تھی جسکی تمنا ، یہ سحر وہ تو نہیں ہے
قائد کی تگ و دو کا ثمر،یہ تو نہیں ہے
مسلے ہوۓ جذبے، تو کہیں کچلے ہوۓ جسم
اقبال کا وہ خواب نگر ، یہ تو نہیں ہے
تاریکی ختم ہوئی صبح کے آثار ہوئے، شہر کے لوگ نئے عزم سے بیدار ہوئے۔ آج
کے دن یعنی ۲۵ دسمبر ۱۸۷۶ بروز سوموار کراچی کے رہائشی پونجا جناح کے
خوابگاہ میں مسلمانانِ ہند کی آزادی کا آفتابِ پُر جمال آنکھ کھولتا ہے۔
یہی وہ دن تھا کہ جب ایک عظیم لیڈر، ایک باہمت مرد، ایک نڈر نوجوان، ایک
بہترین بیٹا اور ایک محب وطن پیدا ہوا تھا، جس نے ہمیں آزاد وطن دیا،
ہاں۔۔۔یہی وہ عظیم شخصیت ہے جسکی بدولت ہمیں غلامی کی زندگی سے رہائی ملی،
غلامی کی ان زنجیروں سے آزاد ہوئے اور یہی وہ مثالی لیڈر ہے کہ جس نے اپنی
تمام تر زندگی پاکستان کو بنانے ، اسے سنوارنے اور ملت کی خاطر اپنا مرض
بھلانے میں وقف کر دی ۔ لیکن جناح کے پاکستان اور موجودہ پاکستان میں بہت
فرق ہے ۔۔کہیں ہماری آنکھوں نے وطن کو بنتے دیکھا، کہیں تراشی ہوئ امیدوں
کے چمن کو ڈھلتےدیکھا، کہیں انگریزوں کو للکارتے ہوئے کہ" قائد ملت بھی چلے
ہونے کو قربان کیونکہ یہ تھا قائداعظم کا پاکستان ۔"کہیں ہجرت کا الم
اٹھائے جناح کے ساتھ ساتھ قدم ملاتے ٹرینوں میں کٹتے ہوۓ ، ٹکڑوں میں بٹتے
ہوۓ، وفا کے پرچموں کی مانند سروں کو لٹکتے ہوۓ دیکھا ، تو کہیں بہنوں کو
اپنی عزت کی حفاظت کی خاطر کنوؤں میں چھلانگیں لگاتے دیکھا ، کہیں بوڑھی
ماؤں کو اپنے بیٹوں کی لاشوں کے پاس بیٹھے دیکھا، اور کہیں ضعیف والدین کو
بیٹوں کے کندھوں پر اٹھائے دیکھا، ہاں ہر طرف خون ہی خون دیکھا اور ننھے
بچوں کو ماؤں کی لاشوں کے پاس بلکتے سسکتے دیکھا ۔ یہ مناظر ہر محب وطن کی
روح کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہیں اور موجودہ پاکستان میں ،کہیں کمائی
سیاستدانوں پر لگاتے دیکھا ، پیسے یہاں سے بیرونِ ملک بھیجتے دیکھا، سانحہ
ماڈل ٹاؤن دیکھا، ہاں۔۔ سانحہ سیالکوٹ دیکھا، سانحہ پشاور دیکھا، اس قوم نے
عیاش حکمرانوں کو جیتا دیکھا،جس شہر سے پہلا دارلخلافہ اٹھایا گیا اسے پانی
میں ڈوبا دیکھا، گناہگار آنکھوں نے بنگلہ دیش بنتے دیکھا، پچھلے۷۲ سالوں
میں قائد کے ملک کو تبا ہ برباد ہوتے دیکھا ،چور لُٹیرے قاتل سارے شہر کے
چوکیدار بنے دکھائی دے رہے ہیں، نیا پاکستان بنانے کی آڑ میں قوم کو رسوا
ہوتے دیکھا ۔۔ اجداد نے جو قربانی دی، بہنیں کیوں جاں پر کھیل گئیں، وہ
سڑکوں کی سرخی اور وہ خون سے لکھی تحریریں ۔۔اے قائد! تیری قوم کے نادان
بھول چکے ہیں۔ مزید یہ کہ جس کو جتنا اختیار ملا اس نے اتنا لوٹا، غریبوں
کی بستیاں جلی اور امیروں کے بنگلے بڑھے، اس پاک وطن کے ماتھے پر دہشت گردی
کی تختیاں آویزاں ہوئیں۔ افسوس صد افسوس! ہم نے ملت کا شیرازہ بکھیر کے رکھ
دیا، طبقات میں بٹ گئے، مسالک میں بٹ گئے۔ اسلام کے قلعہ پاکستان کے ہاتھ
میں کشکول تھما دیا اتنا مقروض کر ڈالا کہ۔۔اب تو سسکنے کے لیے بھی سانسیں
غیر سے بھیک میں مانگنا پڑتی ہیں۔ دوسروں کے ٹکڑوں پہ پلنے والا یہ پاکستان
قائد اعظم کا نہیں ہے۔ یہ ایک غیرت مند کا بنایا ہوا پاکستان ہو ہی نہیں
سکتا۔۔۔
یہ نفرت بُری ہے، نہ پالو اسے
دلوں میں خلش ہے، نکالو اسے
نہ سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان
یہ سب کا وطن ہے، بچالو اسے
قائدِ محترم عزیز ِ مکرم محمد علی جناح بانیِ پاکستان، جنہوں نے غازی علم
الدین کا مقدمہ لڑا، جن کی انتھک کاوشوں کا ثمر ہمیں پاکستان کی صورت میں
ملا ۔ ﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ آپکے درجات بلند فرمائے، بیش بہا مغفرت
فرمائے اور روز قیامت سرکار دو عالمﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے آمین
تاریخ کے اوراق اسے یاد رکھیں گے
اس مرد مومن کولاکھ بھلا دے
|