تحریر : محمد اسلم لودھی
مسلمان وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ سے کسی دوسرے مسلمان کو نقصان نہ پہنچے لیکن
عام دنوں کی بات تو چھوڑیں ماہ رمضان میں بھی مسجدوں اور بازاروں میں خود
کش اور بم دھماکوں کاسلسلہ نہیں رکا۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے سینکڑوں
مسلمان جام شہادت نوش کرگئے لیکن جن لوگوں نے بم اور خودکش دھماکے کئے
بدقسمتی سے وہ بھی خود کو مسلمان کہلواتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی
شان ہے کہ ایک انسان کی ناحق موت پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے
لیکن جنت کا وعدہ کرکے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو ورغلا کر بم اور خود کش
دھماکوں پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ماہ رمضان کا بابرکت مہینہ جیسے تیسے گزر
گیا اور قوم عید کی خوشیاں منا رہی ہے لیکن ماہ رمضان کے دوران جس طرح ہر
دوکاندار اور بزنس مین نے منافع کی شرح کو بڑھا کر مسلمان روزہ داروں کو
مہینے بھر لوٹا کیا وہ کسی رحم کے مستحق ہیں۔تجارت نبی کریم ﷺ کا پسندیدہ
پیشہ ہے تجارت میں بھی منافع کی ایک حد مقرر ہے ۔تھوک فروش ہوں یا پرچون
فروش۔ پھل فروش ہوں یا سبزی فروش ہر فروخت کرنے والا بطور خاص ماہ رمضان
میں روزہ داروں کی کھال اتارنے پر تلا ہوتا ہے ۔یوٹیلٹی سٹورز پر جس فریب
کاری سے پہلے پچیس فیصد قیمتیں بڑھا کر پھر دس فیصد کم کردی گئیں ۔اس فریب
کاری پر حکومت اور چودھری برادران کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔
پنجاب کی سطح پر ماہ رمضان میں سستے بازاروں کا بہت چرچا رہا لیکن ان سستے
بازاروں میں پولیس ٬ ٹاﺅن انتظامیہ اور دیگر معاونین کی منتھلیوں اور
اخراجات کا بوجھ بھی غریب صارفین اور روزے داروں پر ڈال کر قیمتوں کو آسمان
پر پہنچا دیاگیا پہلے جو چیز چالیس روپے فی کلو دستیاب تھی سستے رمضان
بازاروں میں اس کی قیمت 70/80 روپے کردی گئی ۔غیر مسلم بھی ماہ رمضان میں
روزے داروں کو رعایت دیتے ہیں لیکن بے رحم پاکستانی حکمرانوں نے بجلی کی ہر
گھنٹے بعد اور گیس کی افطاری کے وقت لوڈشیڈنگ کرکے روزہ داروں کا ناطقہ بند
کرکے خدا کے عذاب کو خود آواز دی ۔امید تھی کہ کراچی میں ہونے والا قتل عام
ماہ رمضان میں رک جائے گا کیونکہ عام دنوں کی نسبت ماہ رمضان میں ثواب بے
شمار کی طرح عذاب بھی بے حساب ہی قاتلوں کے حصے میں آتا ہے لیکن نہ ایم کیو
ایم ( جو بوری بند نعشوں کی شہرت کی بنا پر اپنا ثانی نہیں رکھتی بلکہ یہ
اسی کی ایجاد ہے ) نے بوریوں میں بند کرکے بےگناہ مسلمانوں کو مار نے میں
کوئی کسر چھوڑی اور نہ ہی اے این پی کے جھنڈے تلے پختوانخواہ اور پیپلز
پارٹی کی سرپرستی میں لیاری گینگ کے پیروکار نے مسلمانوں کے ساتھ انسانوں
والا سلوک کیا ۔ کیایہ شرم کی بات نہیں کہ صرف ماہ رمضان میں کراچی جیسے
