27دسمبر 2007 پاکستان کی سحر انگیز سیاسی شخصیت کی مالک
سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو ان کی انتخابی مہم کے دوران شہید کر دیا
گیا
شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو آج بھی عوام کے دلوں
میں زندہ ہیں، اور ان سے ٹکرانے والوں کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے
دخترمشرق اورمسلم دنیاکی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر شہید بھٹو کا
15واں یوم شہادت آج منایاجارہا ہے۔پاکستان کی سا لمیت اور استحکام کے دشمن
عناصر نے27دسمبر2007ء کے دن بے نظیر بھٹو کو شہید کر کے اُن کے جسمانی وجود
سے تو چھٹکارا تو حاصل کر لیا،مگر اُن کی مقبولیت ، لوگوں کے دلوں پر
حکمرانی،اور طلسماتی اور کرشماتی شخصیت کو نہ مٹا سکے۔ بی بی شہید کی سیاسی
تربیت شہید ذولفقار علی بھٹو نے خود کی۔بی بی شہید نے ملک میں آئین اور
جمہوریت کی جنگ مرتے دم تک لڑی، بی بی شہید کی زندگی اور جدوجہد پارٹی
کارکنوں کیلئے روشن مثال ہے۔پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جسکی قیادت نے
عوامی حاکمیت کیلئے جان کی قربانی دی،بی بی شہید کا ادھورا مشن پاکستانی
عوام کی حاکمیت ہے۔بھٹو خاندان کی سیاسی تاریخ خون سے رنگین ہے۔پاکستان کی
سا لمیت،ترقی ،بقا اوراستحکام کے لیے جتنی قربانیاں بھٹو خاندان نے دی
ہیں۔شاہد ہی دنیا کی تایخ میں اس کی مثال موجود ہو۔بے شمار آمرانہ جبر و
ظلم کے باوجود بھٹو کا طلسم آج بھی نہ صرف زندہ و جاوید ہے،بلکہ چاروں طرف
پھیلا ہوا ۔ہر طرف '' ـآج بھی بھٹو زندہ ہے '' کی گونج سنائی دے رہی ہے۔بے
نظیر بھٹو 21جون1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ریڈ کلف کالج اور ہارورڈ
یونیورسٹی سے اعلٰی تعلیم کے بعد بے نظیر بھٹو نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے
سیاسیات،اقتصادیات اور فلاسفی میں اعلٰی ڈگری حاصل کی۔اور آکسفورڈ
یونیورسٹی سے ہی بین الاقوامی قانون اور ڈپلومیسی کا کورس مکمل کیا۔بے نظیر
بھٹو آکسفورڈ یو نیورسٹی یونین کی منتخب ہونے والی پہلی ایشائی مسلمان
خاتون تھیں۔جو یونین کی صدر منتخب ہوئیں۔بے نظیر بھٹو کو دنیائے اسلام کی
پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔بے نظیر بھٹو نے کئی کتابیں
بھی لکھیں۔جن میں دختر مشرق ا ُن کی معروف تصنیف ہے۔بے نظیر بھٹو 1988ء اور
1993ء میں دو بار پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔بے نظیر بھٹو کی زندگی سخت
مصائب و آلام سے بھری پڑی ہے۔اُ نہوں نے اپنے شہید والد کو آمرانہ اور
جابرانہ ہا تھوں شہید ہوتے ہوئے دیکھا۔اُس وقت بے نظیر بھٹو کو شدید صدمے
سے دو چار ہونا پڑا۔یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔کہ ملت اسلامیہ کے عظیم
لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔یہ صدمہ دنیا کے لئے نا
قابل برداشت تھا۔3اپریل 1979ء کو شہید بھٹو کے ساتھ اپنی آخری ملاقات میں
بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے سامنے اُن کے مشن کو جاری رکھنے کا نہ صرف
عزم کیا بلکہ پاکستان کو آمرانہ اور جابرانہ تسلط سے آزاد کروا کر جمہوریت
کی طرف گامزن کرنے کے لئے اپنی عملی جد و جہد کا آغاز بھی کیا ۔باپ کی
شہادت کے بعد بھائی کو بھی قتل کر دیا گیا۔اور بھٹو خاندان کو لوگوں کے
دلوں سے مٹانے کی کوشش کی گئیمحترمہ نصرت بھٹو کو گرفتار کر کے لا ٹھیاں
ماری گئیں ،مگر بے نظیر کے مشن میں ذرا بھر بھی کمی یا لغزش نہیں آئی کہتے
ہیں کہ ظلم کی تاریک رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو روشن صبح ضرور ہوتی ہے۔بے
نظیر بھٹو کو اُن کی جہد مسلسل اور نظریہ کی بنا پر دو بار پاکستان کی
وزارت عظمٰی پر گامزن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔بے نظیر بھٹوکسی ایک صوبے میں
