بی آر ٹی، باڑہ وال بس اور " اوق "
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
غالبا 1999 کی بات ہے روزنامہ آج پشاور میں خوش قسمتی سے دن کی ڈیوٹی لگی تھی کیونکہ زیادہ تر رات کی شفٹ میں کام ہوتا تھا اللہ غریق رحمت رے روزنامہ آج پشاور کے عبدالواحد یوسفی، ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، اس وقت بطورآئی ٹی پیج کی ٹرانسلیشن میرے ذمے تھے، چار بجے کے قریب دفتر کے باہر نکلا اس وقت جی ٹی روڈ اتنا کھلا ڈھلا نہیں تھا، ہشتنگری کے مقام پرجہاں گرلز کالج ہے وہاں پر میونسپل کمیٹی پشاور کا آفس تھا، سڑک کراس کرتے ہوئے باڑہ جانیوالی بس کے نزدیک سے گزرتے ہوئے اوپر "اوق "کی آواز آئی اور اوپر سے گاڑی میں بیٹھے شخص نے دوپہر کا کھانا میرے سر سے لیکر کپڑوں تک انڈیل دیا.گاڑی نکل گئی اور میں ہکا بکا رہ گیا، صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی جلدی سے گرلز کالج کے قریب واقع دکان میں پانی کے نلکے کے نیچے بیٹھ گیا اور اپنے آپ کی صفائی میں لگ گیا. وہ دن اور آج کا دن باڑے وال بس کو دیکھ کر میں دور بھاگتا ہوں.کیونکہ مجھے "اوق"کا واقعہ یاد ہے اور اسی کو یاد کرتے ہوئے حتی الوسع کوشش کرتا ہوں کہ اس کے نزدیک نہ جاؤں.
پشاور کے بیشتر رہائشیوں کوباڑے کی بس کے بارے میں پتہ ہے جو راقم کی طرح پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کی اوقات رکھتے ہیں، یہ واحد بس ہے جو اب بھی پشاور میں چلتی ہے اور اسی تیز رفتاری سے چلتی ہے جس طرح سے یہ مشہور ہے اس کے کنڈیکٹر اگر بریڈ فورڈ بس کے پچھلے گیٹ سے داخل ہوتے تو یہ مسافروں کو کہتے کہ آگے جاؤ جگہ خالی ہے اور اگر آگے والی گیٹ سے داخل ہوتے تو پھر مسافروں کو کہتے کہ پیچھے جاؤ جگہ خالی ہے، اور مسافر حیران و پریشان ہوتے ہیں کہ اس گاڑی میں اور کتنی جگہ ہے کہ بھر نہیں رہی لیکن کنڈیکٹر کو صرف اپنے کرایہ سے مقصد ہوتا تھا اسی وجہ سے ان کی کوشش ہوتی کہ مسافروں کا بھرکس نکل جائے لیکن انہیں کرایہ زیادہ موصول ہوں. کبھی کبھار ٹریفک پولیس اہلکار انہیں زیادہ سواریوں پرچالان بھی کرتے. ان کی اپنی ایک یونین تھی ان کے صدر اللہ غریق رحمت کرے جہانگیر خان تھے جو بعد ازں نیو اڈہ کیساتھ واقع اڈے میں فائرنگ کے باعث جاں بحق ہوگئے.
یقینایہ بات پڑھنے والوں کیلئے بھی حیران کن ہوگی کہ بی آر ٹی کے اس دور میں راقم باڑے وال بس کا ذکر کیوں کررہا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ بی آر ٹی بس کی حالت دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ ان کی حالت بھی باڑے وال بس جیسی ہوگئی ہے، ان میں کنڈیکٹر تو نہیں البتہ جب کسی سٹاپ پر گاڑی کھڑی ہوتی تو مردوں کے دروازوں کے پاس کھڑے سیکورٹی گارڈ مرد مسافروں کو کہتے ہیں کہ آگے ہو جاؤ اور خواتین گیٹ کے پاس کھڑے سیکورٹی گارڈ یہی کہتے ہیں آگے خواتین ہیں پیچھے ہوجاؤ، اور کبھی کھبار کالے عینک پہن کر اپنے آپ کو شاہ رخ سمجھنے والے خواتین کے سیکشن میں خود کھڑے ہو جاتے ہیں جیسے یا تو یہ سیکورٹی گارڈ مرد نہیں یا پھر ان پر قانون لاگو نہیں ہوتا.
