ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ
چوتھے صنعتی انقلاب سے ملکی معیشت اور عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات ہوں
گے مگر پاکستان میں ابھی بھی ہم صنعتی انقلابوں سے بے نیاز زراعت پر انحصار
کو قابل فخر سمجھ رہے ہیں۔پہلے صنعتی انقلاب کا آغاز اٹھارویں صدی کے
اختتام میں ہوا۔ اس انقلاب میں بہت سی نئی چیزیں ایجاد ہوئیں مگر بھاپ سے
چلنے والے انجن کی ایجاد اس انقلاب کی سب سے اہم چیز شمار کی جاتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ انقلاب توانائی کے لیے پانی کے استعمال کی دریافت تھی۔
اْس وقت تک سب سے زیادہ پیداوار کے لئے لوگ زراعت پر انحصار کرتے تھے یوں
بھاپ سے چلنے والی زرعی مشینری بنائی گئی جس سے مجموعی ملکی پیداوار میں
اضافہ ہونے لگا۔کوئلے کے استعمال سے لوہے کو ڈھالنے کا کام بھی تیز ہوا اور
یہی چیز دوسرے صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ دوسرا صنعتی انقلاب
تقریباً ایک صدی بعد انیسویں صدی کے آخر میں آیا۔ اس انقلاب میں اہم
کردار بجلی، گیس اور تیل کی دریافت کا رہا۔ لوہے کو ڈھالنے کا عمل تو پہلے
ہی شروع ہو چکا تھا مگر توانائی کے ان دوسرے ذرائع سے سٹیل بنانے کا عمل
بھی شروع ہوا۔ سٹیل کی انڈسٹری لگنے سے نئی جدید مشینیں آسانی سے بنائی
جانے لگیں۔اسمبلی لائن بھی اسی دور کا تحفہ تھا جس سے انڈسٹری میں بڑے
پیمانے پر چیزوں کے بننے کا عمل شروع ہوا۔ کھادوں اور جدید زرعی مشینری کی
وجہ سے زرعی پیداوار میں مزید اضافہ ہوا۔ ٹیکسٹائل کی صنعت میں مصنوعی
دھاگہ کی ایجاد نے پیداوار میں بے انتہا اضافہ کیا۔ اس سب کے علاوہ بجلی کی
وجہ سے ٹیلی فون اور ٹیلی گراف کی ایجاد بھی اسی عرصے میں ہوئی جس سے عمومی
رابطوں کے علاوہ صنعت کاروں کے درمیان بھی رابطے میں آسانی آئی۔ ان سب
چیزوں نے مل کر تاریخ میں پہلی بار جی ڈی پی پر کیپیٹا گروتھ کو تین فی صد
تک پہنچایا۔ تیسرا صنعتی انقلاب بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں آیا۔ اس
انقلاب میں سب سے زیادہ اہمیت کمپیوٹر کے پروسیسر کی ایجاد کو حاصل ہے۔ اس
کے علاوہ جوہری توانائی کی دریافت بھی بہت مفید ثابت ہوئی۔ مواصلات کے نظام
میں مزید جدت آ گئی اور اس کی بدولت خلائی تحقیق کا آغاز ہوا۔ کمپیوٹر کی
ایجاد کی وجہ سے صنعتوں میں بہت سی مشینیں خود کار ہو گئیں۔ پی ایل سی (
پروگرام ایبل لاجک کنٹرول) کی ایجاد سے ایک ہی مشین کو کئی مختلف کاموں کے
لیے استعمال کرنا ممکن ہوگیا۔ یہ تو ماضی کی باتیں اور ہم بھی کسی نہ کسی
حد تک ان انقلابوں سے مستفید ہوئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم آنے والے
معاشی انقلابوں کے لیے تیار ہیں؟ آج کل ہر طرف چوتھے انقلاب کی باتیں ہو
رہی ہیں اور اس انقلاب کی وجہ یہ ہے کہ آج کے دور میں کمپیوٹرز خودکار
ہونے کے علاوہ سوچنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے کمپیوٹرز کو روبوٹس کہا
جاتا ہے اور اس علم کو آرٹیفیشل انٹیلی جینس (مصنوعی ذہانت) کا نام دیا
