پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل چکا ہے جو خوش
آئند ہے لیکن ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے اخراج کیلئے گزشتہ ساڑھے 3
برسوں سے کوششیں جاری تھیں، اس کیلئے کوئی ایک جماعت اکیلی اس کا کریڈٹ
نہیں لے سکتی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا آغاز ساڑھے 3 برس پہلے ہوا
تھا اور اس حوالے سے ایک خصوصی سیل بھی قائم کیا گیا تھا لیکن اس کا کریڈیٹ
لینے کا کسی ایک پارٹی کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے موجودہ حالات کے تناظر میں مختلف ممالک کے
دوروں کے ثمرات کو دیکھنا ضروری ہےکیونکہ غیر ملکی دوروں کے وعدوں اور
دعوؤں کے بارے میں تو سننے میں آرہا ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی
عملی پیشرفت سامنے نہیں آسکی جس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ دورے نشستاً،
گفتاً ، برخاستاًسے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
ملکی حالات پر نظر ڈالیں تو ہمیں اقوام عالم سے فوری طور پرایسے مراسم
بڑھانے کی ضرورت ہے کہ ہمیں فی الفور مدد مل سکے کہ ہمارے 6 بلین ڈالر کے
ذخائر کو سہارا مل سکے کیونکہ اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس موجود 6 بلین ڈالر
اور عوام کے 5 اعشاریہ 8 بلین ڈالر ایک ماہ میں سے زیادہ نہیں چل سکتے۔
پاکستان اس وقت وعدوں سے ہی چل رہا ہے، حکومت کے پاس صرف عوام کے 5 اعشاریہ
8 بلین ڈالر استعمال کرنے کا اختیار ہے لیکن جب تک دنیا سے ڈالرز نہیں
آئینگے ملک کا نظام چلانا ناممکن ہوجائیگا۔
ہماری ریٹنگ ٹرپل سی ہوچکی ہے، یعنی ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں،
ان حالات میں کوئی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے نہیں آئیگا، کوئی
ملک پاکستان کو کم شرح سوداور آسان شرائط پر قرض نہیں دے گا، مہنگائی کو
روکنا کسی صورت ممکن نہیں رہے گا۔ ان تمام حالات میں سیاسی عدم استحکام اور
کھینچا تانی کا ماحول میں عوام بے گناہی میں پستے نظر آرہے ہیں اور صرف
آس اور امید پر ہی زندہ ہیں۔
عوام کی حالت زار کچھ یوں ہے :
ناکردہ گناہی کی ہمیں داد ملے گی
ہم لوگ خطاوار ہمیشہ نہ رہیں گے
رستے زخموں کی زباں بول رہی ہے
یہ درد یہ آزار ہمیشہ نہ رہیں گے
ملک کے تمام مسائل، عدم استحکام اور تذبذب کا حل صرف الیکشن ہے، ملک میں
الیکشن ہوجائے تو افراتفری ختم ہوجائے گی، اقوام عالم کا اعتماد بحال ہوگا،
بیرونی سرمایہ کار نئی حکومت آنے کے بعد سرمایہ کاری کرنے کیلئے آمادہ
ہوجائینگے کیونکہ اس وقت تو حالات یہ ہیں کہ بیرون ممالک میں مقیم ہمارے
اپنے لوگ بھی ملک میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
معاشی صورتحال کی ابتری اگر اسی طرح جاری رہے گی تو نہ سیاست رہے گی اور نہ
ہی ریاست مضبوط رہے گی، یہ پوری دنیا کو معلوم ہے، ہماری نیشنل سیکورٹی کا
سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے، یہ حقیقت ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا عفریت
دوبارہ سر اٹھارہا ہے لیکن نمبر ون مسئلہ معیشت ہے۔
جب ریاست اور سیاست آمنے سامنے ہونگے تو ریاستی اداروں کیلئے اپنا کردار
ادا کرنا مجبوری ہوگی، جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے الیکشن کروانا
بہت ضروری ہے۔
پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کے بعد ضمنی الیکشن
کروانا ملک کی بدترین معاشی حالت میں قطعی ناممکن ہے، اس وقت حالات اس نہج
پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کے پاس ملازمین کو تنخواہیں دینے کے بھی پیسے
نہیں ہیں۔
آرٹیکل 234 کے نفاذ کی صدائیں بھی سنائی دے رہی ہیں ، یہ آرٹیکل ایمرجنسی
کی صورت میں لگایا جاتا ہے، ساتھ میں معاشی ایمرجنسی کیلئے آرٹیکل 235 بھی
لگایا جاسکتا ہے جس کے تحت پارلیمنٹ کی مدت میں ایک سال کا اضافہ اور
الیکشن مزید ایک سال تک ملتوی کیا جاسکتا ہے۔
الیکشن سے حائف لوگوں کو یہ اندازہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنی مقبولیت کی بلندی
پر ہے اس لئے مخالفین کسی صورت الیکشن کے میدان میں مقابلہ کرنے کو تیار
نہیں ہیں کیونکہ جس پہلوان کو اپنے زور بازو پر بھروسہ ہوتا ہے وہ بغیر کسی
خوف کے اکھاڑے میں اتر جاتا ہے ۔
ملک کے معروضاتی اور ماحولیاتی حالات کے تحت دیکھا جائے تو صرف سیاسی
بیانات ہی باقی ہیں، پی ڈی ایم الیکشن کا التواء چاہتی ہے اور حکومتی اتحاد
ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
جہاں تک سوال اعتماد کے ووٹ کا ہے تو ماضی میں بھی نوٹوں کی ریل پیل کی وجہ
سے صورتحال پیچیدہ ہوتی رہی تاہم ابھی ایسا ہونا مشکل دکھا دیتا ہے اور
تذبذب اور سیاسی کشیدگی کا معاملہ مستقبل قریب میں آسانی سے حل ہوتا نظر
نہیں آرہا۔ غور طلب بات تو یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سب کچھ ہاتھ سے
ریت کی طرح نکل جائے اور سب ہاتھ ملتے رہ جائیں
|