یکساں سیول کوڈ کا سیاسی اور سماجی تناظر

مودی یگ میں سنگھ پریوار نے ایک ایک کرکے یکساں سیول کو ڈ کے علاوہ اپنے ترکش میں موجود سارے تیر استعمال کرلیے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوام کو رام مندر یا کشمیر کی دفع ۳۵۶ میں کوئی دلچسپی نہیں بچی ہے۔ اب وہ چاہتی ہے کہ آئندہ انتخاب سے قبل اسے بھی چلاکر بے کار کردیا جائے۔ یکساں سول کوڈ سے سارے پرسنل لا کو خطرہ لاحق ہے لیکن چونکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے دین پر عمل کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے اس لیے کسی کو اس سے پریشانی محسوس نہیں ہوتی ۔ یکساں سول کوڈ کے نتیجے میں ہندو کوڈ بل خطرے میں پڑجائے گا ۔ہندو کوڈ بل کو یکساں سول کوڈ بنانا بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ سارے ہندو سماج کا کسی ایک قانون پر اتفاق نہیں ہوسکتا۔ ان کے یہاں ہر برادری کی اپنی روایت ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور وہ اسی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے دو ثبوت تعدد ازدواج اور کم عمر کی شادیاں ہیں ۔ تعدد ازدواج کی اجازت مسلم پرسنل لا میں تو ہے مگر ہندو مرد کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ اس معاملے میں مسلمانوں سے پیچھے نہیں ہیں اور قبائلی علاقوں میں تو تعدد ازدواج کی شرح مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی حال کم عمر کی شادیوں کا ہے۔

اسلامی شریعت کے مطابق پندرہ سال کی لڑکی کو شادی کی اجازت ہے اور ہندووں کے لیے یہ قید آٹھارہ سال ہے لیکن ان کے سماج میں کم عمری کی شادیوں کا رواج مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے یکساں سول کوڈ نافذہوجانے کے بعد جس طرح آج ہندو سماج ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اسی طرح مسلم سماج بھی کرے گا۔ اس لیے کہ اس کو تو اپنی شریعت پر چلنا ہی ہے۔ حکومت ہند کو بھی اس حقیقت کا احساس ہے ۔ مسلمان جب بھی ریزرویشن کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں اس سے محروم رکھنے کی خاطر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ان کے دین نسلی امتیاز نہیں ہے اس لیے وہ ریزرویشن کی سہولت سے استفادہ نہیں کرسکتے ۔ یعنی اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ دین اسلام دیگر ادیان سے ممتاز ہے ۔ وہ انسانوں کے درمیان بھید بھاو نہیں کرتا۔ دین اسلام کا یہ امتیاز اس کی شریعت کے سبب ہے اس لیے اس کی منفرد حیثیت کو تسلیم کرکے ایک سہولت سے محروم کرنا درست ہے تو انہیں اپنی شریعت پر عمل کرنے سے روکنا سراسر ظلم ہے۔

ہم دو ہمارے دو کی یہ موجودہ حکومت بلند بانگ وعدے کرکے اقتدار میں تو آگئی مگر عوامی فلاح بہبود کا کوئی ٹھوس کام کرنے میں پوری طرح ناکام رہی۔ اسی لیے اس کو اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے کبھی سرجیکل اسٹرائیک تو کبھی رام مندر یا کبھی کشمیر تو کبھی یکساں سول کوڈ کا راگ الاپنا پڑتا ہے۔ ہندو ووٹرس کی خوشنودی کی خاطر مسلمانوں کو سبق سکھانے کا نعرہ لگایا جاتاہے اور وہ سارے دکھ درد بھول کر جھانسے میں آجاتا ہے۔ اس کی سب آسان مثال تو گجرات کے حالیہ انتخاب میں بی جے پی کی زبردست کامیابی ہے لیکن اس سے پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے۔ نوٹ بندی کے بعد اترپردیش کا صوبائی انتخاب ہوا تو مودی جی نے عوام سے کہنا شروع کیا کہ ’دیکھا سب کو لائن میں لگا دیا کہ نہیں؟‘ یہ سن کر جن سرمایہ داروں کے تئیں عام لوگوں میں نفرت تھی وہ اپنا دکھ درد بھول کر خوش ہوگئے اور بی جے پی کو اترپردیش کے اندر غیر معمولی کامیابی سے نواز دیا۔ فی الحال مودی اور ان کی ٹیم نےاس طرح اپنے یکساں ووٹرس کے جذباتی استحصال میں مہارت حاصل کرلی ہے اور یکساں سول کوڈ کے ذریعہ بھی یہی کرنے کا ارادہ ہے۔

