پاک، افغان تنازع دائمی سر درد؟ ..

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ک افغان پالیسی کے حوالے سے دو ٹوک بیانہ صائب ہے اور سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر افغان طالبان نے اپنی سرزمین سے کالعدم تنظیموں کے خلاف نہیں کرنا چاہتے اور اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتے تو پاکستان کو خارجہ پالیسی تبدیل کرنا ہوگی ۔اگست 2021 میں افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد پاکستان توقع کر رہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان متنازع سرحدی معاملات سمیت افغان سر زمین سے کالعدم تنظیموں و گروپوں کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات کم ہوتے ہوئے ختم ہو جائیں گے اور بالآخر دونوں ممالک میں ثقافتی و مذہبی بنیادوں پر ایک نئے دور کا آغاز ہوگا لیکن بد قسمتی سے پاک، افغان سرحدی کشیدگی اور پاکستانی فورسز و شہریوں پر سرحد پا ر حملوں نے اس تشویش میں اضافہ کردیا کہ مستقبل میں اگر ان معاملات کو سیاسی اور سفارتی بنیادوں پر جلد حل نہ کیا گیا تو کرم بار ڈر خرلاچی اور بوڑکی، کی شہری آبادی پر نشانہ بنانے جیسا عمل مزید کئی جگہوں پر پھیل سکتا ہے اور سابق غنی انتظامیہ کی طرح موجودہ حکومت کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔

بظاہر کابل میں پاکستان کی حمایت یافتہ افغان طالبان حکومت ہے جنہیں فی الحال پاکستان سمیت دنیا کی کسی بھی مملکت نے باقاعدہ تسلیم نہیں کیا لیکن حامی ہونے کے باوجود جو رویہ افغان بارڈر فورسز کی جانب سے تو اتر سے اختیار کیا جا رہا ہے، اسے نظر انداز کئے جانا ممکن نہیں۔حالانکہ امارات اسلامیہ کو روز اول سے بین الاقوامی شناخت، انسانی امداد، بنیادی صحت کی صورت حال، خواتین کے بنیادی حقوق و تعلیم، اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کی دہشت گردی کا مقابلہ اور انفرا اسٹرکچر کے ساتھ ساتھ مختلف گورنس چیلنجز کا سامنا ہے، ان حالات میں عالمی برادری بالخصوص پڑوسی ممالک کے ساتھ محاذ آرائی کی فضا پیدا ہونا خود کابل عبوری حکومت کے لیے مناسب نہیں۔ نظریاتی طور پر افغان طالبان اور پاکستانی کی کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے 26گروہ میں سے بیشتر گروپ مخصوص عقائد کو بنیاد بنا کر کارروائیاں کرتے ہیں اور پس پردہ ہونے والے معاہدوں اور فائر بندیوں نے کالعدم تنظیموں کو منظم ہونے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے، کیونکہ کالعدم جماعتوں و تنظیموں کو اپنا انفرا اسٹرکچر بحال کرنے اور کمک کے لیے افغانستان کی سر زمین مہیا ہے جہاں بنا روک ٹوک انہوں نے خود کو دوبارہ یکجا کیا اور منظم ہونے کے بعد دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کردیا۔

پاکستان مخالف جذبات کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے حکام کو مربوط حکمت عملی کی ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے، موجودہ حکومت سے قبل سابق غنی حکومت بھارت کی ایما اور سرپرستی میں افغان عوام میں نفرت کی بیج بوتے چلی آئی تھی جس کے مظاہر ہم افغان، پاکستان کرکٹ میچوں میں بالخصوص افغان شائقین کی جانب سے نفرت انگیز رجحان اور اشتعال انگیزی سے بخوبی لگای سکتے ہیں، پاک، افغان بین الاقوامی سرحد کو خود ساختہ متنازع قرار دے کر افغان بارڈر فورسز کی جانب سے پاکستانی چیک پوسٹ پر حملے اور عموماً دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرکے پاکستانی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں استعمال کئے جانے کے رجحان میں اضافے سے عالمی برادری میں بھی تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ سفارتی چینل سے کس طرح اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ بد قسمتی سے کچھ ایسی قوتیں نام نہاد پشتون قوم پرستی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرکے اپنے مذموم مقاصد کو بڑھانے میں استعمال کر رہے ہیں جو دائمی سر درد بن چکا ہے۔