جاتا ہے۔ پرانے انقلابوں میں جو اہمیت انرجی کو حاصل تھی اس دور میں وہی
اہمیت ڈیٹا کو حاصل ہے کیونکہ مشینوں کی مصنوعی ذہانت دستیاب ڈیٹا کے ذریعے
ہی ممکن ہے۔ڈیٹا کو مصنوعی ذہانت کے لیے کیسے استعمال کیا جاتا ہے اس کے
لیے ایک مثال آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ فرض کیا آپ کے گھر میں ایک
خود کار ڈرون ہو اور آپ اپنے گزشتہ پانچ سال کا سارا ریکارڈ اس ڈرون کو
فراہم کرتے ہیں۔ اس ریکاڑد میں یہ چیزیں ہیں کہ آپ نے کس دن کیا کھانا
بنایا اور اس دن موسم کیسا تھا اور آپ نے چیزیں کس دکان سے خریدی تھیں۔ اس
سب ریکارڈ کو سامنے رکھ کر ڈرون آپ کے ہر دن کی ضرورت کی چیزیں آپ سے
پوچھے بغیر دکان سے خرید کر لا سکے گا۔ اس لیے آپ اندازہ لگائیں کہ ان
سوچنے والے کمپیوٹرز سے انڈسٹری میں کیسا انقلاب برپا ہوگا۔ اس انقلاب کے
ترقی پذیر ملکوں پر کیا اثرات ہوں گے اس حوالے سے ماہرین کی رائے منقسم ہے۔
زیادہ تر کا گمان ہے کہ اس انقلاب سے امیر اور غریب ملکوں کے درمیان فرق
مزید بڑھے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غریب ممالک کے پاس معاشی غربت کے علاوہ
علمی غربت بھی ہے۔ اس علمی غربت کی وجہ سے وہ جدید چیزیں بنا ہی نہیں سکیں
گے۔ بہرحال ماہرین کے ایک چھوٹے طبقے کی رائے یہ بھی ہے کہ اگر غریب ملکوں
نے وقتی طور پر مثبت اقدام کیے تو وہ معجزاتی ترقی کر سکیں گے۔ان اقدامات
میں یقینی طور پر سب سے اہم چیز ڈیجیٹیلائزیشن ہے اور بد قسمتی سے پچھلی
حکومت نے جن کوششوں کا آغاز کیا تھا وہ بھی کسی انجام کو پہنچے بغیر ختم
ہو چکی ہیں۔ گورنمنٹ کی ذمے داری صرف ڈیجیٹلائزیشن سے بھی پوری نہیں ہوتی
بلکہ تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ بد قسمتی سے پرائمری
سے لے کر یونیورسٹیوں تک ہم صدیوں پرانا نصاب پڑھا رہے ہیں۔ نصاب میں
تبدیلی کے علاوہ گورنمنٹ کی یہ بھی ذمے داری بنتی ہے کہ اس صنعتی انقلاب کے
لیے درکار مہارتیں سکھانے کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیے جائیں۔ نئی سکلز
نہ سکھانے کے دو خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ پہلا خطرہ تو معاشی عدم
مساوات کا ہے۔ کیونکہ اس وقت پاکستان میں ایسے بہت کم لوگ ہیں جو اس صنعتی
انقلاب کے لیے درکار سکلز سے لیس ہیں اس لیے وہ منہ مانگے پیسے لینے میں
کامیاب ہوں گے ، جبکہ دوسری طرف ایسے لوگوں کو کوئی کم مزدوری پر بھی رکھنے
کو تیار نہیں ہوگا جن کے پاس جدید سکلز نہیں ہوں گی۔ اگر بغیر سکلز والے
مزدوروں کو کسی نہ کسی طرح لازمی صنعتوں میں کام دینا پڑ گیا تو ہماری
صنعتیں پیچھے رہ جائیں گی۔صنعت یا صنعتی مزدوروں میں سے کسی کا بھی پیچھے
رہ جانا ملکی مفاد میں نہیں ہو سکتا۔ صنعت کار اور گورنمنٹ کے علاوہ ہر فرد
کی بھی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ خود کو اس قابل بنائے کہ وہ اس صنعتی
انقلاب سے بھر پور فائدہ اٹھا سکے۔ انفرادی طور پر کمپیوٹر سے متعلقہ سکلز
خصوصاً پروگرامنگ کی سکلز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوں گی۔
|