3 دسمبر 1971 سے لیکر 17 دسمبر 1971 تک پاکستان ۔ انڈیا
کی جنگ ہوئی ۔ 1971 سے لیکر آج تک 51 سال گزر چکے ہیں اور میرے لئے ہر سال
تین دسمبر سے سترہ دسمبر کا دورانیہ سوگ ، غم اور رنج و الم کا دورانیہ
ہوتا ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ میں مشہور ناول نگار۔ایچ ۔جی ۔ویلزکی" ٹائم مشین" میں سفر
کر رہا ہوں اور ٹائم ٹنل میں ماضی سے گزرتے ہوئے مغربی پاکستان کی سرحد پر
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کے مختلف محاذ وں کے مناظر دیکھ رہا
ہوں۔
1970 اور1971 کے وہ سیاسی حالات جو پاکستان اور انڈیا کی جنگ کا باعث بنے۔
اس سے پہلے دسمبر 1971 کی پاکستان اور ہندوستان کی جنگ کے بارے میں کچھ
حقائق لکھوں میں بہتر سمجھتا ہوں کہ اس وقت کے سیاسی حالات کے بارے میں
روشنی ڈالوں۔ میں اس وقت پاکستان کی آرمی میں کیپٹن کے عہدہ پر ایک آرٹلری
رجمنٹ میں تعینات تھا اور لاہور میں تھا اور اس وقت کے پاکستان کے سیاسی
حالات کے بارے میں بخوبی جانتا تھا ۔
7 دسمبر 1971 کوپاکستان میں قومی اسمبلی کے الیکشن ہوئے۔ 1971 کی قومی
اسمبلی میں کل سیٹوں کی تعداد 313 تھی جنمیں سے 162 سیٹس مشرقی پاکستان کے
شیخ مجیب الرحمان نے حاصل کیں اور ذوالفقار علی بھٹوکی پیپلز پارٹی کو صرف
61 سیٹیں ملیں لہذا پاکستان کی حکومت سازی کا حق صرف شیخ مجیب الرحمان کو
حاصل تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کے صدر جنرل یحیی خان کے ساتھ
ساز باز کی کہ وہ یعنی ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی حکومت سازی کریں ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر میں کہا کہ" ادھر تم اور ادھر ہم".
کئی مہینوں کے انتظار کے بعد فروری 1971 میں اسمبلی کا اجلاس ہونا قرار
پایا لیکن پھر یہ تاریخ منسوخ کردی اور اگلی تاریخ یکم مارچ 1971 مقرر کی
گئی لیکن یہ تاریخ بھی منسوخ ہوگئی اور اگلی تاریخ 25 مارچ 1971 طے پائی
لیکن یہ تاریخ بھی منسوخی کا شکار ہوگئی ۔
سالہا سال سے مغربی پاکستان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کے استحصال کے پس
منظرمیں صدر پاکستان جنرل یحی خان اور بھٹو کی ملی بھگت کَے سبب قومی
اسمبلی کے اجلاس کی تاریخیں بڑھاتے رہنے کی وجہ سے مارچ 1971 سے ہی" مکتی
باہنی" نے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی گوریلا مزاحمتی
جدوجہد شروع کردی تھی ۔
صدرجنرل یحی خان اور بھٹو میں طے ہوگیا تھا کہ کسی بھی صورت میں حکومت سازی
مشرقی پاکستان کے حوالے نہیں کی جائے گی ۔ شیخ مجیب الرحمان کو صدر جنرل
یحی خان کے حکم پر25 مارچ 1971 کے دن گرفتار کر لیا گیا اوریکم اپریل کے دن
میانوالی جیل منتقل کردیا گیا ۔ 26 مارچ 1971 سے مشرقی پاکستان میں "
آپریشن سرچ" شروع کر دیا گیا جسکا اختتام دسمبر 1971 میں " ڈھاکہ فال " پر
ہوا ۔
۔
مغربی پاکستان کی سرحد پر جنگی حالات
3 دسمبر 71 کی رات، پاکستان کی 8 ۔ انفینٹری ڈویژن نے بغیر کسی مشکل کے
"دھرم (بھارتی نام کسووال) انکلیو" کو صاف کر دیا ۔ پاکستان نے اس محاذ کا
نام "آپریشن دجلہ" رکھا ۔
پاکستان 8 ،انفنٹری ڈویژن نے "دھرم (بھارتی نام کسووال) انکلیو" کو بغیر
کسی مشکل کے کلیئر کر دیا۔
5 دسمبر 1971 کی رات انڈیا نے اپنی ٹینک رجمنٹ کے ساتھ جسڑپل پر حملہ کردیا
میں کیپٹن صغیراحمد اس رات جسڑپل پر موجود تھا میں نے جسڑ پل کے اس دہانے
پر جہاں سے انڈین ٹینک ایڈوانس کر رہے تھے ان پر اپنی 121 آرٹلری بیٹری سے
درست اور مرتکز آرٹلری فائر گرایا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ انڈیا کے 2 ٹینک
تباہ ہوگئے جس سے جسڑ پل کا وہ کنارہ بند ہوگیا اور دشمن کے ٹینکوں کی پیش
قدمی روک دی گئی ۔انڈین جسڑ پل پر قبضہ کرنے اور آگے بڑھنے میں ناکام رہے .
