قائد اعظم محمد علی جناح کا طرِز سیاست
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
(حلقہ احباب ِ ذوق، گلشن معمار کی ادبی نشست میں 25 دسمبر2022ء کوپڑھا گیا)
|
|
قائد اعظم محمد علی جناح کا طرِز سیاست (حلقہ احباب ِ ذوق، گلشن معمار کی ادبی نشست میں 25 دسمبر2022ء کوپڑھا گیا) ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی منتظمین حلقہ احباب ِ ذوق، گلشن معماراور شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی،حضراتِ گرامی ! مجھے فخر اور خوشی ہے کہ آپ نے مجھے یوم قائد اعظم محمد علی جناح کے دن کے موقعہ پر مخاطب ہونے کا موقعہ دیا۔میں اس ادبی نشست کے ذمہ داران کو مبارک باد دیتا ہوں کہ وہ یوم قائد اعظم پر اتنے وقیع نشست کا اہتما م کرسکے اور معزز سامعین کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس قومی تقریب میں شرکت کا وقت نکالا۔ معزز سامعین ! بانی ئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے طرز سیاست، تدبر اور بردباری کا ثمر ہی ہے کہ آج ہم ایک اسلامی، جمہوری ملک میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔ ہر طرح کی آزادی حاصل ہے، جس کو جو چاہیں جوکچھ کہیں، جس کا جس قدر مزاق اڑائیں، شخصیات تو دور کی بات ہم تو اداروں کوبھی اور حساس اداروں کو بھی تنقید کانشانہ بنانے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ کسی کو بابا کا لقب تو کسی کوخلائی مخلوق، یہ آزادی ہمیں کیسے حاصل ہوئی، اگر قائد اعظم اپنے سیاسی تدبر کو بروئے کار نہ لاتے، پاکستان کے قیام میں کلیدی کردار ادا نہ کرتے، تو کیا یہ آزاد مملکت جس کا نام پاکستا ن ہے معرض وجود میں آسکتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں دیگر اکابرین کی کاوشیں بھی شامل تھیں، وہ بھی اتنے ہی شکر گزاری اور خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ یہ وہ قائد ین تھے جن کی منزل اقتدار کی نہیں تھی،وہ جاہ و حشمت بھی ان کے سامنے کچھ نہ تھا وہ ایک آزاد وطن کے خواہمشند تھے، وہ چاہتے تھے کہ مسلمان آزاد وطن میں آزاد زندگی بسر کریں۔یہاں مثالی طرزِ حکمرانی ہو، جمہوری روایات کو فروغ حاصل ہو۔ قائد کا طرز سیاست ملک و قوم کی ترقی اور بھلائی تھا جب کہ قائداور لیاقت علی خان کے بعد اقتدارپر براجمان ہونے والے سیاست دانوں کا طرز سیات کرسی بچانا رہ گیا ہے۔ سینیٹر عبدالحسیب خان صاحب نے بہت درست کہا کہ پاکستان میں لیڈر کوئی نہیں ہے۔سب سیاست دان ہیں “۔ لیڈر قوم بناتا ہے سیاست داں مال۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں جتنے اقتدار میں آئے وہ لیڈر نہ تھے بلکہ سیاست داں تھے اور اب بھی یہی صورت حال ہے۔ قائد اعظم ہمیشہ سے مسلم لیگ میں نہ تھے بلکہ وہ کانگریس کے لیڈر تھے لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کی حالت زار دیکھی اور ہندو و مسلم کے فرق کو محسوس کیا تو کانگریس کوخیر باد کہا اور مسلم لیگ کی جدوجہد کے سپہ سالار بن گئے۔ سیاسی تدبر ان میں بدرجہ اتم موجود تھا ان کی نگاہ دور تک کے سیاسی حالات پر تھی، ان کے طرز سیاست نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کا رویہ متعصبانہ ہے،مسلمان کسی صورت ان کے ساتھ شیر و شکر ہوکر نہیں رہ سکتے، چنانچہ انہوں نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں اپنے تمام تر سیاسی تدبر سے کام لیتے ہوئے، پاکستان کے قیام کو ممکن کر دکھایا۔ قائد کی صلاحیتوں کے بارے میں وجے لکشمی پنڈت نے کہا تھا کہ ”مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی اور دو سو ابو الکلام ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف ایک محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا“۔ قائد اعظم کا طرزِ سیاست، تدبر، بردباری، تفکر، تامُل، دور اندیشی اور فکر ہی تھی کہ انہوں نے جب یہ محسوس کر لیا کہ برصغیر میں دو قومیں یعنی ہندو اور مسلمان رہتے ہیں جن کا مذہب، تہذیب و روایات ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ مسلمانوں کو مذہبی، سماجی، تہذیبی و تمدنی آزادی حاصل ہو جس کے مطابق وہ اپنی زندگی بسر کریں۔ یہی وہ سوچ تھی جس کا اظہار شاعر مشرق علامہ اقبال بھی کرچکے تھے۔ علامہ تو پاکستان کا خواب بہت پہلے دیکھ چکے تھے، شاعر مشرق کے خواب کو قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی حکمت عملی اور سیاسی تدبر سے عملی جامہ پہنایا۔قائد اعظم ایک اصول پسند سیاست دان، قانون کی پاس داری کرنے والے، وقت کی پابندی کرنے والے، کفایت شعار اور کفایت شعاری کا درس دینے والے، سرکاری خزانہ انتہائی ایمانداری سے خرچ کرنے والے، عام زندگی میں ایماندار، سچے، مخلص، ان کی زندگی کے بے شمار واقعات ایسے ہیں جن سے ان کے اصول پسند ہونے اور قانون پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا درس ملتا ہے۔ وہ سیاسی معاملات میں اپنی جماعت کے مشوروں کے بغیر کوئی کام بھی نہیں کیا کرتے تھے، وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ قائد اعظم قانون دان ہی نہ تھے بلکہ قانون پر سختی سے عمل کرتے اور عمل کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے جنرل گل حسن جو قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم کے اے ڈی سی اور کیپٹن تھے، بعد ازاں وہ آرمی چیف بھی ہوئے کے حوالے سے ایک واقعہ تحریر کیا۔ لکھتے ہیں کہ اپنے مشاہدات کا ذ کرتے ہوئے گل حسن نے لکھا کہ عام طورپر گورنر جنرل قائدا عظم محمد علی جناح چھٹی کے دن کراچی کے مضافات میں چلے جاتے تھے۔ ایک بار اتوار کی شام ہم واپس کراچی آرہے تھے تو راستے میں ریلوے پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے گورنر جنرل کی کار کورکنا پڑا۔ اس لیے یہ ریلوے پھاٹک بند تھا۔ گونرنر جنرل کی گاڑی رک گئی۔اے ڈی سی گل حسن فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھا تھا وہ کار سے نکلا اور پھاٹک کے چوکیدار کو بتا یا کہ کار میں گورنر جنرل تشریف فرما ہیں۔دور دور تک ریل گاڑی آتی نظر نہیں آرہی تم ایک منٹ کے لیے پھاٹک کھولو تاکہ ہم نکل جائیں۔ چوکیدار نے پھاٹک کھول دیا۔ گل حسن کار میں آکر بیٹھے اور ڈرائیور سے چلنے کا کہا۔ قائداعظم نے ڈرائیور کو منع کردیا اور اے ڈی سے سے کہا ”گل اگر میں قانون کی پابندی نہیں کرونگا تو کوئی بھی قانون پر عمل نہیں کرے گا“۔ چنانچہ جب تک ریل گاڑی گزری، گورنر جنرل کی سواری وہیں رکی رہی۔ یہ تھی قائد اعظم کی اصول پسندی، قائد اعظم جس بات کے لیے منع کرتے خود اس پر عمل کرکے دکھاتے اس طرح کی بے شمار مثالیں قائد اعظم کی زندگی سے عبارت ہیں۔ دو قومی نظریہ کے حوالے سے قائداعظم محمد علی جناح نے8 مارچ 1944 ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا ”پاکستان اُسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا، یہ اُس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہئ توحید ہے، وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا، وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا“۔ ممتاز حسن نے قائداعظم محمد علی جناح کی فراست اور طرز سیاست کے حوالے سے لکھا ہے کہ”جب ستمبر 1946ء میں کانگریس اور اکتوبر1946 ء میں مسلم لیگ ہندوستان کی عبوری حکومت میں شامل ہوئیں تو انگریزوں کی کوشش یہ تھی کہ ان دونوں کو گورنمنٹ میں رکھا جائے اور ان میں سے ایک یعنی کانگریس کو دوسری یعنی مسلمانوں پر مسلط کر دیا جائے مگر قائد اعظم کی فراست اور تدبر نے اس چال کو ناکام کردیا“۔ قائداعظم محمد علی جناح سیاسی تدبر، فہم و فراست اور طرز سیاست کے بے شمار واقعات ہیں جو پاکستان کی تاریخ کا اہم باب ہیں۔ اپنے اوپر انحصار کرنے، دوسروں پر بھروسہ نہ کرنے کے حوالے سے قائد نے مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لاہور23 مارچ 1940ء میں فرمایا ”اپنی تنظیم اس طور کیجئے کہ کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ یہی آپ کا واحد اور بہترین راستہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی کے خلاف بدخواہی یا عناد رکھیں۔ اپنے حقوق اور مفاد کے تحفظ کے لیے وہ طاقت پیدا کیجئے کہ آپ اپنی مدافعت کرسکیں“۔آج ہماری کیا صورت ہے ہمارا انحصار دوسروں پر ہے، ہمارے حکمرانوں نے قائد کی تعلیمات کو، احکامات کو، فرمودات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کشکول اٹھائے کبھی ایک ملک کبھی دوسرے ملک خود بھی شرم سار ہورہے ہیں اور پوری قوم کو بھی رسوا کرنے کے درپے ہیں۔ قائد کی طرز سیاست کی ایک فکر یہ تھی کہ وہ آنے والی نسل کو جن کے ہاتھوں میں پاکستان کا مستقبل ہوتا ہے اسے سیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ وہ مستقبل کے معماروں کو ان کی مستقبل کی ذمہ داروں کے لیے تیار کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے طالب علموں کو پیغام دیا کہ ”اپنے آپ سے وفا، اپنے والدین سے وفا، اپنی تعلیم سے وفا، اپنی ریاست سے وفا کریں۔ طلبہ سیاست کا مطالعہ کریں مگر سیاست سے دور رہیں“۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح 25دسمبر 1876ء اتوار کے روز شہر کراچی کے قدیم علاقے میٹھا در جو کھارا در بھی کہلاتا ہے میں واقع عمارت وزیر میشن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جناح پونجا مشہور تاجر تھے، قائد اعظم نے کراچی کے سندھ مدرستہ الا سلام جو اب سندھ مدرسہ اسلام یونیورسٹی ہے میں حاصل کی۔ قانون کی اعلیٰ تعلیم انگلستان سے حاصل کی 1897ء میں قانون کی ڈگری لے کر ہندوستان لوٹے اور بمبئی ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ 1916ء میں آپ نے مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لکھنؤ کی صدارت کی اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے لکھنؤ پیکٹ کی تیاری میں مدد کی۔رفتہ رفتہ قائداعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت سنبھالی اور مسلم لیگ کے پرچم تلے پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں سر فہرست لیڈر بن گئے۔ قیام پاکستان کے لیے آ پ کی روز شب جدوجہد کے نتیجے میں اسلامی ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ یہ سب کچھ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت اور ان کی طرز سیاست کا نتیجہ ہی تھا کہ انگریز اور ہندو جیسے شاطر وں سے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ قائد اعظم نے اردو کے بارے میں ڈھاکہ میں 22مارچ 1948ء میں اپنی تقریر میں صاف صاف الفاظ میں فرمایا ”میں یہ واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہی ہوگی۔ کوئی اور زبان نہیں۔ ہر وہ شخص جو اس بارے میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے یقینا پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو مربوط رہ سکتی ہے اور نہ اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دے سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ پر نظر ڈال لیجئے آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہونی چاہیے“۔ ان الفاظ کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں، کوئی سوال اگر کوئی کرنا چاہے اور وقت بھی ہو تو ضرور کریں۔اگر نہیں تو سلام اپنے محبوب کی قائدانہ صلاحیت پر، سلام اپنے محبوب قائد کی فہم و فراست پر، سلام قائد کے طرز سیاست پر۔
|