پاکستان کی سیاست آج کل جس نہج پر پہنچ گئی ہے اور اس میں
جو آجکل جس گرما گرمی کا ماحول بنا ہوا ہے ہر پاکستان یہ سوچ رہا ہے کہ اب
یا آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے اس وقت سیاست کا جو ماحول ہے جب سے
سوشل میڈیا اور مختلف نیوز چینل نے پاکستانی سیاست کو جہاں نقصان پہنچایا
ہے وہاں یہ فائدہ بھی پہنچایا ہے کہ لوگ پہلے سیاست میں بہت کم تعداد میں
لوگ دلچسپی رکھتے تھے مگر اب سوشل میڈیا اور ان نیوز چینل نے سیاست میں
طوفان برپا کردیا پہلے بڑے بڑے سیاسی فیصلے عوام کو بتائے بغیر بند کمروں
میں ہوجایا کرتے تھے مگر اب سیاست نے ایسی کروٹ لی ہے کہ سب کی زبان سے صرف
سیاست کا لفظ ہی سنائی دیتا ہے سوشل میڈیا اور نیوز چینل نے گھر گھر بیٹھے
اپنے سامعین اور ناظرین کو پاکستانی سیاست سے ایسے جوڑ کر رکھ دیا کے ہر
گھر گھر ، ہوٹل ، کھانے وغیرہ میں کُھل کر سیاست پر بحث ومباحثہ اب عام بات
بن گئی ہے اور اس کا سہرا اگر دیکھیں تو سیاست میں گزشتہ دہائیوں سے جدوجہد
کرنے والے اس شخض کا بھی 75% ہے اس نے پاکستان کی سیاست کو بند کمروں سے
نکال کر عوام کے سامنے لانے پر مجبور کیا اور یہ صرف اور صرف پاکستان تحریک
انصاف کے بانی عمران خان کے سر جاتا ہے کہ انہوں نے عوام میں سیاسی شعور کو
بیدار کیا ہے.
آج کل سیاست کے ماحول میں بہت گرمائی نظر آرہی ہے تمام سیاسی جماعتیں
اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے اپنی سہی کوشیشوں میں ہاتھ پیر ماررہی ہیں
کوئی پاکستان کے شہروں اسلام آباد، لاہور تو کوئی کراچی میں سیاسی گفت
وشنید لگا بیٹھا ہے تو کوئی لندن میں پڑاؤ ڈالے بیٹھا ہے تو کوئی سوشل
میڈیا پر مختلف اندازوں میں ہیکرز بن کر ابلیسی کھیل کھیل رہا ہے تو کوئی
نرم لہجہ میں اپنے ( مرتضی درانی ) جی کوشیش کررہا ہے اور سیاسی جماعتیں
بھی اس میں اپنا روز بیاں ڈال کر اپنی اپنی جماعتوں سے شاہ سے زیادہ شاہ کا
وفادار کی پیچھلی روایتوں کو زندہ و جاوید کی اپنی سہی کاویشوں میں لگا ہوا
ہے کچھ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر نئ نسل کو اپنے اندر کی کیچڑ کے گند کو
دیکھانے میں لگا ہوا ہے اور تو اور کچھ تو اپنے سیاسی مخالفین کی آڈیو
لیکس کر کے عوام کو گندے چینل سے ہٹانے پر اپنی طرف متوجہ کررہا ہے ( آپ
کیوں اتنی واہیات وڈیو باہر کی دیکھتے ہیں ہم ہے نہ پاکستانی آپ کی خدمت کے
لیے ) عوام کو متنفر کرنے کے چکر میں اپنی روٹی حلال کرنے میں لگے ہوئے ہیں
تو کوئی صبح صبح کالے کوٹ والے کے ساتھ جاکر اس ملک میں انصاف کی تلاش میں
ایک دوسرے پر کیس پر کیس کر کے احتیساب احتیساب کررہا ہے ( جو احتیساب بیچ
سمندر کے بھنور میں ڈوب رہا ہے اور بچاؤ بچاؤ کے غوطہ لگا لگا کر صدا دے
رہا ہے ) مگر سیاسی رہنما اس بات سے بےخبر ہیں کہ یہ 1971 کی پاکستانی عوام
نہیں جب عوام کا ریموٹ ان کے ہاتھوں میں تھا اب سیاستدانوں کا ریموٹ
پاکستانی عوام کے پاس ہے اب یہ عوام نہ بیوقوف اور نا سمجھ نہیں رہی آج کل
کی عوام پڑھی لکھی اور باشعور ہے اب یہ 1971 والی عوام نہیں رہی اب اس قوم
کو گمراہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی یا ن لیگ یا پی ڈی ایم کی طرح مختلف اسیاسی جماعتوں اور
