کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کرنے کا نیا سلسلہ

 مقبوضہ جموں و کشمیر میں، مودی کی زیرقیادت فاشسٹ قابض حکومت نے بھارتی ہندو انتہا پسندوں کو 50لاکھ سے زیادہ ڈومیسائل اسناد جاری کرنے کے بعدکشمیریوں کی جائیدادوں کو ضبط کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ خطے میں مزید ہندو آبادی کو بسانے کے لئے وادی کے پہلگام، اسلام آباد،جموں کے بھٹنڈی اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کی تعمیرات کو مسمار کرتے ہوئے کشمیری خانہ بدوش آبادی کو بے دخل کرنے کا عمل بھی تیز کر دیا ہے۔منہدم کی گئی تعمیرات جنگلات کے قریب گجر اور بکروال برادری کی ہیں۔ ان میں مکانات، کوٹھے، ڈھوک، بہکیں، جھونپڑیاں اور شیڈز شامل ہیں۔مقبوضہ ریاست کو دہلی کے زیر قبضہ کالونی قرار دینے کے بعد سے مقبوضہ خطے میں بھارت طاقت اور اپنے من مانے ظالمانہ قوانین کے سہاراے مقبوضہ ریاست پر قبضہ جما رہا ہے تا کہ یہاں مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔

قابض حکام جماعت اسلامی سے وابستہ افراد اور دیگر حریت پسندوں کے گھروں پر قبضہ کر رہے ہیں، جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ضبطی کی تازہ ترین لہراس وقت آئی جب ریاستی تحقیقاتی ایجنسی کی سفارش پر کم از کم 20 جائیدادیں ضبط کی گئیں۔ مزید درجنوں جائیدادوں کو ضبطی کا نشانہ بنانے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔مزید ڈرامائی کارروائیوں میں سے ایک میں، بھارتی فورسز کو 20 دسمبر کو سری نگر کے ایک محلے میں ایک دو منزلہ مکان پر قبضے کے لیے الرٹ پر رکھا گیا تھا جو کہ کسی زمانے میں بابائے حریت سید علی گیلانی کا گھر تھا، جو گزشتہ سال انتقال کر گئے تھے۔.یہ چھاپہ ہندوستان کی دہشت گردی کی تحقیقات کرنے والی تنظیم نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے مقامی ٹاسک فورس پولیس کی موجودگی میں مارا۔قابض بھارتی انتظامیہ نے مارچ 2019 میں انسداد دہشت گردی کے کالے قوانین کے تحت جماعت اسلامی پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کر دی۔ 1941 میں ایک اسلامی اصلاحی تحریک کے طور پر قائم ہونے والی اس تنظیم پر ''بھارت مخالف عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ قریبی رابطے'' ، وادی کشمیر میں ''آزادی پسند تحریک کو بڑھانے'' کے لئے کام کرنے کا الزام لگایا گیا۔جماعت ان الزامات کی تردید کرتی ہے کہ یہ ایک سماجی، سیاسی اور مذہبی تنظیم ہے جس کا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔2019 میں جب ہندوستانی حکومت نے کشمیر کی محدود خودمختاری کو منسوخ کر دیا تو این آئی اے اس کو حاصل کردہ بے لگام اختیار کے تحت چھاپے مار رہی ہے۔ تب سے، ایجنسی نے آزادی پسند عسکریت پسندوں کو کچلنے کی کوشش میں پوری وادی میں چھاپے مارے ہیں ۔تازہ ترین املاک پر قبضے ایک نئی تشکیل شدہ مقامی پولیس فورس کے ذریعہ کئے گئے جسے ریاستی تفتیشی ایجنسی کہا جاتا ہے۔18 دسمبر کو، ایس آئی اے نے کہا کہ وادی کے کئی اضلاع میں ایک ارب بھارتی روپے(دو ارب سے زیادہ پاکسانی کرنسی) مالیت کی جائیدادیں ضبط کی گئیں۔ ایجنسی نے یہ بھی کہا کہ اس نے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی 188 جائیدادوں کی نشاندہی کی جنہیں یا تو ''مطلع کر دیا گیا ہے یا مزید قانونی کارروائی کے لیے مطلع کیا جا رہا ہے۔''