شہر میں ڈیڑھ سو سے زائد مسلمانوں کو انتہائی وحشت اور درندگی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے قتل کردیاگیا۔ لوگ توموت کے فرشتے کو موت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں
لیکن کراچی میںخود کو فخریہ مسلمان کہلوانے والوں نے موت کے فرشتے کا کام
خود سنبھال رکھاہے جب جہاں اور جیسے چاہتے ہیں اغوا کرکے قتل کردیتے ہیں ۔کسی
کی نعش ملتی ہے کسی کی ملتی ہی نہیں اور گھروالوں کے زخم زندگی بھر نہیں
بھرتے ۔پنجاب میں اللہ کا شکر ہے کہ کراچی جیسے حالات تو نہیں ہیں لیکن
یہاں چوری ڈاکے کی وارداتوں میں کتنی ہی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں ۔پولیس
کی ملی بھگت یا حکومت پنجاب کی تغافلانہ پالیسی کی بدولت لاہور جیسے شہر
میں دن دھاڑے گھروں میں گھس کر لوٹ مار کرنے اور مزاحمت پر جان سے مار دینے
کا سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے ۔چھوٹے شہروں اور قصبوں میں جہاں پولیس مقامی
رسہ گیروں اور لٹیروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے وہاں کی صورت حال کیا ہوگی
اس کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔بلوچستان میں بطور خاص پنجابی مسلمانوں
کو جس طرح چن چن کر قتل کیا جارہا ہے انتہائی تکلیف دہ بات ہے ۔کوئی دن
ایسا نہیں جاتا جب کوئی ایسی خبر اخبارات میں شائع نہ ہوتی ہو۔مجال ہے
پنجاب کے ٹھیکے داروں میں کوئی شخص پنجابیوں کے قتل عام پر ہمدردی کے دو
آنسو ہی بہا دے۔ ہر شخص کے ہونٹ گویا سلے ہوں یہ بھی ہوسکتا ہے شاید پنجابی
مسلمانوں کو وہ انسان ہی نہ سمجھتے ہوں۔چودھری برادرن ٬اور پیپلز پارٹی کے
بابر اعوان ٬ راجہ ریاض جیسے چرب زبان وزیر و مشیر وں کی زبانیں گنگ ہوجاتی
ہیں۔انہیں تخت لاہور میں تو بے پناہ خامیاں دکھائی دیتی ہیں لیکن بلوچستان
میں مرنے والے پنجابیوں کی نعشیں ان کے مردہ ضمیر کو نہیں جھنجوڑ پاتیں ۔یہی
وجہ ہے کہ خود کو پاکستان کا محافظ کہنے والا پنجابی آج ہر جگہ ملک دشمنوں
اور دہشت گردوں کے نرغے میں آکر جانی و مالی نقصان اٹھا رہا ہے ۔دو قومی
نظریہ جس کی بنیاد پر یہ وطن آزاد کرایا گیا تھا اس میں نہ کوئی پنجابی
سندھی تھا نہ کوئی پٹھان اوربلوچی ۔سب مسلمان تھے لیکن آج بڑھتی ہوئی فرقہ
پرستی ٬ قومیت پرستی کے آسیب نے دو قومی نظریے کو تباہ کرنے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی ۔بلوچستان میں پنجابی ٬ کراچی میں مہاجروں٬ پختونوں اور سندھیوں
کو قتل کرنے والے کیا مسلمان کہلوانے کے حقدار ہیں ۔خیبر پختونخواہ میں
مسجدوں میں خودکش دھماکے کرکے محب وطن پختونوں کو شہید کرنے والے کیا خود
کو مسلمان کہہ سکتے ہیں ہر گز نہیں۔قرآن پاک میں ہے مرنے کے بعد جب انسان
سے پوچھا جائے گا کہ تم دنیا میں کتنا عرصہ رہے تو وہ کہے گا ایک دن یا اس
سے بھی کم ۔کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ اتنی کم مدت کی زندگی کو بھی انسان
بے گناہ انسانوں کو مارکر اپنی چودھراہٹ قائم کرنے پر بضد ہوچکا ہے ۔انسان
کیوں بھول جاتا ہے کہ اس نے ایک نہ ایک اپنے رب کے حضور پیش بھی ہونا ہے
