ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات پر مسلم قیادت کی تشویش
حق بجانب ہے کیونکہ فی الحال حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں مسلمان سخت
آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں اور وطنکی حالت انتہائی تشویشناک
ہےاورموجودہ حالات کو بیان کیا جائےتوانسان ہی نہیں بلکہ فرشتے بھی جذباتی
ہوجائیں گے۔ان خیالات کااظہارمشہورصنعت کار اور آسام سے آل انڈیایونائٹیڈ
ڈیموکریٹک فرنٹ ( اے یوڈی ایف)کے صدر ممبرپارلیمنٹ بدرالدین اجمل نے کیا۔
ملک میں اقلیتی فرقے کی جوحالت ان کے بیان میں جھلک رہی ہے۔ ہم سب اس سے
متفق ہیں۔کیونکہ سب سے زیادہ مسلمانوں کی حالت سب سے زیادہ خستہ ہے،اس پُر
آشوب دور میں ہر قدم کو پُھونک پھونک کر اٹھانا پڑرہا ہے، بلکہ مسلمان سخت
آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں۔ان کا جسم چھلنی چھلنی ہوچکاہے اور اس کا پتہ
لگا نا مشکل ہے کہ کہاں کتنی گہری چوٹ لگی ہے۔
ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم ترقی کے اس دور میں برادران وطن سے
بہت پیچھے ہیں۔تعلیمی میدان میں پچھڑ جا نے کی وجہ سے ہم بہت پیچھے رہ گئے
اور وقت کافی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور ہمیں اگر بہتر مستقبل کے بارے میں
کچھ کرنا ہے تو بس علم کے زیور سے خود کو آراستہ کرنے کے لیے ہمیں جدوجہد
کرناہوگااور اس رسی کو مضبوطی سے پکڑ لینا چاہئیے ۔ہماری کچی بستیوں اور
جھوپڑپٹیوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے اور ہمارے نوجوان منشیات کے عادی
ہوتے جارہے ہیں اور بے راہ راوی کے شکار ہوچکے ہیں اورحیرت انگیز طورسے اس
طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔جومسلمان پہلے آسمان اور ستاروں کی باتیں
کرتے تھے،لیکن آج برُ ے دور سے گزر ہیں ،ہماری پسماندہ بستیوں میں تعلیم
نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ڈراپ آؤٹ کا فیصد تیزی سے بڑھ رہا ہے،اس لیے بہتر
مستقبل کے لیے ہمیں ایک جامع وٹھوس منصوبہ سازی کرنا ہوگا،لیکن پہل کون کرے
گا۔
ممبئی میں جوکہ ملک کا تجارتی شہر ہے اور مسلمانوں کی آزادی سے قبل اور بعد
میں بھی مسلمانوں کے کی مختلف تحریکوں کا مرکز رہا ہے ،بلکہ تحریکیں کامیاب
بھی رہی ہیں۔حال ایسوسی ایشن آف مسلم پروفیشنل اے ایم پی کے پندرہ سال مکمل
ہونے پر ہونے والی ایک کُل ہند کانفرنس میں اس بات کا احساس ہوا کہ ملک میں
مسلمان تعلیم کی دوڑ میں بُری طرح پچھڑ چکے ہیں ،لیکن یہ بھی خوش آئند بات
ہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں تعلیمی دوڑ میں شامل بھی ہوگئے ہیں اور اُمید
ظاہر کی گئی ہے کہ مستقبل میں بہتر نتائج سامنے آئیں گے ۔
یہ عام خیال ہے کہ مسلمانوں کو موجودہ حالات میں جامع وٹھوس منصوبے کو
اختیار کرنا چاہئیے اور لیڈرشپ کو مشورے دینے کے بجائے ،میدان عمل میں
اترنا ہوگا،البتہ معاشرے میں بُری طرح سے پنپ رہی غیرضروری اورخرافات سے
بھری رسموں کو ختم کردیناہوگا،خصوصی طورپرشادی بیاہ کی رسومات و اخراجات کو
کم کرنے کا مشورہ دیتے دیتے عمائدین تھک گئے ہیں ، سادگی سے ان کی ادائیگی
کرنے کی اپیلیں رائیگاں جارہی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ مذہبی تقریبات اور
بزرگان دین کے مزارات پر عرس وصندل پر ہونے والے اخراجات اور خرافات کسی سے