نہیں بلکہ پاکستان کے چاروں صوبوں کی زنجیر بن کر ان کو یکجا کر کے جمہوریت
اور ترقی کی طرف گامزن کیا۔8اکتوبر2007ء کو جب بے نظیر بھٹو 8سالہ جلا وطنی
کے بعد واپس پاکستان آئیں،تو کراچی میں اُن کے جلوس پر خود کش حملہ کیا
گیا۔جس میں بے نظیر بھٹو معجزانہ طور پر بچ گئیں۔اس دھماکے میں بھٹو شہید
کے شیدائی اور بے نظیر بھٹو کے 170 جانثار شہید ہو گئے۔اس خوفناک دھماکے کے
بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو متعدد بار دھمکیاں دی گئیں اور ان کو مشن سے
ہٹانے کی کو ششں کی گئی۔مگر بے نظیر بھٹو نے انتہائی دیدہ دلیری سے بحالی
جمہوریت اوراستحکام پاکستان کے لئے اپنے مشن کو جاری رکھا۔27دسمبر2007 ء کو
لیاقت باغ میں اپنے انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد جب وہ واپس جا رہی تھیں تو
اُن کے جانثاروں نے نعرہ بازی بازی شروع کی تو بے نظیر بھٹو اُن کا جواب
دینے کے لئے جب گاڑی کے سن روف سے باہر نکلیں تو دہشت گردوں نے اُن کو شہید
کر دیا۔یہ لمحہ تاریخ کا المناک ترین لمحہ تھا۔جب عالمی دنیا کی ایک معصوم
اور عظیم لیڈر کو شہید کر دیا گیا۔اُن کی شہادت پر ہر آنکھ پُر نم تھی۔ہر
کوئی چیخ چیخ کر اپنی محبوب قائد کو پکار رہا تھا۔مگر شاہد دہشت گردوں کا
نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی دین۔۔پاکستان کے دشمن عناصر نے بھٹو خاندان
کے اس عظیم چراغ کو راستے سے ہٹاکر لوگوں کے دلوں سے بھٹو خاندان کی محبت
کونکالنے کی کو شش کی مگربے نظیر شہید کے پروانوں کے دلوں میں اس واقعہ سے
ایک نیا ولولہ اور جذبہ پیدا ہوا۔بھٹو کے جیالوں نے اتنے بڑے صدمے کے
باوجوداُن کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم و عہد کیا۔27دسمبر2007ء کو بے نظیر
بھٹو شہید کا خطاب انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اُن کی تقریر کا ایک ایک لفظ
آج بھی لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں گونج رہا ہے۔بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے
آخری خطاب میں بھی اپنے ملک کو درپیش خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا
کہـ۔۔آپ کا اور میرا ملک خطرے میں ہے۔سوہنی دہرتی مجھے پکار رہی ہے۔اور ہم
دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔قبائلی علاقوں میں پاکستان کا
پرچم ہمشہ لہراتا رہے گا۔پاکستان کے لئے میرے والد کو شہید کردیا گیا۔میر ے
دو جوان بھائی مار دئیے گئے۔شوہر کو طویل عرصہ تک جیل میں رکھا گیا۔مجھے
پارٹی کی قیادت کوختم کرنے کی کو شش کی گئی۔میری ماں کو سڑکوں پرلاٹھیاں
ماری گئیں۔مجھے جیل میں رکھا گیا۔لیکن ہم موت سے نہیں ڈرتے۔ہم عوام کی طاقت
سے انتہا پسندوں کو شکست دیں گے۔بے نظیر بھٹو کی تقریر کا ایک ایک لفظ اس
قوم اور غریب عوام کے دکھوں سے بھرا تھا۔آج بے اختیار ہاتھ اپنی محبوب قائد
کی عظمت کو سلام کے لئے اُٹھ جاتے ہیں۔فخر ایشیاء قائد عوام ، ذوالفقار علی
بھٹو کی لخت جگر شہید رانی کی شہادت پر نہ صرف پورا پاکستان بلکہ عالم
اسلام غم زدہ ہے شہید رانی کی شہادت سے جو پاکستان کو نقصان پہنچا شاہد
اسکا ازالہ صدیوں تک نہ ہوسکے ۔ بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے والوں نے نہ صرف
انہیں شہید کیا بلکہ انہوں نے عالم اسلام کے مسلمانوں کو ایک عظیم لیڈر سے
بھی محروم کر دیا محترمہ بے نظیر بھٹو کی ساری زندگی عوام کے حقوق او ر
جمہوریت کی بحالی کے لیے گزری ظالم کے خلاف ڈٹ جانے والا جو درس انہیں اپنے
عظیم والد شہید ذوالفقار علی بھٹوشہید سے ملا تھا اس کی لاج رکھتے ہوئے
انہوں نے ہمیشہ ظالموں کے خلاف غریبوں کے حقوق کا علم بلند رکھا شہید عوام
کے بعد محترمہ بے نظری بھٹو نے جیسے ہی پارٹی کی قیادت سنبھالی تو انہوں نے
بکھرے ہوئے کارکنوں کو منظم کیا جیل کی کال کوٹھری سے والد کی طرف سے ملنے