اتحادوں نے حکومت کس طرح حاصل کی یہ طوطا مینا کی کہانی اس دیس کہ چپہ چپہ
کی دیواروں پر درج ہے چار دہائیوں سے حکومت کرنے والے کپتان عمران خان کی
حکومت کے ساڑھے تین سال بھی برداشت نہ کرپائے جن حکمرانوں نے عوام کو سہولت
دینے کے بجائے صرف اپنی نسلوں کو احتیسابی سہولتیں عنایت کیں جبکہ عوام کے
آنسو تو ان سہولتوں سے تو برائے نام تھے واہ رے سیاسی حکمرانوں
یہ تو پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور متعلقہ اداروں کو بھی اچھی طرح
معلوم ہے عوام عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے اور اس میں واقعی دو رائے نہیں
قوم ان پرانے سیاسی وراثتیوں اور ان کی نسلوں سے تنگ آ گئی ہے. کپتان
عوامی جلسہ کرتا ہے وہاڑی میں کارکنان مختلف شہروں میں بڑی بڑی اسکرین
لگاکر عوام خود جوق درجوق ان میں شریک ہوکر جلسہ جیسا ماحول بنا دیتے ہیں
جیسے کپتان وہاڑی میں نہیں لاہور جہاں عوام موجود ہے وہاں جلسہ کررہا ہے وہ
ایک کال دیتا ہے تو اس کے چاہنے والے پاکستان کی سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور
صرف نوجوان ہی نہیں خواتین، بوڑھے اور بچے بھی بڑی تعداد میں شرکت کرتے
ہیں،نہ وہ موسم دیکھتے ہیں کہ برسات ہے یا طوفان دیکھتے ہیں نہ دن نہ رات
نہ گرمی نہ سردی بس خان صاحب کی ایک آواز پر گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔ جب
کپتان کو ایک سازشی سائفر کے زریعے سے وزیراعظم ہاؤس چھوڑنے پر مجبور کیا
تو وہ صرف ایک ڈائری لیکر نکلا تو پاکستانی قوم ان کے بغیر کہے رات بھر
سڑکوں پر احتجاج کرتی رہی۔ ایک قوم کی اپنے لیڈر سے ایسی والہانہ محبت اس
نئی نسل پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
اب پاکستان میں ایک طرف عمران خان تنہا اپنی قوم کو لے کر کھڑا ہے تو دوسری
طرف تمام سیاسی مفادات جماعتیں ظلم و جبریت و ڈر و خوف مسلط کرکے عوام کا
اعتماد حاصل کرنے کی ہر حد تک جارہی ہیں اور اس سے آگے جانے کو بھی تیار
ہیں 25 مئی کا وہ دن جب کپتان نے اپنی قوم کو پر امن لانگ مارچ کرنے کی
دعوت دی اور اسلام آباد پہنچنے کا حکم دیا تو ان مفاد پرست جماعتوں نے
اپنی بے جا طاقت مظاہرہ کیا عوام پر ظلم کی انتہا کر دی لوگوں کو کشمیر میں
انڈیا کے ظلم کی یاد دلادئی کارکنان کے گھروں پر ایک دن پہلے بغیر کسی
اریسٹ وارنٹ کے آدھی راتوں کو تحریک انصاف کے رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے
مارے گئے چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا، یہاں تک کہ خواتین اور بچوں کا
تقدس بھی پامال کیا تحریک انصاف کے رہنماؤں پر ہر جبر و ظلم وستم کے پہاڑ
توڑے گئے جیسے محبِ وطن صرف یہ ہی مفاد پرست ٹولہ ہے اور باقی سب دہشت گرد۔
اور ایک بار پھر عمران خان اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکمران جماعت دل بڑا
کرکے الیکشن میں جائے اور انصاف تحریک کو مزاکرات پر لائے اگر یہ کہیں
تحریک انصاف کے کارکنان کے پریشر سے تنظیم روڈوں پر آکر فیصلہ کے لیے نہ
نکل پڑے اس سے پہلے بھی لانگ مارچ میں عمران پر قاتلانہ حملہ تو ناکام
ہوگیا مگر ہماری معشیت پر اس کا بہت برا اثر پڑا ہے اگر اب کچھ پھر اس طرح
کی یا اس ملتی جُلتی کچھ حرکت احتیجاج ہوگئی تو یہ حکمرانوں کے علاوہ بہت
