|
|
25 دسمبر جب دنیا بھر کے لوگ کرسمس کی تقریبات میں محو
ہوتے ہیں ایسے وقت میں پاکستانی قوم اپنے سب سے بڑے لیڈر قائداعظم ؒ محمد
علی جناح ؒ کی سالگرہ انتہائی احترام اور محبت سے مناتے ہیں اس سال 147
سالگرہ منا رہے ہیں۔ |
|
ایک عظیم
لیڈر اور بہترین انسان |
قائداعظم ؒ کی بصیرت اور قیادت کی صلاحیت سے صرف برصغیر
کے مسلمان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسان معترف ہیں۔ دنیا اس بات کو
تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان کو دنیا کے نفشے پر معرض وجود میں لانے میں
قائداعظم ؒ کی لیڈر شپ کا سب سے اہم کردار تھا- |
|
پیشے کے اعتبار سے ہندوستان کے کامیاب ترین وکیلوں کی صف میں قائداعظم ؒ کا
نام مقدمے کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ اپنے بے شکن لباس کی طرح
قائداعظم ؒ کا کردار بھی ہر طرح کی شکن سے پاک تھا- وہ زبان کے دھنی اور
ایک راست باز انسان دوستوں اور دشمنوں تمام حلقوں میں قرار دیے جاتے تھے- |
|
قیام پاکستان کے بعد صحت کے مسائل |
قائداعظم ؒ محمد علی جناح ؒ نے ٹی بی جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کے
باوجود دن رات محنت کر کے قیام پاکستان کی راہ ہموار کی جس کے سبب ان کی
صحت کے مسائل تشویش ناک حد تک بڑھ گئے تھے- یہاں تک کہ قیام پاکستان کے بعد
یکم ستمبر 1948 کو جب قائد اعظم اپنی علالت کے سبب کوئٹہ میں مکین تھے تو
ان کو برین ہیمبرج ہوا جس کے بعد ان کے معالج ڈاکٹر الہی بخش نے کوئٹہ میں
صحت کی ناکافی سہولیات کے سبب قائداعظم ؒ کو فوری طور پر کراچی منتقل کرنے
کا مشورہ دیا- |
|
اس وقت میں قائداعظم ؒ کو کوئٹہ جیسے بلند شہر میں سانس لینے کے شدید مسائل
کا سامنا تھا اس موقع پر جب قائداعظم ؒ سے اس حوالے سے مشورہ کیا گیا تو ان
کا کہنا تھا کہ ان کو کراچی جانا ہے ان کی خواہش تھی کہ جس شہر میں ان کی
پیدائش ہوئی ہے اسی شہر میں وہ اپنی آخری سانسیں بھی لینا چاہتے ہیں- |
|
اپنی صحت کی اس خراب ترین صورتحال کے باوجود قائداعظم ؒ نے اپنے علاج کے
لیے بیرون ملک جانے کو کبھی ترجیح نہیں دی- حالانکہ محققین کا یہ کہنا تھا
کہ اگرچہ اس وقت میں پاکستان کی معاشی حالت بہت کمزور تھی مگر قائداعظم ؒ
کی ذاتی معاشی حالت بہت مضبوط تھی- مگر اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی
بیرون ملک علاج کے آپشن کے بارے میں نہیں سوچا- |
|
|
|
قائداعظم ؒ کے معاشی
حالات |
مشہور تحقیق نگار اور بیوروکریٹ ڈاکٹر سعد خان نے سال
2020 میں اپنی کتاب محمد علی جناح، دولت جائيداد اور وصیت میں قائداعظم ؒ
کے اثاثوں کے بارے میں انتہائی تفصیل سے تحقیق کے بعد تحریر کیا ہے- |
|
قائداعظم ؒ کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت ہے جس پر ہر دور
میں ریسرچ کی جاتی رہی ہے اور اس کے نت نئے پہلو اجاگر ہوتے رہے ہیں زير
نظر معلومات معروف بیوروکریٹ اور اسکالر ڈاکٹر سعد ایس خان کی قائد اعظم،