والے عوامی محبت کے تحفے کو بے نظیر بھٹو نے نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنے
والد کے حکم کے مطابق مظلوموں کی جنگ لڑتے لڑتے شہادت کے منزل تک پہنچیں
۔ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف ڈٹ جانے والی شہید قائد نے طویل جلاوطنی کے
بعد 1986میں جب وطن پہنچیں تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا محترمہ بے
نظیر بھٹو جدھر جاتیں عوامی سمندر ان کے ساتھ ہوتا 1988میں انہیں پاکستان
اور عالم اسلام کی پہلی خاتون حکمران ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ ملک میں ایک
بار پھر طویل آمریت کے بعد جمہوریت بحال ہوئی عوام کو ان کے بنیادی حقوق
حاصل ہو ئے آئین بحال ہوا ترقی کے سفر کا آغاز ہوا خواتین کی فلاح و بہبود
کے لیے میگا منصوبے شروع کیے گئے مگر جمہوریت دشمن قوتوں نے نہ صرف 20ماہ
بعد ہی ان کی حکومت کو رخصت کر دیا بلکہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب
آصف علی زرداری سمیت کئی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر جھوٹے مقدمات درج کیے
گئے آصف علی زرداری کو گرفتار کر لیا گیا ان سب مظالم کے باوجود محترمہ بے
نظیر بھٹو نے اپنی جدو جہد جاری رکھیں 1993کے انتخابات میں دوبارہ کامیابی
حاصل کر کے پاکستان کی تاریخ میں اپنے والد کے بعد دو بار وزیر اعظم بننے
کا اعزاز حاصل کر لیا ہے مشرف کی آمریت کے دوران 2002کے انتخابات میں
پاکستان پیپلز پارٹی کو بڑی کامیابی ملی مگر شہید رانی نے آمریت کے زیر
سایہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو بنانا پسند نہ کیا ۔ جمہوریت کے لیے پیپلز
پارٹی کی قیادت کو بڑی بھاری قیمت دینا پڑی، سخت جدو جہد کرنا پڑی قید
کاٹنا پڑی حتیٰ کہ اپنی جانوں کا نظرانہ بھی پیش کرنا پڑا بھٹو شہید کے بعد
محترمہ بے نظیر بھٹو اس کے روشن مثال ہیں ۔ وہ ایسی قائد تھیں جنہوں نے نہ
جھکنے کا عزم کیا تھا اس کو آخری دم تک قائم رکھا وہ ہمیشہ بہادری کو پسند
کرتیں تھیں ان کی خواہش تھی کہ پارٹی کے رہنما اور کارکن ویسے دلیر ہوں
افواہ ساز فیکڑیوں کے لیے ہرسال 27دسمبر کادن ایک پیغام لیکر ابھرتا ہے۔بے
شک جمہوریت بہترین انتقام ہے، آج کے دن ہم عہد کرتے ہیں کہ خون چاہیے ، خون
دیں گے ، سر چاہیے سر دیں گے ، مگر جمہوریت کے خلاف ہونے والی کسی بھی سازش
کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے یہ پیپلز پارٹی کے جیالوں کا پاکستانی عوام سے
وعدہ ہے ملک و قوم کی خدمت کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے
۔محترمہ مسلسل ان ملک دشمنوں کے عزائم خاک میں ملانے کے لیے عزم کر رہی
تھیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے تھے یہ لوگ چاہتے تھے کہ سوات
میں پاکستان کا پرچم نہ رہے وزیر ستان میں پاکستان کا پرچم نہ رہے بلوچستان
میں پاکستان کا پرچم نہ رہے ۔جاگو میرے بھائیو اس ملک کو ہم بچائیں گے ہم
نے ملک کر ان لوگوں کے عزائم کو ناکام بنانا ہے میں خراج تحسین پیش کر تی
ہوں اپنی شہید قائد بے نظیر بھٹو کو جنہوں نے ملک دشمنوں کو للکار کر کہا
کہ پاکستان کے جھنڈے کو کوئی سر نگوں نہیں کر سکتا کو ئی بھی نہیں یہ جھنڈا
ہمیشہ بلند رہے گا ۔آج شہید رانی کی نشانی قائد پاکستان بلاول بھٹو اپنی
شہید والدہ اور نانا کا مشن لئے سرگرم ہیں۔وہ ایک دلیر نڈ اور بے باک لیڈر
ہیں جن میں وہ تمام قائدانہ صلاحیتں موجود ہیں جو ایک سچے اور بے باک لیڈر
میں ہونی چاہیے۔ان کی شخصیت میں والدہ اور نانا کی جھلک بھی ہے اور مرد حُر
آصف علی زرداری کی تربیت بھی۔پاکستان کے موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹوبی بی
شہید کے مشن کو لے کر دنیا بھر میں پاکستان کے وقار کو بلند کر رہے ہیں
اورمستقبل میں انشاء اﷲ وزیراعظم پاکستان بن کر اپنے نانا اور والدہ کے مشن
کی تکمیل کر یں گے۔
|