کابل میں افغان طالبان کی عمل داری کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کی پاکستان کے اندر دہشت گردی کی مہم میں اضافہ ہوا۔ مبینہ فائر بندی کے معاہدے کو 28 نومبر کو ختم کرنے کا اعلان کرنے کے بعد 30 نومبر کو بلوچستان میں پولیس ٹرک پر خود کش حملہ کرکے اگست میں افغانستان میں ہلاک ہونے والے اپنے سنیئر کمانڈر عبدالولی جسے عمر خالد خراسانی کے نام سے جانا جاتا ہے، بدلہ لینے کا مبینہ اعلان کرکے دہشت گرد حملے کی ذمے داری قبول کی۔ متنازع جنگ بندی کے معاملات کس نہج پر طے ہوئے اور اس پر کس نے کس طرح عمل درآمد کرنے کی یقین دہانی کرائی یہ خود پارلیمانی جماعتوں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے کہ معاہدہ کب ہوا اور ٹوٹا کیوں؟۔

حیران کن امر یہ بھی ہے کہ جب مسلح افواج کی کمان کی تبدیلی میں جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کی جگہ جنرل عاصم منیر احمد ذمے داریاں سنبھال لے رہے تھے تو یکایک کالعدم ٹی ٹی پی نے با ضابطہ مبینہ جنگ بندی ختم کردی حالاں کہ فائر بندی کے باوجود سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا رہا تھا۔ کالعدم ٹی ٹی پی اب ایک متحد گروپ نہیں رہا کہ ان سے مذاکرات کرلئے جائیں تو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں ختم ہوسکتی ہیں، یہ اب کالعدم جماعتوں اور علاقائی اور عالمی دہشت گرد تنظیموں کا ایک جال ہے جو افغانستان کی سر زمین پر بُناجارہا ہے۔ جب تک افغان طالبان اس گنجلک جال کو توڑنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے، نہ اُن کے مسائل حل ہوں گے اور نہ عالمی برداری کو یہ پیغام جا سکے گا کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کی جنت بن رہا ہے۔ تحقیق کے مطابق افغان طالبان کے کابل میں عمل داری کے بعد پاکستان پر 50فیصد سے زائد حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، بین الاقوامی سرحد جسے ڈیورنڈ لائن کا نام سے بھی جانا جاتا ہے، خار دار تاروں کو ہٹایا گیا، بار ڈر فورسز کے حکام نے پاکستانی محافظو ں کو کھلی دھمکیاں دیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھتا خوری، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ سرمایہ کاروں اور حکومتی اراکین سمیت سیاسی رہنماؤں کو بھتا کی رقم ادا کرنے کے لیے مبینہ طور پر بلیک میل کیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اس کے اثرات ایک بار پھر کراچی میں نظر آنے لگے ہیں اور کراچی میں بھی مبینہ طور پر کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے بھتا خور کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے ستمبر2022میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں افغانستان میں موجود بڑے دہشت گرد گروپوں، خاص طور پر اسلامک اسٹیٹ، داعش خراسان، کالعدم ٹی ٹی پی سے لاحق خطرات سے عالمی خدشات کا اظہار کیا تو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرد اری نے بھی عالمی دہشت گرد گروپوں کو ان افغان پناہ گاہوں سے پاکستان مخالف سرگرمیوں اور کارروائیوں کو روکنے کے عملی پیش رفت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کی حمایت کی۔ افغان طالبان، کو پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات کے لیے سابق حاشیہ بردار کابل حکومتوں کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے اُن غلط فہمیوں اور منفی اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی جو دونوں ممالک کے عوام میں خلیج کو بڑھا رہے ہیں، دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح کے حکام امن و امان کے لیے کھلے دل کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دیرینہ مسائل کا حل نکالیں تاکہ غربت و جنگ سے شکار کروڑوں عوام امن کے ثمرات سے بار آور ہو سکیں۔

 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744199 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.