یکساں سیول کوڈ میں کتنا دم خم ہے اور اس سے کتنا سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے یہ جاننے کے لیے بی جے پی نے ایوانِ بالا (راجیہ سبھا )میں اپنے رکن پارلیمان کروڈی لال مینا کے ذیعہ یونیفارم سول کوڈ ان انڈیا بل 2020 کو پیش کروادیا ۔ اس پرائیویٹ ممبر بل کو حزب اختلاف کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب ایوان کا صدر اپنی مٹھی میں ہو تو ڈر کاہے کا؟ بی جے پی نے پہلے تو اتراکھنڈ اور پھر گجرات کے اندر یکساں سیول کوڈ کا وعدہ کیا ۔ اس کے خلاف مسلمان میدان میں نہیں اترے تو یہ کھیل بے فائدہ رہا۔حزب اختلاف نے بھی یہ کہہ کر اسے نظر اندا کردیا کہ فی الحال مرکز میں بی جے پی سرکار ہے۔ یہ اس کے کرنے کا کام ہے۔ وہ اس معاملے میں پیشقدمی کیوں نہیں کرتی؟ اس سوال نے بی جے پی کے غبارے کی ہوا نکال دی اس لیے مرکزی سطح پر بھی کوئی نہ کوئی علامتی اقدام کرنا ضروری ہوگیا۔ اس ضرور ت کے پیش نظر بی جے پی نے یونیفارم سول کوڈ کی تیاری اور پورے ہندوستان میں اس کے نفاذ سے جڑے معاملات کے لیے قومی معائنہ اور تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کی درخواست کا پرائیویٹ ممبر بل پیش کروایا۔
حزب اقتدار اگر اس معاملے میں سنجیدہ ہوتا تو یہ بل راجیہ سبھا میں پیش نہیں ہوتا کیونکہ بی جے پی وہاں اقلیت میں ہے ۔ اس کو ایوانِ زیریں (لوک سبھا) کے اندر رکھا جاتا جہاں اس کو واضح اکثریت حاصل ہے اور اسے کوئی غیر معروف رکن نجی حیثیت سے نہیں پیش کرتا بلکہ یہ اعزاز وزیر داخلہ امیت شاہ یا کم ازکم وزیر قانون کے حصے میں آتا ۔ اس کے باوجود ترنمول کانگریس ، ایم ڈی ایم کے، راشٹریہ جنتا دل، سماج وادی پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سی پی آئی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے اراکین اور کانگریس نے بل کو متعارف کرانے کے خلاف احتجاج کیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اپنے مسلم رائے دہندگان کو یہ یقین دلانا ہے وہ ان کے پرسنل لا کے تحفظ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حزب اختلاف نے بل کے خلاف تحریکات التوا کی وجہ یہ بتائی کہ اس کی منظوری سے ملک میں رائج سماجی تانے بانے اور تنوع میں اتحاد کو "تباہ” ہوجائے گا۔

