2022میں کشمیر بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار رہا

سال2022بھی گزر گیا۔جوکبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔2022کو جانے اور 2023کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔گزرتے وقت کو کوئی روک نہیں سکا ہے۔ آنے والے وقت کے سامنے سینے تان کرکوئی کھڑا نہیں رہ سکا۔ یہی زمانہ ہے۔ زمانہ برا نہیں ہوتا۔ یہ لمحہ بہ لمحہ گزرتاہے۔ ہر لمحہ ہم سے دائمی جدا ہو رہا ہے۔ یہی زمانہ ہے کہ جس کی قسم اﷲ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔ گزشتہ سال بھی گزشتہ برسوں کی ہی طرح بیت گیا۔ دنیا میں بعض نئے اور انوکھے واقعات رونما ہوئے۔ کشمیر بھی ان نئے واقعات سے بچ نہ پایا۔کشمیر میں 2022ہندوؤں کی آبادکاری،ہنگاموں، دھاندلیوں، انکشافات، کشمیریوں کی نسل کشی، فرضی جھڑپوں کا سال رہا۔کشمیری فرضی جھڑپوں،پیلٹ اور پاوا فائرنگ سمیت مار دھاڑ، گرفتاریوں کا سامناکرتے رہے۔اس طرح کشمیر کی غلامی کا ایک اور سال گزر گیا۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک جاری رہی، بلکہ اس میں بعض حوالوں سے شدت آگئی۔مقبوضہ ریاست میں بہت زیادہ خونریزی اور تباہی ہوئی۔ ریاستی دہشتگردی میں بہت اضافہ ہوا۔ اگر کٹھ پتلی حکومت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق سال2022کو32 نہتے اور معصوم شہری تھمارے گئے۔قابض بھارتی فورسز نے 180مجاہدین کو شہید کرنے کا دعوی کیا۔ بھارت نے 125فورسزاہلکاروں کی ہلاکت کا اعتراف کیا۔4شہریوں کو بھارتی فورسز نے کراس فائرنگ کی آڑ میں شہید کیا ۔ یہ لوگ کشمیری عوام کی جانب سے مجاہدین کی آپریشنز کے دوران معاونت کی سزا یا بھارتی انتقام کے بھنیٹ چڑھ گئے۔ جب بھارتی فورسز نے شہری آبادیوں میں مجاہدین کے خلاف آپعریشنز کئے تو مجاہدین کو محصور کر دیا گیا۔ جنھیں بھارتی فورسز کے چنگل سے بچانے کے لئے چاروں اطراف سے لوگ وہاں پہنچے ۔ عوام نے محاصرہ کرنے والے فوجیوں کا محاصرہ کیا اور ان پر سنگ بازی شروع کی۔ لوگوں نے فوجیوں پر ڈنڈوں سے حملے کئے۔ مجاہدین کے ساتھ بڑھتی ہوئی عوامی معاونت سے خوفزدہ ہو کر بھارتی حکومت نے عوام کو سبق سکھانے کی حکمت عملی اپنائیْ۔ فوجیوں نے اس پر عمل کرتے ہوئے لا تعداد خواتین، بچوں، اور نوجوانوں کو ان کے گھروں میں یا پھر بازاروں، کھیتوں میں گولیاں مار کر شہید کیا۔سال رفتہ میں بھی عوام نے بھارتی فورسز کے خلاف جھڑپوں کے مقامات پر پہنچ کر شدید مظاہرے کئے ۔جس دوران بھارتی اہلکاروں نے نہتے افراد کو پیلٹ اور پاوا فائرنگ اور براہ راست نشانہ باندھ کر شہید کیا۔ یا انہیں عمر بھر کے لئے معذور بنا دیا۔ ہزاروں افردا اور طلباء و طالبات کو پہلے ہی پیلٹ فائرنگ سے نا بینا اور اپاہج بنا دیا گیا۔ شہید شہریوں میں جنگ بندی لکیر اور ورکنگ باؤنڈری میں جاں بحق ہونے والے بھی شامل ہیں۔

بھارت نے آزادی پسندوں کے خلاف آپریشن تیز کئے۔کئی شہریوں پر مجاہدین کے ساتھ تعاون کا الزام لگا کر ان کے گھر بلڈوز کر دیئے جن میں حزب المجاہدین کے کمانڈر غلام نبی خان المعروف عامر خان بھی شامل ہیں۔ ان کا پہلگام میں گھر زمین بوس کر دیا گیا۔مرحوم سید علی شاہ گیلانی صاحب سمیت درجنوں آزادی پسندوں کی جائدادیں ضبط کی گئیں۔ مگر یہ آپریشن نہتے عوام پر مظالم اور شہری ہلاکتوں بڑھانے کا باعث بن گیا۔ آپریشن میں بھارتی ریگولر فوج، راشٹریہ رائفکز، سی آر پی ایف، پولیس ٹاسک فورسز وغیرہ بھی شامل تھے۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت مجاہدین سے خوفزدہ رہی۔ یوں تو یہ سال روزانہ کی بنیاد پر تشدد اور ماردھاڑ کا سال ثابت ہوا۔ مگر مجاہدین اور عوام کے درمیان تعلق مضبوط ہوا۔ آزادی پسندی کی نئی روایت پڑی۔ مشترکہ آپریشن کے باوجود بھارت کو کامیابی نہ ملی۔ جب کہ شہید مجاہدین کے جنازوں میں عوام کی بھاری شرکت نے بھارت کو مزید بوکھلاہٹ کا شکار کیا۔سال میں بھارت نے مجاہدین کو قتل کرنے کے بعد ان کے جسد خاکی ورثاء سے چھین کر دور دراز علاقوں یا جنگلوں و بیابانوں میں گڑھے کھود کر ان میں ڈال دیئے۔ اس سال بھی بھارتی فورسز نے شہروں اور دیہات کے کریک ڈاؤن کئے۔ نوجوانوں کی شناختی پریڈیں کی گئیں۔ ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔

بی جے پی کی مودی حکومت نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند رکھے۔ اس کا امریکہ سے رومانس صدر ٹرمپ کے جانے کے بعد کچھ کم ہوا۔بھارتی فورسز نے اس سال انسانی حقوق کی پامالیاں جاری رکھیں۔ لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا۔ بلکہ کھڑی اور کٹی فصلوں کو نذ آتش کر دیا گیا۔ تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے فورسز نے کرفیو لگائے، پابندیاں عائد کیں، میڈیا کو ہراساں کیا۔ سوشل میڈیا پر پابندی لگائی۔ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کو بند کیا۔ بھارت نے اس سال بھی آزادی پسندوں کو حراست میں رکھا۔ این آئی اے نے آزادی پسندوں پر مالی سکینڈلز کے الزامات لگائے اور دہلی بلا کر انہیں خوفزدہ کیا گیا اورگرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد پر تالے لگا دیئے گئے۔ یہاں تک کہ ناکہ بندی کی وجہ سے نماز جمعہ ادا نہ کی جا سکی۔ بھارت نے جموں خطے کے لئے مزید چھ اسمبلی نشستیں دیں اور کشمیر کو صرف ایک دی گئی حالانکہ کشمیر کی آبادی جموں سے 15لاکھ زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2022کو ایک کروڑ62لاکھ سیاح مقبوضہ کشمیر گئے۔جن میں سے19ہزار سیاح غیر ملکی تھے۔سال2023کے آمد نئی امید پیدا کرتی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہدعسکری، سفارتی اور مختلف محازوں پر مضبوط ہو گی۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555592 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More