سال نو کے جشن سے ہمیں کیا ملا؟


اسلام ایک ایسا دین قیم ہے جو ہر قسم کے افراط و تفریط سے کنار ہے۔ اس کی ہر تعلیمات نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے منارہ نور ہیں۔ یہ ایک ایسا دین ہے جو انسانیت کی اصلاح و فلاح کے لئے اتارا گیا ہے اور اپنے اندر تمام مسائل زندگی کے حل سموئے ہوئے ہے۔

آج نئے سال کی آمد پر استقبالیہ جشن کی تیاریاں زور و شور سے چلیں۔ دنیا بھر میں رنگ برنگی لائٹوں اور برقی قمقموں سے سجاوٹ ہو ئی۔ ۳۱ دسمبر کی رات میں ۱۲ بجنے کا شدت سے انتظار کیا گیا اور ۱۲بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی گئی، کیک کاٹے گئے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا گونجی اور آتش بازیاں کی گئیں۔ فضول خرچی کے ریکارڈ توڑے گئے، آتش بازی اور پارٹیوں کے نام پر سبقت لے جانے کی کوشش اور رب کی ناراضگی مول لی گئی۔

آج نئے سال کے موقع پر ہم سب نے یہود و نصاری کو بخوبی نقل کیا۔ بلکہ ہو سکتا ہے ان سے دو قدم آگے ہی رہے ہوں۔ ہم نے نئے سال کی مبارک بادیں دیں اور وصول کیں، جشن منایا، ناچ گانا کیا، اپنے رسول خاتم النبین شافع مذنبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا مذاق اڑایا اور اللہ سبحانہ و تعالی کی مقرر کردہ حدوں سے بھی تجاوز کیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب سر انجام کر کے ہمیں آخر کیا ملا؟ کوئی بھلائی و خیر تو جو ہم نے آج نئے سال کا جشن منانے سے حاصل کی ہو؟

ہم نے اللہ تعالی کی حدود سے تجاوز کیا خوب اسراف کیا۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں کہتا ہے:

"يَا بَنِيْ آدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا إِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ" (الاعراف:۳۱)

ترجمہ: ’’اے آدم کی اولاد! تم مسجد کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ نکلو، بیشک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

وہ دولت جسے اللہ تعالی نے معاش کے حصول کا ذریعہ بنایا ہم نے اسے بے دریغ خرچ کیا۔ رب باری تعالی کا ارشاد پاک ہے:

"وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ کَانُوْا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ" (الاسراء:۲۶،۲۷)

ترجمہ: ’’اور مال کو بےجا خرچ نہ کرو،بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔‘‘

اس فرمان مبارک کے مطابق ہم نے بخوشی دولت کے انبار لٹا کر شیطان کے بھائی بننے کو ترجیح دی۔

آج ہم نے فحاشی و عریانی کو خوب فروغ و عروج دیا۔ اللہ تعالی کا ارشاد مبارک ہے:

اِنَّ الَّذِيۡنَ يُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِيۡعَ الۡفَاحِشَةُ فِىۡ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۙ فِىۡ الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ‌ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏

بیشک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ (ایسے لوگوں کے عزائم کو) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (سورۃ النور آیت 19)

نئے سال کا جشن منانا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی اسلاف کے طرز میں کبھی اس کی کوئی دلیل ملتی ہے۔ بعض کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہےکہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتاتے تھے:

اللّٰھُمَّ أدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍمِّنَ الشَّیْطَانِ“ (المعجم الاوسط للطبرانی ۶/۲۲۱ حدیث: ۶۲۴۱ دارالحرمین قاہرہ)

ترجمہ: اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن و ایمان، سلامتی و اسلام اور اپنی رضامندی نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔

آج ہمیں تو اس بات کا افسوس منانا چاہیے تھا کہ زندگی کا ایک حصہ کٹ گیا۔ اس بات کا محاسبہ کرنا چاہیے تھا کہ سارا سال ہم نے کتنی خطائیں کیں۔ بے شک انسان خطا کا پتلا ہے، اس سے غلطی تو ہو گی مگر بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی غلطیوں سے کیا سیکھا؟ سال 2022 جب آیا تو ہم نے دھوم دھام سے اس کا استقبال کیا اور آج سال 2023 کا بھی بالکل اسی طرح استقبال کیا بلکہ اس سے بڑھ کر اہتمام کیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ“۔ (مشکاة المصابیح ۲/۴۴۱ کتاب الرقاق)

ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔

افسوس! صد افسوس آج اس امت کے کروڑوں روپے صرف ایک رات میں ضائع ہوئے۔ خوشیاں منانے کے نام پر اللہ تعالی کی نافرمانیاں کرکے اپنے کندھوں پہ گناہوں کا بوجھ اٹھائے۔ اگر یہی مال غریبوں اور مفلسوں کے کاموں میں ان کی مدد میں خرچ ہوا تو اس سے اللہ بھی راضی اور زندگی کا کچھ مقصد بھی حاصل ہوتا۔

یاد رکھیے! کتاب و سنت کے مطابق کیا گیا لمحہ کا عمل کتاب و سنت کے خلاف کیے ہوئے صدیوں کے عمل سے بہتر ہے۔ آج ہمیں دوسری قوموں کی مشابہت سے بچنے کی سخت ضرورت ہے؛ اس لیے کہ ہمارے آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں غیروں کی اتباع اور مشابہت اختیار کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

"مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ"۔ (ابودوٴد ۲/۲۰۳ رحمانیہ)

ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہے۔

ہمیں تو عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے تھا کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں۔ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

"حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا“۔ (ترمذی ۴/ ۲۴۷ ابواب الزہد، بیروت)

ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔

اس دنیا کا ایک دستور ہے جو آئے وہ ایک دن ضرور رخصت ہو گا۔ اسی طرح ایک دن سال 2022 بڑی دھوم دھام سے آیا تھا، لوگوں نے اس کا استقبال کیا تھا، وہ بھی ایک وقت تھا اور آج بھی یہ وقت ہے کہ وہی سال جس کی آمد پر سب نے جشن منائے وہ 365 دن گزار کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے رخصت ہوگیا۔ ہم دوبارہ نئے سال کے جشن کی خوشی میں مشغول ہو گئے۔

کیا آج ہم نے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ ہم نے اس سال گزشتہ میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ کیا ہم نے ایک بار بھی اپنی زندگی کے اوراق کو پلٹ کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہماری زندگی کا ایک سال یا یوں کہیں کہ زندگی کا ایک حصہ ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا؟

آج ایک بار ضرور سوچیئے گا کہ زندگی کا ایک قیمتی سال رخصت ہوا، جس طرح ہمیں اپنے رب کو راضی کرنا چاہئے تھا کیا ہم کر سکے؟ جس طرح نیکیاں کرنی چاہئیں تھیں، نیک کام کرنے چاہئیں تھے، خدمت خلق کرنی چاہئے تھی، رب کے سامنے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے تھی، کیا یہ سب کام ہم نے کیے؟

یہ لمحات، یہ اوقات زندگی میں ایک بار ملتے ہیں، جو گزر جائے وہ لمحہ کبھی واپس نہیں آتا۔ سال جب جاتا ہے صرف خود نہیں جاتا بلکہ ہم سے ہماری زندگی کے لمحات لیکر رخصت ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیئے! یہ لمحے بڑے قیمتی ہیں ایک لمحہ بادشاہ کو فقیر اور فقیر کو بادشاہ بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔ ایک لمحہ آسمان پر چمکنے والے تارے کو زمین میں ہمیشہ کے لیے دفن کر سکتا ہے۔ اس لیے اس دنیا کی چمک دھمک کو مت دیکھئیے بلکہ یہ دیکھئیے کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ ایک بار سوچئیے گا ضرور!
 
طاہرہ فاطمہ
About the Author: طاہرہ فاطمہ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.