فرمانِ قرآنی ہے:’’اے ایمان والو ! رکوع اور سجدہ اور
اپنے رب کی بندگی کرتے رہو اور بھلائی کے کام کرو تاکہ فلاح پاؤ‘‘۔اہل
ایمان کو سب سے پہلے نماز کا حکم دینے کے بعد عبادت تلقین کی گئی یعنی
زندگی کے تما م شعبوں میں خداکی بندگی اور اطاعت کی جائے۔ اس کے بعد ان
نیکیوں اور بھلائیوں کی ترغیب دی گئی جو زندگی کے سنوارتے ہیں ۔ دنیا
وآخرت کی کامیابی کے لیے اس ترتیب کے ساتھ اعمال کا اہتمام کرنا لازم ہے۔
اس کے بعد والی آیت میں فرمایا : ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد
کرنے کا حق ہے۰۰۰‘‘۔ یعنی مذکورہ بالا میں پیش آنے والی داخلی و خارجی
مزاحمت کامقابلہ کرنے کے لیے جہاد ناگزیر ہے۔ جہاد کے معنیٰ چونکہ انتہائی
جدوجہد ،کوشش اور کشمکش ہوتا ہے اس لیے یہ جنگ و جدال کے علاوہ دیگر معنیٰ
میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔قدیم فقہا نے جہاد با النفس، جہاد بالعمل،
اورجہاد بالعلم کا ذکر کیا ہے کیونکہ حق کےراستے میں طاغوت اور نفس سے لڑنا
پڑتا ہے۔
قرآن حکیم میں خالص جنگ کے لیے قتال کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی
بھی تین قسمیں بیان ہوئی ہیں ۔ ارشاد ِ قرآنی ہے:’’ جن لوگوں نے ایمان کا
راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا
راستہ اختیار کیا ہے، و ہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں
سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں‘‘۔ یہاں
لفظ قتال دومخالف فریقوں کے لیے استعمال ہوا ہے اور ایک تیسرا مفہوم باہمی
تنازع کا بھی ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے:’’ اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ
آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ
دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ
کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح
کرا دو اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔یہ چار
آیات جہادو قتال کے فرق کو واضح کردیتی ہیں ۔
قرآن کریم کے اندرجن 29 آیات میں ’’جہاد‘‘سے متعلق الفاظ آئے ہیں ان میں
چار مکی دور کی ہیں جبکہ مسلمانوں کو قتال کی اجازت نہیں تھی۔ ہجرت حبشہ سے
قبل یہ آیت نازل ہوئی:’’جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کررہے ہیں، ہم ان پر
اپنی راہیں ضرور کھولیں گے۔ بے شک، اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے‘‘۔ اس
سخت آزمائش کے زمانے میں عصرِ حاضر کی طرح اہل ایمان پر زمین تنگ کی جارہی
تھی ۔ ایسے میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بجائے اللہ کی راہ میں جہاد
کرنے والوں کو وقت کےبدلنے اور راہوں کے کھلنے کا دلاسہ گیا کیونکہ اللہ
تعالیٰ نیکو کارمجاہدین کو بے یارومددگار نہیں چھوڑتابلکہ ان کے ساتھ رہتا
ہے۔ رب کائنات کی معیت کے حوصلہ افزاء احساس کا اظہار مولانا محمد علی جوہر
نے اس طرح کیا ہے کہ؎
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
عصرِ حاضر میں جہاد کی اصطلاح کازیادہ استعمال اہل ایمان کے بجائے دشمنانِ
اسلام کی جانب سے ہوتا ہے۔ وہ اسے برے معنیٰ سے منسوب کرکے اس کی روک تھام
کے قانون سازی کی دھمکی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب فریب دہی کے ذریعہ ورغلا
کرکسی کو مسلمان بنانے اورشادی کرنے کا لیا جاتا ہے حالانکہ دین اسلام میں
دھوکہ دھڑی ممنوع ہے۔ مسلمان تو کھلے عام اسلام کی دعوت پیش کرتے ہیں اور
دین کے معاملے کوئی زور زبردستی نہیں کرتے۔ اسلام کے حلقہ بگوش ہونے والے
ہمیشہ اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کے
راستے میں جہاد کرنا اپنے اوپر لازم کرلو اس لیے کہ یہ جنت کے دروازوں میں
سے ایک دروازہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے رنج و غم دور کردیتا ہے
‘‘۔ اہل ایمان کو مایوسی اور اضمحلال کی کیفیت سے نکالنے والی شئے جہاد فی
سبیل اللہ ہی ہے۔
اس حدیث میں دوسروں نےان الفاظ زیادہ کیے ہیں کہ:’’ اور اللہ کے راستے میں
قریب و بعید سے جہاد کرو اور اللہ کی حدود کو قریب و بعید قائم کرو اور
اللہ کے دین میں تمہیں ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرنا چاہیے‘‘۔
یعنی جہاد کا مقصد حدود اللہ کا قیام ہے نیز اللہ کے محبوب بندےراہِ خدا
میں جہاد کرتے ہوئے کسی ملامت یا قانون سازی سے نہیں ڈرتے ۔ اس دور ِپرفتن
میں محض یہ بتانے کے بجائےکہ ’لوجہاد اسلام ‘ نہیں ہے، جہاد کا اصلی مطلب
بتاناہوگا؟ ارشادِ ربانی ہے:’’ اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک
ڈرانے(خبردارکرنے) والا بھیج دیتے، تو تم کافروں کا کہا نہ مانو اور ان سے
اس قرآن کے حکم کے مطابق بڑے شدومد سے(بڑا) جہاد کرو‘‘۔ جہاد کبیر کا مطلب
سمجھنا ، سمجھانا اور اس کا حق اداکرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
|