کچھ بہا کے لیجائیگا حکمران اور متعلقہ ادارے اس کو انا کامسلہ نہ بنائے یہ
سیاست تو بعد میں بھی ہوجائیگی کیونکہ نوجوان کی اکثریت گزشتہ حکومتوں سے
اپنی بیروزگاری سے ویسے ہی ڈپریشن و فسٹریشن کا شکار ہےایسے میں ان
نوجوانوں کو روڈ پر لاکر کوئی بھی دشمن فائدہ اُٹھا کر ماڈل کالونی والا
واقعہ رونما کراسکتا تو پھر کیا طوفان بدتمیزی ہوسکتی ہے کبھی سوچا اور پھر
یہ نہ رکنے والا سلسلہ ہمیں کہیں بڑے نقصان کی طرف نہ لیجائے جہاں سے واپسی
پھر بہت کچھ ختم کر کے واپس ہم پھر یہ آواز سننے کو ملے ( میرے عزیز ہم
وطنو ملک کی صورتحال دیکھ کر ہم نے ملک سنبھال لیا ) ہھر نئے مفاد پرست
جماعتیں اپنی اپنی منڈیاں لگائینگی اور پھر دو دانت کے بھی اور بغیر دانت
کے بھی کہیں دنبہ تو کہیں بکرے تو کہیں گائے اپنے اصطبل میں لیجاکر انہیں
وہی 75 سال والا چارہ اپنے ہاتھوں سے کھلایا جائیگا اور پھر یہ نئے قربانی
کے جانور ذبح ہونے سے پہلے بڑی بڑی بڑھکیںاں مارینگے۔
اب رہی بات ہمارے اداروں کی تو لوگ اب سوال کرنے لگے ہیں کہ یہ ادارے کہاں
کھڑے ہیں؟ کیا اسی طرح خاموشی اختیار کیے بیٹھے رہیں گے؟ کہنے کو تو یہ
ادارے عوام کے لیے کام کرتے ہیں مگر کبھی عوام کے ساتھ کھڑے دکھائی نہیں
دیے کیوں؟ ہمارا قانون، عدالتی نظام کب جا گے گا؟ کیا یہ جیلیں صرف غریب
آدمی کے لیے ہیں؟ کیا کبھی کوئی حکمران سزا کا مستحق ہو پائے گا یا پھر ان
کو عدالتوں سے کلین چٹ ملتی رہے گی؟ 75 سال بعد بھی اگر ہم 1947 کے زمانے
میں جی رہیں تو کیا فائدہ ایسی آزادی کا۔جن لوگوں پراربوں کی کرپشن کے
کیسیز ہیں تو وہ باعزت بری ہو کر لندن میں قیام کریں گے اور جنہوں نے بھینس
چوری کی ہے وہ پتہ نہیں کتنے سالوں سے جیلیں کاٹ رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام ادارے اپنا اپنا کام کیوں نہیں کرتے؟ جن
لوگوں نے نا اہلوں کا ٹولا پاکستان کی عوام پر مسلط کیا ہے کیا یہ عوام پر
ظلم نہیں ہے؟ وہ حکمران جو صرف 40 سالوں سے اپنی جائیدادیں بناتے رہے،
پاکستان اور عوام کا سوچنے کے بجائے کرپشن کرنے میں لگے رہے، ایسے حکمرانوں
کے ہاتھ میں اس ملک کی باگ دوڑ دے دی گئ جو بیرونِ ممالک میں بھی برائی کی
نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور آج وہی لوگ ہم پر مسلط کر دیے گئے تو کیسے یہ
قوم ان کو تسلیم کر لے۔ پاکستان کی عوام کو اپنے ہی ملک میں سوال کرنے کی
اجازت نہیں ہے، اگر کوئی سوشل میڈیا پر کوئی سوال کرتا ہے تواس کو بھاری
قیمت چکانی پڑتی ہے۔ مہنگائی آج ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہے،سیلاب زدگان
کے لیے آنے والی رقم بھی مستحق لوگوں تک نہیں پہنچ پا رہی، حکمرانوں کے
بقول کے حکومت کے پاس زہر کھانے کے بھی پیسے نہیں مگر آج کابینہ میں بیٹھے
ارکان کی تعداد تو دیکھیں تو سب کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کیسے
پاکستانی قوم کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ آخر میں یہی کہونگا کہ ہم سب
کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کیونکہ مرنے کے بعد جان اللہ
کو دینی ہے حکمرانوں کو نہیں،فلحال سیاست کا کھیل 75 سالوں سے جاری ہے مگر
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سیاسی اونٹ کس طرف بیٹھے گا سب کو انتظار ہے۔ |