قائد کا پاکستان اور آج کا پاکستان

محترم قارئین ہر بار اپنے محسن بابائے قوم جیسی ہستی کی یاد میں ان کے فرمودات اور انکے عظیم کارناموں پر لکھتے ہیں مگر اس بار سیاسی راہ کشی ایسی ہے کہ یہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان لگ ہی نہیں رہا جس ملک کو لاالہ الااﷲ کی بنیاد پر بنایا تھا جو اسلام کا قلعہ تھا اس پر دشمنوں سے زیادہ اپنے وار پر وار کررہے ہیں ان 75برسوں میں ایک بھی وزیراعظم ایسا نہیں جس نے اپنی مدت پوری کی ہو اس سے بڑھ کر دنیا میں کیا رسوائی ہوسکتی ہے رواں سال کی بات کریں تو وزیراعظم کی چھٹی ہوئی پھر پنجاب کے وزیراعلی کوبھی گھر بھیجا گیا پھر حمزہ شہباز آئے تو کچھ دن کے بعد انہیں بھی گھر بھیج دیا گیا پھر ووٹنگ تک بحالی ملی مگر ووٹنگ کے بعد پرویز الہی وزیراعلی بن کے آئے مگر کچھ ماہ کے بعد اب گورنر نے اسے ڈی نوٹی فائی کردیا تو ہائی کورٹ نے فیصلہ سنا کے پھر وزیراعلی بنا دیا اب کئی دنوں سے یہی نیوز چینلز اور اخبارات کی زینت بن رہی ہیں جس سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ کتنا ہے غریب کیسی زندگی گزار رہاہے بجلی گیس کے بل تو دھڑا دھڑ آرہے ہیں کیا گیس اور بجلی کی سہولیات میسر بھی ہیں قائد اعظم جیسی ہستیاں روز روز نہیں پیدا ہوتیں مگر وہ پیدا ہو کر کسے تاریخ دن ماہ و سال کو بھی قیمتی بنا دیتی ہیں جیسے دسمبر کی 25 تاریخ کو ہم محسن پاکستان بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ دھوم دھام سے مناتے ہیں۔پاکستان بھر میں کے شہر و گاؤں میں سرکاری سطح پر بڑی بڑی تقریبات میں مختلف سیاسی، سماجی،غیر سرکاری تنظیموں اور ٹی وی چینلز کی جانب سے پروگرامزکا انعقاد کیا جاتا ہے۔جہاں الیکٹرانک میڈیا سیاسی سماجی ق مزہبی رہنماؤں کے بیانات چلاتے ہیں تو اخبارات بھی کلر ایڈیشن شائع کرکے اپنے محسن کو خراج عقیدت پیش کرتیہیں۔ دوستو اس تمہیں کے بعد آتے ہیں اپنے عنوان کی طرف کہ قائداعظمؒ نے ہمیں کیسا پاکستان دیا تھا اور آج کے پاکستان پر نظر دوڑائیں تو واضع فرق نظر آئے گا جیسے قائداعظم کا پاکستان جس میں بچے ہنسی خوشی سکول پڑھنے جاتے ہیں وطن عزیز کا مستقبل بننے کیلئے پڑھائی کرکے واپس آجاتے ہیں مگر آج کے پاکستان میں وہی پھول دہشت گردی کی نظر ہوجاتے ہیں یا والدین سکول کے بجائے کسی کام پر بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ گھر میں ماں باپ کے ساتھ تین چار بچے بھی ہوتے ہیں جن کی کفالت بہت مشکل ہے ان کیلئے شام کو دودھ سبزی،آٹا لانے کی ٹھانی ہوتی ہے مگر ایک دیہاڑی دار مزدور کایاتو کام نہیں لگتا جس سے فاقہ کشی کا موسم چل رہا ہوتا ہے یاپھر وہ شام کو واپس نہیں آتا پتا چلتا ہے وہ ہی غریب باپ اس دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہوتا ہے اس کے لوتھڑوں کو شاپر میں ڈال کر لاش کی صورت میں گھر بھیج دیا جاتا ہے جس گھر میں بھوک سے نڈھال بچے اپنے باپ کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں مگر ان بچوں کو کیا پتا ہمارے سیاستدان اپنی کرسی کیننگ میں لگے ہیں کسی کے مرنے جینے کی انہیں بلکل پرواہ نہیں صرف یوم قائد پر تقریبات میں جانا بھاشن جھاڑنا فوٹو سیشن کرانا اس کے بعد جیسے ہی25 دسمبر کا دن ختم ہوتا ہے سب اپنی روٹین میں واپس آجاتے ہیں اور پھر قائداعظم کے فرمودات کو پس پشت ڈال کر اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں۔ ریاست پاکستان کوجب آزادی ملی تب آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھی۔ یقین مانیں کہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا راز انکے عوام،سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے ملکی ترقی میں سب کاایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔ہمیں قائداعظم کے بنائے ہوئے پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست بنانا ہوگا۔اگرہم کہیں ساری ذمہ داری سیاستدانوں کی ہے توہم اپنے قائد کی امانت کے ساتھ خیانت کررہے ہیں کیونکہ یہ ہم سب کا پاکستان ہے اور ہمیں اس کی حفاظت کیلئے جان کی بازی سے بھی گریز نہیں کرنی چاہیے تاکہ آخت کے روز قائد اعظم محمد علی جناح ہمیں دیکھ کر چہرے پر مسکان سجالیں۔
 

Rukhsana Asad
About the Author: Rukhsana Asad Read More Articles by Rukhsana Asad: 47 Articles with 25155 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.