اس کے لئَے درج ذیل لنک کو دیکھیں؛
https://youtu.be/NsCo8JjLWEo
جسڑ پل پر میری کیپٹن صغیر کی بہادری کی کارکردگی کا علم جب برگیڈیرایف ۔
بی ۔ علی 06 آرمڈ ڈویژن آرٹلری کمانڈر کو ہوا تو وہ میری آرٹلری یونٹ
کمانڈر لیفٹینینٹ کرنل نذیر احمد کے ساتھ جسڑ پل پر آئے اور انڈیا کے تباہ
شدہ ٹینکوں کو دیکھا اور میری زبانی پوری کاروائی سنی اورکرنل نذیر کو کہا
کہ کیپٹن صغیر کے لئے " تمغہ جرآت " کی سائٹیشن" ڈویژن ہیڈ کوارٹر بھجوائیں
۔
شکرگڑھ کا محاذ
پاکستان کے شکرگڑھ کے کچھ علاقے پر انڈین فوج کا قبضہ ہوچکا تھا۔
ادھر مغربی پاکستان کی سرحد پر مختلف محاذوں پر یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو
دوسری طرف مشرق پاکستان کے مختلف محاذوں پر پاکستان کی فوج مسلسل ناکام ہو
رہی تھی ۔ انڈین فوج بمع " مکتی باہنی " مشرقی پاکستان کے کئی شہروں پر
قابض ہو چکی تھی اور مشرقی پاکستان کے دارالحکومت " ڈھاکہ " کی جانب تیزی
سے پیش قدمی جاری تھی۔
اورپھر
17 دسمبر 1971 کی شام 7 بجے دجمنٹ ہیڈ کوارٹر سے آرڈر وصول ہوئے کہ پاکستان
کی فوج نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈال دیئے ہیں اس لیئے پاکستان کی فوج
مغربی پاکستان کے محاذ پر سیز فائر / جنگ بندی کر رہی ہے ۔ رجمنٹ ہیڈ
کوارٹر سے یہ احکامات سن کر میں اور میری 121 بیٹری کے بہادرجوان زار و
قطار رو رہے تھے ۔
ہمارے سر شرم سے جھکے ہوئے تھے کہ ہم اپنی قوم کو کیا منہ دکھائیں گے ۔
کیونکہ قوم نے اپنے ایمان کی طرح یقین رکھا تھا کہ پاکستان کی فوج ریاست
پاکستان کی ہر قیمت پر حفاظت کرے گی لیکن ہم نے ان کے بھروسے کو توڑ دیا
تھا ۔
18 دسمبر1971 کے دن برگیڈیرایفایف۔ بی ۔ علی 6 آرمڈ ڈویژن آرٹلری کمانڈر نے
جی۔ او ۔ سی 6 آرمڈ ڈویژن کو گرفتار کر لیا اور 6 آرمڈ ڈویژن کی کمانڈ
سنبھال لی ۔ 19 دسمبر کو برگیڈیرایف ۔ بی ۔علی نے شکرگڑھ سیکٹر میں لڑنے
والی یونٹ کے آفیسرز کو ڈویژن ہیڈ کوارٹر میں بلوایا اور ان سے خطاب کرتے
ہوئے جو تاریخی الفاظ کہے وہ مجھے آج تک یاد ہیں ۔ جو درج ذیل ہیں؛
‘’Gentlemen , this defat is not your fault but the fault of this rank
and above (He raise his hand and pointed to his rank on his shoulder
).We cannot face the Pakistani Nation for this defeat so we shall not go
back and shall fight here in Shakargarh till our graves are made here
.All those who wish to go back , may do so’’
لیکن کوئی بھی آفیسر میٹنگ چھوڑ کر نہیں گیا اور ان میں ایک میں کیپٹن صغیر
بھی تھا ۔ تب برگیڈیرایف ۔ بی ۔ علی نے کہا " او۔ کے آپ لوگوں کو شکر گڑھ
