی مقاصد بھی ہیں۔ گلوان سانحہ کے باوجود ہندوستان اور چین کے درمیان
تجارت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا بلکہ اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ اس سے چین سمجھ
گیا کہ ہندوستان سے پنگا لینے میں کوئی مالی نقصان نہیں ہے۔ امسال کے پہلے
۹ مہینوں میں چین سے درآمدات 31% بڑھی جبکہ برآمدات میں 36.4% کی گراوٹ
آئی ۔ اس کاروباری خسارے کے سبب چین کے خلاف ہندوستان کڑا رخ اختیار کرنے
کی جرأت نہیں کر پاتا۔ وزیر اعظم آئے دن خود کفالت پر بھاشن تو بہت دیتے
ہیں لیکن اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی خاطر جو سنجیدگی درکار ہے اس کا
ان میں زبردست فقدان ہے ۔ ملک میں جیسے ہی کسی صوبے کے اندر انتخاب کا
اعلان ہوتا ہے مودی جی اپنی ساری ذمہ داریاں فراموش کرکے پردھان منتری سے
پرچار منتری بن جاتے ہیں۔ ایسے میں پارٹی تو کامیاب ہوجاتی ہے مگر خوشحالی
کا خواب پامال ہوتا رہتا ہے۔
سفارتی سطح پر چین کے سامنے تائیوان اور جنوبی سمندر میں پایا جانے والا
روایتی دشمن جاپان کے ساتھ آسٹریلیا کا چیلنج ہے۔ تائیوان کے معاملے میں
امریکہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور حملے کی صورت میں چین کی امریکہ کے ساتھ جنگ
چھڑ سکتی ہے ۔ اس کا خطرہ آسانی سے کوئی مول نہیں لیتا۔ جنوبی سمندر میں
جاپان اور آسٹریلیا نے امریکہ، فرانس اور ہندوستان کو ساتھ لے کر ایک فوجی
اتحاد قائم کررکھا ہے۔ ان میں مشترکہ فوجی مشقیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ پچھلے
دنوں یغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر اقوام متحدہ میں بحث کی
تجویز تھی ۔ اس میں ہندوستان نے واک آوٹ کرکے چین کا بلا واسطہ ساتھ دے
دیا اور اپنے حلیف ممالک کی ناراضی مول لے لی ۔ روس یوکرین تنازع کا معاشی
فائدہ اٹھانے کی خاطر ہندوستانی حکومت نے سستے داموں پر روسی تیل کی
درآمدات شروع کردی ۔اس ابن الوقتی نے یوروپ اور امریکہ کو تو ناراض کردیا
لیکن مودی روس کو اپنا گہرا دوست نہیں بناسکے کیونکہ اس کے نزدیک چین کی
اہمیت زیادہ ہے۔ کشمیر کے مسئلہ پراسلامی ممالک کی تنظیم بھی مودی سرکار سے
ناراض چل رہی ہے۔ اس لیے نا عاقبت اندیش خارجہ پالیسی کی بدولت ہندوستان
یکہ و تنہا ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی حکمراں ہندوستان کے ساتھ من مانا
سلوک کر ر ہے ہیں ۔
(۰۰۰۰۰۰جاری)
|