|
|
جسے اللہ چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے اللہ چاہتا
ہے ذلت دیتا ہے ۔ یہ وہ وعدہ ہے جو اللہ نے اس دنیا کے ہر انسان کے ساتھ
کیا ہے۔ محمد علی کلے ایسا ہی ایک انسان ہے جس کو اللہ نے دنیا بھر کے
انسانوں میں خضوصی عزت و شہرت سے نوازہ- |
|
محمد علی
کلے ایک عظیم انسان اور کامیاب باکسر |
محمد علی کلے کا پیدائشی نام کیسین ماوسیلیس
کلے تھا اور وہ 1942 میں پیدا ہوئے ۔ان کا شمار دنیا کے عظیم ترین باکسرز
میں ہوتا ہے انہوں نے تین بار دنیا کے ہیوی ویٹ باکسر ہونے کا اعزاز بھی
حاصل کیا۔ ان کی کامیابی اور شہرت کے سفر کا آغاز 1960 میں امریکہ کے لیے
اولمپک میں سونے کا میڈل جیتنے کے بعد ہوا مگر یہ تمغہ جیتنے کے باوجود جب
ان کے سیاہ فام ہونے پر نسلی امتیاز کا سلوک کیا گیا اور ان کو ایک
ریستوران میں نوکری دینے سے منع کیا تو انہوں نے اس تمغے کو دریا اوہائيو
میں بہا دیا۔ اس واقعے نے انہیں دنیا بھر میں مشہور کر دیا- |
|
جنگ ویتنام
میں شرکت سے انکار |
محمد علی کلے بہت مضبوط اصول و نظریات کے
حامل انسان تھے امریکہ کی ویت نام کے خلاف جنگ میں جب حکومت نے انہیں فوج
میں بھرتی ہونے کا حکم دیا تو انہوں نے اس جنگ میں معصوم افراد کے خلاف
لڑنے سے انکار کر دیا- جس پر حکومت نے ان کو پانچ سال قید کی سزا سنائی مگر
اپنی مقبولیت اور عوامی احتجاج کے سبب عدالت کو ان کی یہ سزا ختم کرنی پڑی- |
|
|
|
اسلام کی دعوت سے سرفراز
|
محمد علی کلے کی کامیابیوں کا جو سلسلہ 1960 سے شروع ہوا
تھا وہ 1975 تک انتہائی آب و تاب سے جاری رہا اور انہوں نے بڑے بڑے باکسرز
کو چیلنج کر کے ان کو شکست دی- سال 1975 اس حوالے سے ان کے لیے بہت اہم رہا
کہ اس سال انہوں نے باقاعدہ اسلام قبول کرنے کا اعلان کر کے اپنا نام تبدیل
کر کے محمد علی کلے رکھ لیا- |
|
ریٹائرمنٹ |
محمد علی کلے کے کھیل کو اور کامیابیوں کے سفر کو دیکھ
کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ صرف باکسنگ کے رنگ ہی میں نہیں بلکہ معاشرے کی
ہر جنگ میں جیتنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں- مگر سال 1976 کے بعد سے ان کے لیے
مشکلات میں بڑھتی ہوئی عمر کے سبب اضافہ ہونے لگا- یہاں تک کہ چالیس سال کی
عمر میں سال 1980 میں پارکنسزم یعلی رعشہ کی بیماری کے سبب انہوں نے کھیل
کے میدان سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا- |
|
اداکار نہ
ہونے کے باوجود سیلیبریٹی کی طرح پزیرائی |
محمد علی صرف ایک باکسر ہی نہیں بلکہ
ایک انسانی حقوق کے نمائندے ایک باغی ایک انٹرٹینر کے طور پر اور ایک شاعر
کے طور پر بھی پہچانے جاتے تھے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلم دنیا میں بھی
ان کے لیے عزت اور محبت میں بہت اضافہ ہوا اور سیاہ فام افراد کے لیے نسلی
تعصب کے خلاف علم اٹھانے کے سبب ان کو افریقی ممالک میں بھی بہت عزت کی نظر
سے دیکھا جاتا تھا- دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے ہر براعظم
میں نہ صرف ان کو پہچانا جاتا تھا بلکہ ایک سیلیبریٹی کی طرح چاہا بھی جاتا
تھا- |
|
واک آف فیم میں
شمولیت |
ان کی اسی کامیابی اور شہرت کو دیکھتے ہوئے
ہالی وڈ کی انتظامیہ نے ان کے نام کو واک آف فیم میں شامل کرنے کا فیصلہ
کیا۔ جس میں دنیا بھر کے شوبز سے تعلق رکھنے والے 6801 افراد شامل تھے واک
آف فیم میں ایک مخصوص علاقے میں مشہور ترین افراد کا نام ایک ستارے کے ساتھ
اس راستے میں آویزاں کیا جاتا ہے تاکہ دنیا کو ان کے کارناموں کے بارے میں
پتہ چل سکے- |
|
|
|
دنیا بھر سے لوگ اس جگہ آتے ہیں اور ان لوگوں
کے ستارے کے ساتھ تصاویر کھنچوا کر ان کو خراج تحسین پیس کرتے ہیں- |
|
میرا نام زمین
پر نہ لگایا جائے |
جب واک آف فیم کی انتظامیہ نے اس حوالے سے محمد
علی کلے سے رابطہ کیا تو یہ ایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہونے کے سبب ان کا
خیال تھا کہ محمد علی کلے اس اعزاز کو بخوشی قبول کریں گے- |
|
مگر ہمیشہ کے باغی محمد علی کلے نے ایک عجیب
شرط رکھ کر انتظامیہ کو مشکل سے دوچار کر دیا اس موقع پر محمد علی کلے کا
کہنا تھا کہ ان کے نام میں چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضری علی کرم
اللہ وجہہ کا نام آتا ہے- اس وجہ سے وہ ان دونوں ناموں کو زمین پر ستارے کے
ساتھ لگانا عزت کے بجائے بے عزتی تصور کرتے ہیں- اس وجہ سے ان کا نام یہاں
نہ لگایا جائے کہ لوگ اس پر پیر رکھ کر گزریں- |
|
انتظامیہ کا
انوکھا فیصلہ |
اس موقع پر انتظامیہ کا یہ کہنا تھا کہ محمد
علی کلے صرف ایک کھلاڑی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم انسان اور ایک بہترین انٹر
ٹینر بھی تھے اور ان کے نام کے بغیر واک آف فیم مکمل نہیں ہو سکتا ہے- اس
وجہ سے انہوں نے محمد علی کلے کا نام راستے پر زمین پر آویزاں کرنے کے
بجائے ان کے نام کو ایک دیوار پر ستارے کے ساتھ لگا دیا جو کہ تاریخ میں
ایک مثال بن گیا- |
|
سال 2002 کے بعد سےاب تک لوگ اس جگہ پر آتے ہیں
اور باقی تمام سیلیبریٹیز کے نام جو زمین پر لگے ہیں وہیں دیوار پر محمد
علی کلے کے نام کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان سے اپنی محبت اور عزت کا
اظہار کرتے ہیں- سچ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے
ذلت دیتا ہےمحمد علی کلے کا انتقال سال 2016 میں ہوا مگر اب تک ان جیسا
عظیم کھلاڑی پیدا نہ ہو سکا- |