شہریوں کی سہولت کیلئے شروع کی جانیوالی بی آر ٹی کا صرف ایک ہی فائدہ ہے جو راقم جیسے لوگوں کیلئے بہت فائدہ مند ہے کیونکہ بیشتر اوقات کرایہ کیلئے پیسے نہیں ہوتے اور اگر کسی دوسر ے ساتھی کو دیکھتے تو شرم کے مارے ان کا کرایہ بھی ادا کرنا پڑتا، یوں کبھی کبھار جیب میں زیادہ پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے سر نیچے کرتے کہ اب دوسرے لوگوں کا کرایہ کس طرح دیں، ہاں بی آر ٹی کا کے کارڈ سے صرف اپنا کرایہ ادا کرتے ہیں کہ دوسروں کا کرایہ ایک کارڈ سے ادانہیں ہوتا یوں ہم جیسے کک پتی لوگوں کی بی آر ٹی نے لاج رکھ لی ہیں.
باتیں کہیں اور نکل رہی ہیں، شہر کے اندر شروع کی جانیوالی اس سروس کی وجہ سے ٹریفک پولیس والوں نے عام گاڑیاں مکمل طور پر بند کردی ہیں اور کم بھی ہوگئی ہیں لیکن ان گاڑیوں میں لوگوں کی بھیڑ کسی کو نظر نہیں آتی غول درغول کی شکل میں داخل ہونے والے مسافر کیمروں میں بھی بی آر ٹی کی انتظامیہ کو نظر نہیں آرہے کہ گاڑیاں کم ہیں گاڑیوں کی تعداد زیادہ کرنی چاہئیے لیکن ان کے پاس پشاور سے پبی تک چارسدہ روڈ او ر کوہاٹ روڈ سمیت نئے روٹس کیلئے گاڑیاں ہیں جو لوگ جی ٹی روڈ استعمال کررہے ہیں ان کی حالت گاڑی میں داخل ہوتے ہوئے الگ ہوتی ہیں اور جب وہ گاڑی سے نکلتے ہیں تو پھر استری شدہ کپڑے بھی یوں نظر آتے ہیں جیسے کہ مہینے بھر پہنے ہوں.اس سروس کو صبح کے اوقات میں کالج و یونیورسٹی جانیوالے طلباء و طالبات سمیت روزگار کیلئے جانیوالے افراد استعمال کررہے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ کرایہ کم ہے لیکن شہریوں کی سہولت کی فراہمی کے دعویدار اس کمپنی کی انتظامیہ کو شائد رش نظر نہیں آرہا.
بی آر ٹی بس میں داخل ہوتے ہی بورڈ پر جب نظر پڑتی ہے تو لکھا نظر آتا ہے کہ کسی چیز کی ایڈورٹائزمنٹ منع ہے لیکن یہ قانون بی آر ٹی پر لاگو نہیں کیونکہ ان کی گاڑی اور ان کی مرضی ہے اس لئے ہر گاڑی میں پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے اشتہارات سمیت ہاؤسنگ سکیموں کے اشتہارات نظر آتے ہیں، جس پر لکھا ہوتا ہے کہ صرف پانچ لاکھ اور صرف چالیس ہزار، یعنی پانچ لاکھ بھی اور چالیس ہزار بھی ان کیلئے صرف ہی ہے، اگر بی آر ٹی میں داخل ہوتے ہوئے مسافر کے ہاتھ میں کھانے پینے کی کوئی چیز ہو تو سیکورٹی گارڈ واپس کرتے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیاء پر پابندی ہے لیکن اگر یہی مسافر بی آر ٹی سٹیشن میں داخل ہوتے وقت ان کے ٹک شاپ سے خریداری کریں تو پھر کھانے پینے کی اشیاء پر کوئی پابندی نہیں. یہ بھی بی ٹی آر کی انوکھی پالیسی ہے.