قابض فورسز دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ ''جہاں بھی انکاؤنٹر ہوگا یا جس جگہ کو ٹھکانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہو، لوگوں کی تمام جائیدادوں پر قبضہ کر لیا جائے گا۔مجاہدین کو پناہ دینے پر جائیداد ضبط کر لی جائیں گی۔‘‘معروف آزادی پسند رہنما شبیر احمد شاہ کے گھر کو گزشتہ سال 4 نومبر کو ضبط کیا گیا۔ دو منزلہ مکان کو شبیر احمد شاہ اپنے دفتر کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ قابض فورسز یہ بھی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر کسی گھر یا دیگر ڈھانچے میں ''مجاہدین کا زبردستی داخلہ'' ہوتا ہے، تو گھر کے مالک یا کسی دوسرے رکن کو کو فوری طور پر حکام کو مطلع کرنا چاہیے،جو ایسے مخبروں کی شناخت چھپانے کے لیے انتظامات کریں گے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاست کی طرف سے کسی بھی جائیداد کو ضبط کرنا تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب عدالت اس بات کا تعین کرے کہ جائیداد کسی غیر قانونی تنظیم کی ہے۔مگر بھارتی قابض حکومت من مانی کر رہی ہے۔وہ کسی قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کرتی۔

نسیمہ بیگم مقامی عدالت میں منصفانہ ٹرائل کی امید رکھتی ہیں۔ان کے گھر کو مقامی قابض انتظامیہ نے عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کے الزام میں منسلک کر دیا ۔ 55 سالہ نسیمہ بیگم گھر کے باورچی خانے میں اکیلی بیٹھی تھی جہاں وہ اب رہ رہی ہیں، بیگم نے کہا کہ ان کے خاندان پر عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام تھا جو ستمبر 2020 میں سری نگر میں ایک فائرنگ کے دوران شہید کئے گئے۔پولیس نے کہا کہ ایک عسکریت پسند ان کے گھر سے ملحقہ گلی میں مارا گیا اور باقی دو لان میں۔ آدھی رات کے چھاپے کے دوران پولیس کے دروازے پر دستک دینے کے بعد اس کا خاندان گھر سے نکل گیا۔ان کے خاندان کے کسی فرد کا عسکریت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ان کے تین بیٹوں کو ''عسکریت پسندوں کے ہمدرد'' ہونے کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کے چھوٹے بیٹے کے دورہ پاکستان کے بعد یہ انتقامی کارروائی تھی۔وہ اپنی بہن کے پاکستان میں میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے آئے تھے۔

جائیدادوں پر قبضے نے نہ صرف کشمیر میں ہندوستانی حکمرانی کے ناقدین بلکہ نئی دہلی کی حمایت یافتہ ریاستی انتظامیہ سے وابستہ لوگوں کی طرف سے بھی اعتراضات اٹھائے ہیں۔ ان میں محبوبہ مفتی، جو کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی موجودہ چیئرپرسن ہیں، نے اس اقدام کو ''کشمیر کے لوگوں کی اجتماعی سزا'' قرار دیا۔''میں اسے 5 اگست 2019 کے غیر جمہوری اقدام کے بعد انتقام کے طور پر دیکھتی ہوں،'' ۔ وہ سوال کر رہی ہیں کہ ''کل اگر فورسز کوپتہ چلا کہ کسی کے دادا جماعت اسلامی کے رکن تھے، تو کیا وہ اس جائیداد کو بھی ضبط کر لیں گے؟ آج یہ کسی کے ساتھ ہو رہا ہے اور کل کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘قابض حکام نے جماعت اسلامی کی کم از کم 20 مزید جائیدادیں ضبط کر لیں ہیں۔یہ جائیدادیں وادی کشمیر کے مختلف اضلاع میں نئی دہلی کے زیر کنٹرول ریاستی تحقیقاتی ایجنسی (SIA) کی سفارشات پر ضبط کی جا رہی ہیں۔ اس اقدام کا مقصد کشمیریوں کی جاری تحریک آزادی میں جماعت کے کردارکو نشانہ بنانا ہے۔ایس آئی اے مقبوضہ علاقے کے سری نگر، بڈگام، پلوامہ اور کولگام اضلاع کے مختلف علاقوں میں بھی چھاپے مار رہی ہے۔ضلع مجسٹریٹ سری نگر نے پہلے ہی جماعت اسلامی کی تین جائیدادوں اور تحریک آزادی کشمیر کے آئیکن سید علی گیلانی شہید کے دو منزلہ مکان کو سیل کرنے کا حکم دیا جو سری نگر کے علاقے برزلہ میں واقع ہے۔قابض سٹیٹ ایجنسی نے 188 جائیدادوں کی نشاندہی کی ہے جو یا تو ضبط کر لی گئی ہیں یا ضبط کی جا رہی ہیں۔ان اقدامات کا مقصد کشمیریوں کی تحریک کو کچلنا ہے۔مگر عوام میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔بھارتی جابرانہ اقدام کشمیریوں کو جدوجہد سے دستبردار نہیں کر سکتا۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555429 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More