دولت، جائيداد اور وصیت کے عنوان سے شائع کی جانے والی کتاب کی سے اخذ کی
گئی ہے جس کی تقریب رونمائی 25 مارچ 2021 کو کراچی آرٹس کونسل میں ہوئی تھی- |
|
قائداعظم ؒ نے اپنی صلاحیتوں سے ایک عام
انسان سے ایک کھرب پتی بننے کا سفر بہت تیزی سے طے کیا- 1900 میں قائداعظم
ؒ کو پریزڈينسی مجسٹریٹ کے طور پر جب مقرر کیا گیا تو ان کی تنخواہ 1500
روپے ماہانہ تھی جس کو صرف 6 ماہ میں انہوں نے صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ اتنے
پیسے تو وہ ایک دن میں وکالت سے کما لیتے ہیں- |
|
اُنھوں نے خود اپنی محنت سے زندگی بنائی تھی۔ یہ اُن کی
دیانت، لگن اور ذہانت تھی جس کی وجہ سے وہ اتنی دولت کمانے میں کامیاب ہوئے۔
اُن کی دولت کا ذریعہ صرف قانون کا پیشہ ہی نہیں بلکہ متحدہ ہندوستان کی
چوٹی کی صنعتوں کے حصص اور جائیدار میں کی گئی سرمایہ کاری بھی تھی۔ |
|
یہاں تک کہ 1926 تک بمبئی ڈائنگ، ٹاٹا سیٹل اور
ٹرام وے میں ان کے اثاثوں کی مالیت 14 لاکھ روپے تھی جو آج کے حساب سے
کروڑوں میں بنتی ہے- |
|
قائداعظم ؒ کا شمار اس وقت کے 10 سر فہرست کے
سرمایہ کاروں میں ہونے لگا اس وقت میں قائداعظم ؒ کراچی، بمبئی دہلی اور
لاہور کی اہم ترین جگہوں پر مہنگی جائیدادوں کے مالک تھے- یہاں تک کہ 1927
تک قائداعظم ؒ ہندوستان کی 11 بڑی کمپنیوں کے حصص خرید چکے تھے جہاں سے ان
کو سالانہ لاکھوں روپے منافع ملتا تھا- |
|
|
|
قائداعظم ؒ کی
وصیت |
کتاب کے مطابق قائداعظم ؒ نے اپنی وصیت اپنی
زندگی میں ہی 30 مئی 1939 کو لکھی تھی اور اپنی جائیداد کو تقسیم کرنے کے
حوالے سے ہدایات درج کی تھیں- |
|
قائداعظم ؒ نے اپنی تمام جائیداد کو دو حصوں
میں تقسیم کیا تھا جس کا پہلا حصہ ان کے خاندان کے متعلق تھا جب کہ دوسرا
حصہ پاکستان اور بھارت میں موجود کئی اداروں کے نام تھا جن کو ان کی آمدنی
کا ایک بڑا حصہ بطور چیرئٹی دیا جاتا تھا- |
|
ان اداروں میں اسلامیہ کالج پشاور، سندھ مدرست
الاسلام کراچی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور انجمن اسلام اسکول بمبئی، عربک
کالج نیو دہلی اور یونیورسٹی آف بمبئی شامل تھے- |
|
قائداعظم ؒ کے
آخری الفاظ |
قائداعظم ؒ کی پاکستان سے محبت اور لگاؤ کا
تعلق ان کی موت کے وقت ان کے لبوں سے ادا ہونے والے الفاظ سے لگایا جاتا ہے
جن کے بارے میں ان کی بہن فاطمہ جناح نے بیان کیا تھا- آخری وقت میں بے
ہوشی کے عالم میں قائداعظم ؒ کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کچھ اس طرح سے
تھے
کشمیر۔۔۔۔۔ انہیں فیصلہ کرنے کا حق دو ۔۔۔۔۔ آئين میں ۔۔۔۔۔ اسے جلد۔۔۔۔
مکمل کروں گا۔ مہاجرین ۔۔۔۔ ان کی ۔۔۔ ہر ممکن ۔۔۔۔ ادا کیجیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان ۔۔۔ |
|
آج قائداعظم ؒ ہمارے درمیان نہیں مگر ان کی عزت
و احترام ہمارے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گی اور قوم اپنے اس محسن کو کبھی
فراموش نہیں کرے گی- |