میں پیش قدمی کے احکامات مل جائیں گے اور ہم 21 دسمبر 1971کے دن شکرگڑھ
سیکٹر میں ایڈوانس کریں گے اور جب میدان جنگ میں یہ سب کچھ ہو رہا تو
دارالحکومت اسلام آباد میں صدر پاکستان جنرل یحیی خان اور ذالفقارعلی بھٹو
کے درمیان باقی ماندہ پاکستان میں حکومت سازی کے لیئے جوڑ توڑ ہورہی تھی ۔
20 دسمبر 1971 کے دن برگیڈیرایف ۔ بی ۔ علی کو جی ۔ ایچ۔ کیوراولپنڈیبلوایا
گیا جہاں پر انہیں گرفتار کرلیا گیا اور انہیں اٹک جیل بھیج دیا گیا اور
یوں 21 دسمبر 1971 کے دن شکرگڑھ سیکٹر میں پیش قدمی منصوبہ ہمیشہ کے لیئے
ختم ہو گیا ۔
نتیجہ ۔۔ پاکستان ٹوٹ گیا
* سقوط پاکستان کے نتیجہ میں پاکستان کے 70 ہزار فوجی اور 20 ہزار سویلین
ہندوستان کے قیدی بن گئے۔
* 16دسمبر1971ء کا دن ہی تھا ، وقت تھا تین بجے اور چار بجے کا جب بھارتی
جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا نے اعلان کیا " اے مغربی پاکستان کے لوگو! جو مشرقی
بازو میں قیام پذیر ہو ‘ نہ گھبراؤ۔ اب تمھاری حفاظت پاکستانی جنرل
عبداللہ نیازی نہیں بلکہ بھارتی جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا کریں گے ۔ ۔
یا اللہ ۔ امان ملی بھی تو کہاں ملی -
* 16 دسمبر 1971ء کے معاہدہ جنگ بندی کے الفاظ (ہتھیار ڈالنے کے معاہدہ کے
الفاظ) کچھ اس طرح تھے : " لیفٹیننٹ جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا تصدیق کرتے ہیں
کہ ہتھیار ڈالنے والوں کے ساتھ جنیوا معاہدہ کے تحت عزت دارانہ سلوک کیا
جائے گا اور وہ تمام لوگ جو مغربی پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں انھیں جنرل جگ
جیت سنگھ اروڑا کے تحت محافظت دی جائے گی"
10 جنوری 1972 مجیب الرحمان کو رہا کردیا گیا اورانہیں بنگلہ دیش [ مشرقی
پاکستان ] بھیج دیا گیا ۔ اور یہ اختتام تھا قائد اعظم کے پاکستان کا ۔
* انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک اکثریت ، اقلیت سے الگ ہوگئی مشرقی
پاکستان کے وہ لوگ جوپاکستان بنانے کے لیئے پیش پیش تھے یہاں تک کہ مسلم
لیگ کی بنیاد بھی مشرقی پاکستان میں رکھی گئی تھی اور اب انہوں نے نیا ملک
بنگلہ دیش بنا لیا ۔ مشرقی پاکستان کے بنگالی اگر ریفرینڈم میں پاکستان
بنانے کے حق میں ووٹ نہیں ڈالتے تو پاکستان کبھی نہیں بنتا ۔ لیکن آج مغربی
پاکستان کے اس خطہ کے لوگوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کسی پاکستانی کو
ذرہ بھرافسوس نہیں ہے کہ پاکستان کے جسم کا ایک حصہ ہم سے کٹ گیا۔ یہ بھی
ذہن میر رکھتے ہوئے کہ بنگالیوں کے ووٹوں کی اکثریت سے آج ہم اس موجودہ