بی آر ٹی اور باڑے وال بس کا موازنہ آج اس لئے کرنے کو دل چاہ رہا ہے کہ حیات آباد میں کوریج کیلئے بی آر ٹی میں جانے کا اتفاق ہوا تو بورڈ بازار سے آگے چڑھائی پر بی آر ٹی بس نے جو آوازیں نکالی وہ ایسی ہی آوازیں تھی جو باڑے وال بس کسی زمانے میں چڑھائی پر اترتے ہوئے نکالتی تھی.ایک روز قبل گاڑی کا دروازہ خیبر بازار میں خراب ہوگیا اور مسافروں کو گاڑی سے نکالنے کے احکامات آئے یعنی جس طرح حالات چل رہے ہیں اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ بی آر ٹی اب باڑے وال بس بن رہی ہیں
سال 2023 کے آغاز میں ترجمان بی ٹی آر کی جانب سے جو اعداد و شمار جاری کئے گئے ان کے مطابق 74 ملین کے قریب مسافروں نے بی آر ٹی میں سفر کیااگر یہ مسافر صرف پندرہ روپے کرایہ دیکر گئے ہوں تو پھر گیارہ ارب دس کروڑ روپے بی ٹی آر پشاور کی انتظامیہ نے مسافروں سے لئے ہیں، اور اگر یہی چوہتر ملین مسافر پچاس روپے کی سلپ لیکر گئے ہوں تو کم و بیش سینتیس ارب روپے سال 2022 میں بی آر ٹی نے مسافروں سے اٹھائے ہیں، اسی طرح سال 2022میں چارلاکھ کارڈ فروخت کرنے کا دعوی بھی کیا گیا ہے اور اگر یہ کارڈ ڈیڑھ سوروپے پر فروخت ہوئے ہوں تو کم و بیش ایک کھرب چودہ ارب روپے انہوں نے کارڈ کی مد میں حاصل کئے ہیں جبکہ کارڈ میں پچاس روپے ہر مسافر کے جمع کرنے کے بھی سینتیس ارب روپے بنتے ہیں یعنی سال 2022میں کھربوں اور اربوں کے دعویدار بی آر ٹی کا یہ حال ہے کہ گاڑی کا دروازہ خراب ہوا تو مسافروں کو نکالنا پڑا کیونکہ زیادہ مسافر آئے تھے، اسی طرح چڑھائی پر چڑھتے ہوئے جو آوازیں بی آر ٹی نکالنے لگی ہیں اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ انتظامیہ خود شائد اسے سکریپ بنا کر بیچنے کے چکر میں ہیں.رقم کی اعداد و شمار ترجمان بی آر ٹی نے جاری نہیں کیا البتہ ان کی جانب سے جاری اعداد و شمار پر راقم نے حساب کرکے بتا دیا کہ اربوں، کھربوں صرف ایک سال میں پیدا کرنے والے بی آر ٹی کی انتظامیہ کہہ رہی ہیں کہ ہم نے پرانے گاڑیاں سکریپ کردی ہیں اور باسٹھ نئی گاڑیاں منگوائی ہیں، سوال تو یہ ہے کہ بی آر ٹی جو اب مسافروں کی بھرمار اور انتظامیہ کی غفلت کے باعث سکریپ بننے جارہی ہیں اس کی طرف توجہ کون دے گا. اور اگر باسٹھ گاڑیاں آرہی ہیں تو یہ کہاں پر چلیں گی.خدارا مسافروں کی حالت پر رحم کریں اور بی آر ٹی کو باڑے وال بس بنانے سے گریز کریں کیونکہ لگ یہی رہا ہے کہ اب بی آر ٹی کے اندر "اوق " اور "اوق "کی آوازیں نکلیں گی
|