جین مندر اور ٹائر مرمت کرنے والا‎

مسجد، مندر، چرچ، گردوارہ، مزار بڑے رومانوی سے مقامات ہوتے ہیں۔ لاہور کا جین مندر کئی دھائیوں بعد تعمیر کر دیا گیا، بہت خوشی کی بات ہے۔ اب لازم ہے کہ وہاں کسی پنڈت کی ذمہ داری لگائی جائے اور جین مت کی کوئی مورتی بھی رکھی جائے۔

مورخین بتاتے ہیں کہ جین مت کی روایات بدھ مت اور ہندومت سے بھی قدیم ہیں، یہاں تک کہ اِسے وادی سندھ کی تہذیب سے بھی پرانا کہا گیا ہے۔ جین مت کے ابتدا کے حوالے سے اگرچہ بہت سی افسانوی باتیں اور حکایات موجود ہیں مگر چھٹی صدی قبل عیسوی کے دوران مہاویر کو جین مت کے سب سے زیادہ بااثر اساتذہ میں سے ایک تسلیم کیا گیا ہے۔ جین مت کے ماننے والے اُنہیں چوبیسویں اور آخری تیرتھنکر کے طور پر تعظیم کرتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے اس بات کی درستگی بھی ضروری ہے کہ بہت سے لوگ مہاویر کو جین مت کابانی سمجھتے ہیں، لیکن روایت کے مطابق وہ ایسے شخص تھے، جنہوں نے بہت پہلے سے قائم مذہب کی پیروی کی تھی۔ مہاویر نے تیس سال کی عمر میں اپنا گھر چھوڑا اور بارہ سال تک مراقبہ کیااور یہاں تک کہ وہ ”جینا“یعنی کے فاتح بن گئے۔

مہاویر گوتم بدھ کے ہم عصر تھے۔ جین مت کا نام سنسکرت کے اعتبار سے فتح کرنا کے معنی میں آتا ہے۔ اس سے مراد سنیاسی جنگ ہے، یعنی اس مذہب کے بھکشوؤں اور راہباؤں کو روشن خیالی، یاروح کی پاکیزگی حاصل کرنے کے اس سفر میں جو بہت نامور ہو جاتے ہیں، اُنہیں ”جینا“ یعنی فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ جین مت کے ماننے اوراس پر چلنے والوں کی سب سے بڑی تعداد جنوبی ایشیا ء میں آباد ہے۔ جین مت مذہب دنیا کے تمام جانداروں کو نظم وضبط اور عدم تشدد کے ذریعے روحانی پاکیزگی اور روشن خیالی کا راستہ سیکھاتا ہے۔ جین مذہب کی فلاسفی اور مذہبی مقصد روح کی تکمیل اور تزکیہ ہے۔
ساحر لدھیانوی صاحب نے ایک بار کیا خوب کہا تھا
بھاشا کی تکرار نہیں، مذہب کی دیوار نہیں
ان کی نظروں میں ایک ہیں مندر مسجد گردوارے

انار کلی کے پڑوس میں واقع تاریخی جین مندر لاہور کی پہچان تھا۔ 30سال قبل جب بھارت میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو پاکستان میں مسلمانوں نے احتجاجاً 30مندروں کو نقصان پہنچایا حالانکہ اُن میں سے کچھ جین مت کے مندر تھے، جیسے لاہور پرانی انار کلی کا جین مندر۔ جسے اُس وقت لاہور کے مسلمان سرفروشوں نے مکمل طور پر تبا ہ کر دیا تھا۔ جین مندر انار کلی، لاہور کے تین تاریخی جین مندر وں میں سے ایک تھا۔ باقی دو بھاٹی گیٹ کے اندر اور ماڈل ٹاؤن کے قریب فیروزپور روڈ پر واقع تھے۔

انار کلی کا جین مندر چونکہ سڑکوں کی تقسیم کے درمیان چوراہے پر کھڑا تھا، جس کی وجہ سے اس سنگم کو جین مندر سٹاپ کا نام دے دیا گیا۔