چھپی نہیں ہیں ۔ان رقوم کی بچت ان کے لیے بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے
سودمند ثابت ہوگی ۔
یہاں تک سب ٹھیک ہے ،لیکن مسلم محلے وبستیوں کے جو حالات ابتداء میں بیان
کیے گئے ہیں،وہ حقیقت ہے، حال میں ملک میں کویڈکے اثرات کم ہونے کے بعد
حالات معمول پر آرہے ہیں۔پہلے ذکر کرتے ہیں ایک پُر مسرت بات یہ ہوئی ہے کہ
دہلی ہائی کورٹ نے تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین بنگلہ والی مسجدمیں
عوام کے داخلے پر پابندی کو جاری رکھنے کے لیے دہلی پولیس کی دلیل کو خراج
کرتے ہوئے پھٹکار لگائی اور مرکز کی کنجیاں مولانا سعد کے حوالے کرنے کا
حکم دیا۔ عدالت نے امسال مارچ میں رمضان کے مہینے میں مسجد کی پانچ منزلوں
پر نماز ادا کرنے کی اجازت دی تھی۔ اور اس کے بعد ہائی کورٹ نے مارچ 2020
کے بعد مئی میں پہلی بار مسجد انتظامیہ کو رمضان کے مہینے کے بعد عوام کو
داخلے کی اجازت دینے کی اجازت دی تھی۔ تاہم، منسلک مدرسہ اور ہاسٹل میں
عوام کا داخلہ ممنوع ہے۔
دراصل مارچ 2020 میں تبلیغی جماعت پر کوویڈ پھیلانے کا الزام عائد کرتے
پابندیاں عائد کی گئی ۔عدالت نے پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کیا (چابیاں)
آپ کے قبضے میں ہیں، آپ نے کس حیثیت سے قبضہ کیا ہے! ایف آئی آر وبائی
امراض ایکٹ کے تحت درج کی گئی تھی، جو اب ختم ہو چکی ہے۔ عدالت نے پولیس سے
کہا کہ آپ چابیاں دیں گے اور جو بھی شرائط ہوں گی وہ عائد کریں گے۔
مذکورہ فیصلےکے بعدہی نہیں بلکہ پہلے ہی ملک میں تبلیغی اجتماعات کا جیسے
دور شروع ہوگیا ،تاج المساجد ،مالیگاوں،ناندیڑ،اورنگ آباد اور دیگر ریاستوں
اور شہروں میں اجتماعات منعقد ہوئے اور جماعتوں بھی اپنے مقصد کے لیے روانہ
ہوگئی،جبکہ ممبئی کے تاریخی آزاد میدان اور مہاراشٹر کے مختلف شہروں سنی
دعوت اسلامی کا اجتماع بھی ہوا اور لاکھوں فرزندان توحید نے شرکت کی ،لیکن
جو بات میں یہاں کہنا چاہتا ہوں ،وہ یہ ہے کہ ان جماعتوں اور تنظیموں کا
ہمارے محلوں اور گلیوں کے نوجوانوں پر اثر کیوں نہیں دکھتا ہے جوکہ منشیات
کے عادی ہونے کے ساتھ ساتھ علی الصبح تک موبائل کے دیوانے بنے رہتے
ہیں۔جوکہ معاشرے پر بُرا حال کیے ہوئے ہے۔جبکہ دین ودنیا کو برباد کرنے میں
کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔اس معاملے میں کسی نے بھی عملی اقدام نہیں کیا
ہے۔ سب ہی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہے۔ان حالات میں
ملک کی مسلم قائدین کی بے ہمتی اور بے عملی مکمل طور پر سامنے آگئی ہے۔اب
بھی وقت ہے کہ مسلم قیادت کو نہ صرف اپنی کاہلی اور بے عملی کی چادر سے
باہر آنا ہوگا۔چاہئے ،موجودہ حالات کا حقیقی تجزیہ کرکے ایک صحیح موقف
اختیار کرنا چاہیے اور قرآن و سنّت کی رہنمائی میں رہبری کرنا چاہیے اور اس
کے ساتھ ہی جمہوریت اور دستور دونوں کے ذریعے اپنے وجود کو منوانے اور اپنے
مفادات پر اصرار کرنے کے لئے احتجاج کا اور ظلم و ناانصافی کے خلاف مزاحمت
کا حق استعمال کیا جائے۔اس مقصد کے لیے برادران وطن کی تنظیموں اور سیکولر
گروپوں کو بھی ساتھ لیا جائے۔لیکن سب سے پہلے اپنے محلوں اور بستیوں کے
نوجوانوں کو تعلیمی ،دینی اور سماجی میدانوں میں آگے لانے اور بیدار کرنے
کے لیے منصوبہ سازی کی جائیں گے۔ |