پاکستان میں ہیں ۔
مشرقی پاکستان کو جب بنگلہ دیش نام دیا گیا توعوامی لیگ کی مربی اندرا
گاندھی ڈھاکہ آئیں اور اعلان کیا کہ ’’ ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال
میں ڈبو دیا"
یروشلم میں "دیوار گریہ " 70 سترویں عیسوی سال میں رومیوں نے یروشلم پر
حملہ کردیا اور ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کو ایک دن میں قتل کردیا اور یروشلم سے
تمام یہودیوں کو نکال دیا جو پوری دنیا میں بکھرگئَے رومیوں نے حضرت سلیمان
کی بنائی ہوئی عبادت گاہ جو " ہیکل سلیمانی" کہلاتی تھی کو مکمل مسمار
کردیا البتہ اسکی صرف ایک دیوار کسی طرح مسمار ہونے سے بچ گئی تھی جو اب تک
قائم ہے ۔ ۔70 سترویں عیسوی سال سے جو بھی یہودی یروشلم آتا تھا وہ دیوار
گریہ کے سامنے سرجھکا کر قسم اٹھاتا تھا کہ ایک دن وہ یعنی یہودی واپس اس
سرزمین پر آئیں گے اور اسکے لیئے ہر یہودی اپنی پوری کوشش کرے گا اور پھر
یہودیوں نے 1947 کے اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے کے تحت،یہودیوں کے لئیے
55 فیصد زمین یہودیوں کے لئیے مختص کرالی ، جس میں فلسطینی عرب اکثریت والے
بہت سے اہم شہروں "حیفہ " سے " جفا " تک اہم ساحلی پٹی شامل تھی اور اسطرح
1877 سالوں کے بعد جس سرزمین سے نکالے گئیَے تھے واپس آگئے لیکن ہم مغربی
پاکستان کے سیاستدان اور عوام کسی دیوار گریہ کے سامنے زار و قطار رو کر
حلف نہین اٹھاتے کہ ہم خلیج بجگال سے نظریہ پاکستان کو نکال کر واپس لائیں
گے ۔ ہمارے لیئے دیوار گریہ قائداعظم کا مزار ہے ۔ ہماری قوم نے سقوط مشرقی
پاکستان کے دن سے لیکر آج تک احتساب نہیں کیا کہ وہ کیا وجوہات تھیں جو
سقوط مشرقی پاکستان کا سبب بنی ۔
کیا ہم بنگلہ دیش کے عوام سے مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے جو استحصال
کیا تھا اور پاکستان آرمی نے 26 مارچ 1971 سے دسمبر1971 تک مشرقی پاکستان
میں " آپریشن سرچ" کے دورانیہ میں جن بے گناہ بنگالیوں کا قتل ہوا کی معافی
نہیں مانگ سکتے لیکن دوسری جانب ایسٹ بنگال رجمنٹ اور" مکتی باہنی" کے
ہاتھوں سینکڑوں مغربی پاکستان کے شہریوں کا قتل بھی مطالبہ کرتا ہے کہ
بنگلہ دیش بھی پاکستان سے معافی مانگے ۔
*جانے وہ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو قوم اپنی تاریخ بھلا دیتی ہے تو
تاریخ بھی انھیں بھلا دیتی ہے یہ لوگ سچ کہتے ہیں ۔
*آخری لیکن کم سے کم نہیں۔ 16 دسمبر 1971 ، یوم سقوط مشرقی پاکستان کئی سبق
دے رہا ہے - شرط ہے کہ ہم سبق حاصل کر نے والے بنیں اور ہم سبق حاصل کرنے
والے نہیں بنے اور نہ ہی بن نا چاہتے ہیں ۔ افسوس صد افسوس |