اس بل کی پیشکش چونکہ اچانک ہوئی اس لیے حزب اختلاف تیار نہیں تھا ورنہ اس کو تعداد کی بنیاد پر اسے ناکام کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ بی جے پی کے ارکان کو خفیہ طریقہ سے اس بل سے مطلع کردیا گیا تھا اس لیےمذکورہ تحریک کے حق میں 63 اور مخالفت میں 23 ووٹ پڑے ۔ اس طرح یہ بل کمیٹی میں غورو خوض کے لیے منظور کر لیا گیا۔ وہ کمیٹی اپنا کام کرکے کوئی مسودہ کب پیش کرے گی یہ کوئی نہیں جانتا ۔ ویسے بی جے پی کو اس بابت مرکزی سطح پر کچھ نہ کچھ کرنے کا بہانہ تو مل ہی گیا ہے ۔ مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستی انتخاب کے موقع پرجب پھر سے یہ مسئلہ اٹھایا جائے گا تو وہ کہے گی ہم لوگ مرکز میں بھی اس پر کام کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یکساں سیول کوڈ سےمسلم پرسنل لا سمیت تمام عائلی قوانین کو خطرہ لاحق ہے لیکن فی الحال تو اس حکومت سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں ہے۔

ہندوستان کی نچلی عدالتیں سرکار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیسے احمقانہ فیصلہ کرتی ہیں اس کا ایک نمونہ اس وقت سامنے آیا جب اتر پردیش کے اندر سرکاری بجلی کے محکمہ میں برقی آلات چوری کرنے کے 9 معمولی مقدمات میں 18 سال کی جیل کاٹنے والے اترپردیش کے اکرام کی درخواست زیر سماعت تھی اور رجیجو کہہ رہے تھے کہ اس پر عدالت اپنا وقت ضائع نہ کرے مگر بنچ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے لئے کوئی بھی کیس چھوٹا نہیں ہوتا۔ عدالتِ عظمیٰ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کا اس احمقانہ حکم کو رد کردیا کہ جس میں ہدایت دی گئی تھی کہ 9 مقدمات میں سے ہر ایک میں فی کس 2 سال کی سزا ایک ساتھ چلے گی۔ اس طرح 18 سال کی سزا کا فیصلہ غلط قرار دے دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس کی سزا کو کم کرنے کے بعد کہا کہ برقی آلات کی چوری قتل کا جرم نہیں ہےاور ہائی کورٹ کے اس نا مناسب فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا۔ یہ فیصلہ گو کہ ٹرائل کورٹ نے کیا تھا مگر ہائی کورٹ نے بھی اس کی تائید کردی۔ اس عدالتِ عظمیٰ نے پوچھا کیا کسی شخص کو برقی آلات کی چوری کرنے پر 18 سال کے لیے جیل بھیجا جا سکتا ہے؟ کیا سے قتل کا جرم ہے ؟ ایسی صورت میں اگر مجرم کی سزا میں کمی نہ کی جائے تو یہ اس کے حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ کم از کم ہائی کورٹ کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ مجرم کو مناسب انصاف نہیں دیا گیا۔ اکرم چونکہ اب تک دو سال سے زیادہ کی سزا مکمل کر چکا ہے اس لیے عدالتِ عظمیٰ نے اس کے جیل سے نکلنے کا راستہ ہموارکردیا۔ سبکدوشی سے قبل سابق چیف جسٹس این وی رمن دہلی کے وگیان بھون میں وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی مشترکہ تقریب میں کہا تھا کہ ’’عدالت کے فیصلے حکومتوں کے ذریعہ برسوں نافذ نہیں کیے جاتے ہیں۔ عدالتی اعلانات کے باوجود قصداً غیر فعالیت ہے، جو ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ حالانکہ پالیسی بنانا ہمارے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے، اگر کوئی شہری اپنی شکایت لے کر ہمارے پاس آتا ہے تو عدالت منع نہیں کر سکتی۔‘‘ اس سنگین صورتحال میں عدلیہ کے ساتھ جوڑ کر بیٹھنے اور اصلاح کی سنجیدہ تدابیر کرنے کے بجائے کرن رجیجو عدالت کا عدلیہ سے الجھ جانا اور اس کی خود مختاری کو سلب کرنے کی کوشش کرنا ناقابلِ معافی جرم ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450059 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.