کیا مسلمانوں کو ناحق قتل کرنے والے ٬ کیا ماہ رمضان میں ناجائز منافع خوری
کرکے روزہ داروں کو لوٹنے والے ٬ بجلی اور گیس کی بے تحاشالوڈشیڈنگ کرنے
والے حکمران اپنے رب کو کیا منہ دکھائیں گے ۔جب نامہ اعمال ان کے ہاتھ میں
دیاجائے گا تو التجا بھرے لہجے میں کہیں گے ہمارے رب ہمیں معاف کردے اللہ
تعالٰی اپنے حقوق تو معاف کردیتا ہے لیکن اپنے بندوں پر ہونے والے مظالم ٬
تکلفیوں اور ناحق قتل و غارت گری کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اور فرمائے گا
میں اپنے بندوں کو ستر ماﺅں جتنا پیار کرتا ہوں۔کیا تمہیں مسجدوں میں گھس
کر خود کش دھماکہ کرتے ہوئے میرے قہر کا خوف نہیں آیا ۔مسجدوں میں آنے والے
تو میرے مہمان ہوتے ہیں لیکن تم نے انتہائی بے دردی سے ان کے جسموں کے
پرخچے اڑا دیئے ۔کیا تم اس قابل ہو کہ تم پر رحم کیا جائے ہر گزنہیں ۔پھر
ایسے لوگ مسلمان ہونے کے باوجود جہنم کی آگ میں ہمیشہ جلیں گے ۔پاکستان 9
لاکھ مسلمانوں کی جانی و مالی قربانیوں کے بعد حاصل کیاگیا ہے ۔1965 کی جنگ
ہو یا 1971 کی ۔ معرکہ کارگل ہو یا نام نہاد دہشت گردی کی جنگ ہر مشکل گھڑی
میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنے لہو سے وطن عزیز کی حفاظت کی ہے
لیکن ہزاروں فوجی جوانوں نے جذبہ ایمانی سے بھارت جیسے عیار دشمن کو شکست
فاش سے ہمکنار کیا تھا۔ بھارت تو اس ملک کو فتح نہیں کرسکا لیکن آج وہی ملک
فرقوں ٬ عسکری گروپوں ٬ ڈکیتوں ٬ چوروں لیٹروں اور منافع خوروں کے رحم و
کرم پر دکھائی دیتا ہے ۔اس صورت حال پر ہر محب وطن خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ذوالفقار
مرزا نے 28 اگست 2011 کی شام کراچی میں امریکہ اور ایم کیو ایم کے بارے میں
جو انکشافات کئے ہیں ان کی لاکھ تردید کی جائے لیکن وہ سو فیصد سچ ہیں نہ
امریکہ پاکستان کو کبھی متحد ٬ طاقتور اور آزاد دیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی
ایم کیو ایم کبھی پاکستان کی وفا دار ہوسکتی ہے اس نے کراچی کے 50 لاکھ
اردو بولنے والوں کو جس طرح اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ رکھاہے ان کو کوئی بھی
رہا نہیں کراسکتا کیونکہ ہر پاکستانی حکمران ان کے اشاروں پر ناچنے اور ان
کے ہاتھوں بلیک میل ہونے پر مجبور ہے ۔یہی صورت حال اے این پی کی ہے وہ بھی
پریشر گروپ کا روپ دھار کر ہر صوبے اور شہر میں پختون خواہ بنانے اور
پاکستان کو توڑنے کے لیے پر عزم دکھائی دیتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کو
پاکستان سے نہیں صرف سندھ سے محبت ہے اس کا اظہار ایوان صدر میں بیٹھ کر
سندھی ٹوپی پہننے والے صدر سے زیادہ اور کون کرسکتا ہے جس کی جیب میںہر وقت
سندھ کارڈ رہتا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہم خود کو مسلمان کہلوانے کے حقدار
نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ایک قوم رہے ہیں بلکہ تقسیم در تقسیم ٬ فرقہ پرستی
اور قومیت پرستی میں تمام حدیں پھلانگ جانا چاہتے ہیں۔ |