قریباً 3دھائیاں قبل جب کسی ایمان کے متوالے نے جین مندر کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھا تھا تو اسی جین مندر کی چوکھٹ پر ایک سائیکل کے ٹائر مرمت کرنے والے نے اپنی عارضی دکان بنائی ہوئی تھی۔ جین مندر اور وہ ٹائر مرمت کرنے والا اکثر محو گفتگو رہتے تھے۔ دونوں کی گہری دوستی تھی۔ اُس کبوتر کی طرح جو کبھی مسجد کے گنبد پر بیٹھتا ہے تو کبھی مندر کے گنبد پر۔
کبھی مندر کبھی مسجد یہ ہے اُس کا بسیرا
دھرم انسانیت کا بس کبوتر جانتا ہے
۔
6دسمبر 1992کی خوفناک صبح کو جب بھارت میں ہزاروں لوگ ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کے گرد جمع ہوئے اور اُس پر دھاوا بولا تو چند گھنٹوں کے اندر ہندو جنونیوں نے اُسے شہید کر دیا۔ ہم آج بھی اُن انتہا پسند ہندوؤں کو جنونی ہندو کہتے اور لکھتے ہیں۔ میرا ایک سوال ہم سب پاکستانیوں سے بھی ہے کہ جین مندر پر حملہ کرنے والے اور اُسے نقصان پہنچانے والے کون تھے۔ بھارت میں ایک ہجوم تھا۔ اگلے دن ایک ہجوم پاکستان پر حملہ آور تھا۔ حملہ آور ہجوم میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے تھے کہ یہ جین مندر ہے، ہندوؤں کا نہیں۔ بہر کیف جین مندر زمین بوس کر دیا گیا۔ سائیکل کے ٹائر مرمت کرنے والے محنت کش کی دکان اور روز گار بھی زمین بوس ہو گیا۔
کبھی مسجد کبھی مندر سے اُٹھا
اِک سوالی تھا، ترے در سے اُٹھا

جین مت کے ماننے والے بہت امن پسند لوگ ہیں۔ یہ لوگ اس حد تک یقین رکھتے ہیں کہ ایک چیونٹی یا کیڑے کی زندگی بھی محفوظ رہے۔ مگر جین مندر کو گراتے ہوئے یہ سوچا گیا نہ اس بات کا خیال رکھا گیا کہ جین مندر یا اس جیسے دوسرے مندر پاکستان میں مختلف مذاہب کے بھائی چارے کی علامت ہیں۔
جین مندر کی درد ناک کہانی کے ساتھ اُس روز لاہور کے بھائی چارے، تہذیب اور ہزاروں سال قدیم ثقافت نے اور بھی بہت سے زخم سہے۔ جین مندر کو توڑنے کے بعد اُس ہجوم نے شاہ عالمی اور لوہاری کے درمیان واقع سیتلا مندر کا رُخ کیا۔ جو اُس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں میں بھی ہر دلعزیز تھا کیونکہ اُس کے احاطے میں واقع تالاب میں نہانے سے جلد کی بیماریوں کو شفا ملتی تھی۔ دیوالی کے تہوار پر یہاں بڑی تعداد میں ہندو اور مسلمان جمع ہوتے تھے۔سیتلا مندر کو توڑتے اور گراتے ہوئے ایک دلخراش کہانی بھی سامنے آئی تھی اور وہ یہ تھی کہ اس مندر کے احاطے میں ایک مدرسہ بھی تھا اور جب اس مندر کو گرایا جا رہا تھا تو مدرسے کے قاری صاحب اس ہجوم کو لیڈ کر رہے تھے۔

جین مندر کو گرانے کے بعد لوگوں کا خیال تھا کہ جین مندر تو اب گرادیا گیا ہے،لہٰذا اس سٹاپ کا نام جین مندر سے بدل کر بابری چوک رکھ دیا جائے۔ اس فیصلے پر عمل کیا گیا مگر یہ نام زبان زد عام نہ ہوا۔ لاہور کے رہائشی کل بھی اس سٹاپ کو جین مندر کے نام سے پکارتے تھے اور آج بھی جین مندر کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہاں اگر آپ کبھی تجربہ کرنا چاہیں تو کسی رکشے والے سے کہیں کہ آپ کو بابری چوک جانا ہے تو وہ پریشان ہو کر آپ سے پوچھے گا کہ وہ کہاں ہے؟
عبادتوں کیلئے عمارات مختلف ہیں خدا وہی ہے
توچاہے مندر کو توڑ ڈالے کہ کوئی مسجد شہید کر دے



 

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 23856 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.