اراکین اسمبلی کے استعفوں کی قبولیت کے معیار

پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے ایوان میں واپس جا کر خود کو استعفوں کی تصدیق کے لیے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف قومی اسمبلی کے ترجمان نے استعفوں کی بابت طریقہ کار کی وضاحت کی ہے۔ ترجمان قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ ہر رکن ذاتی حیثیت میں سپیکر کے سامنے پیش ہو کر اپنے استعفے کی تصدیق کرے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی کے طریقہ کار 2007ء کے قواعد کو سامنے رکھ کر سارے معاملے کو نمٹائیں گے۔ عمران خان کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 123 اراکین نے اپنے استعفے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے حوالے کردیئے تھے۔ سپیکر اسد قیصر کے مستعفی ہونے کے بعد ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے استعفے منظو کئے تھے۔ اس سلسلے میں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے 14 اپریل 2022ء کو نوٹیفکیشن جاری کیا۔ پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے اس وقت ڈپٹی سپیکر قاسم سوری پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ پر دبائو ڈالا اور آئینی تقاضے پورے کبے بغیر پی ٹی آئی اراکین کے استعفے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ارسال کئے۔ پی ڈی ایم رہنمائوں کا اعتراض تھا کہ قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس کے رول 43 کے مطابق ہر رکن کو انفرادی طور پر استعفیٰ اور دستخط کی تصدیق کے لئے پہلے سپیکر کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔ وطن عزیز میں آئین‘ قانون اور اسمبلی قواعد کے ساتھ عجیب معاملہ ہو چکا ہے۔ عدالت کسی آئینی معاملے پر فیصلہ کرتی ہے۔ جھگڑا کرنے والے فریقوں کے وکلا ا سے اپنی اپنی جیت بنا کر میڈیا پر پیش کرنے لگتے ہیں۔ سب کے پاس دلائل اور اپنی جیت کا ثبوت ہوتا ہے۔ معاملہ فیصلے کے بعد مزید الجھ جاتا ہے۔ اس ابہام کی فضا کا فائدہ اٹھا کر وہ فریق جو بااختیار اور طاقتور ہوتا ہے دوسرے کو دبانا شروع کردیتا ہے۔یہ زور زبردستی جمہوری اقدار کو منہدم کرتی اور آمرانہ طرز عمل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے قواعد و ضوابط بھی اسی ابہام کا شکار ہو چکے ہیں۔ سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ پر پارلیمنٹ کوئی کردار ادا نہ کرسکی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی اراکین کا ایک چھوٹا سا گروپ منحرف ہو کر بیٹھ گیا۔ اس گروپ کو حزب اختلاف کی حیثیت عطا کردی گئی۔ حالت یہ ہے کہ لیڈر آف دی اپوزیشن اگلے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ دو روز قبل ان کے فرزند فیصل آباد میں مسلم لیگ نواز کی ایک ریلی میں حامیوں سمیت پہنچے۔ ظاہر ہے کہ لیڈر آف اپوزیشن کو کسی سودے بازی کے بعد یہ منصب ملا اور انہیں حزب اختلاف کا کردار سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ورنہ عدالت نیب قوانین میں ترمیم پر جس طرح ناپسندیدگی کا اظہار کرتی آ رہی ہے حزب اختلاف اس پر اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کرواتی۔ بظاہراراکین اسمبلی کے استعفے منظو کرنے کا طریقہ کار جان بوجھ کر الجھایا گیا ہے۔ پی ٹی آئی اراکین کا کہنا ہے کہ استعفوں کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر ملنے والی تنخواہ اور مراعات واپس کردی ہیں۔ دوسری طرف پی ڈی ایم حکومت اور سپیکر قومی اسمبلی کے طرز عمل میں ایک واضح تضاد نظر آتا ہے۔ 29 جولائی 2022ء کو سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے 11اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کر کے ان کی نشستوں کو خالی قرار دے دیا۔ ان میں سے کسی ایک رکن نے بھی سپیکر کے چیمبر میں انفرادی طور پر جا کر اپنے استعفے اور دستخط کی تصدیق نہیں کی۔ سپیکر نے ان اراکین کے استعفے منظور کر کے الیکشن کمیشن کو نوٹیفکیشن بھجوا دیئے۔ سپیکر کی جانب سے جن اراکین کے استعفے منظور کئے گئے ان میں علی محمد خان‘ فضل محمد خان‘ شوکت علی‘ فخر زمان‘ فرخ حبیب‘ اعجاز احمد شاہ‘ جمیل احمد خان‘ محمد اکرم چیمہ‘ عبدالشکور شاد اور مخصوص نشستوں پر کامیاب شیریں مزاری و شاندانہ گلزار شامل تھیں۔ ان مستعفی اراکین کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے گئے۔ عمران خان نے سات نشستوں پر خود الیکشن لڑا اور ان میں سے چھ پر کامیابی حاصل کی۔ پی ٹی آئی کے اراکین کا سپیکر کی جانب سے 123 اراکین کو انفرادی طور پر طلب کرنے پر اعتراض ہے کہ جن 11 اراکین کی نشستوں پر ضمنی انتخاب کرائے گئے ان کے متعلق یہ طریقہ کار کیوں اختیار نہیں کیا گیا۔ جمہوری ادارے ایک ایک کر کے اپنی ساکھ تباہ کر رہے ہیں۔ پہلے سیاسی جماعتوں نے داخلی انتخابات‘ عہدوں پر تقرریوں‘ فنڈز کے غیر شفاف اکائونٹس‘ کارکنوں کی تربیت سے غفلت برت کر اورمنشور کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ بنا کر اپنی ساکھ برباد کی۔ پھر پارلیمنٹ نے عام آدمی کی محرومیوں کو نظر انداز کر کے مفادات و مراعات کا دریا حکمران اشرافیہ کی طرف موڑ دیا۔ اشرافیہ اپنے مفادات کے خلاف کسی قانون کو تسلیم نہیں کرتی۔ اب معاملہ اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ زبردستی کر کے جب چاہا کسی کو رکن رکھ لیا، جب چاہا اسے رکنیت سے محروم کردیا۔ یہ طرز عمل سیاسی ہے نہ جمہوری۔ اگر تحریک انصاف کے اراکین ایوان کا حصہ نہیں رہنا چاہتے تو پھر ان کے استعفے روک کر ملک کو غیر یقینی پن کا شکار کیوں بنایا جارہا ہے؟
 

Kamran Shehzad
About the Author: Kamran Shehzad Read More Articles by Kamran Shehzad: 59 Articles with 28096 views Kamran Shehzad is a notable writer for article writings series who has authored several pieces on diverse topics such as politics, economics, and soci.. View More