پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے حوالے سے دعوے تو سبھی
سیاستدان برسرعام کرتے رہے ہیں،ہر نیا حکمران آتے ہی حقیقی جمہوریت لانے کی
خبر سناتا ہے،جانے والی حکومت پر غیرجمہوری اقدام کے الزامات لگائے جاتے
ہیں،گزشتہ برس 2022ء میں ہی دیکھ لیں دو حکومتوں کے ادوار میں مختلف کچھ
بھی نہیں ہوسکا پھر بھی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے لامحدود سلسلے پھیلے
ہوئے ہیں،جمہوریت کی تشریح کرنے والے کہتے ہیں کہ جمہوریت ایک طرز حکومت ہے
جسے آسان الفاظ میں عوام کی حکومت کہا جا سکتا ہے۔ آمریت کے برخلاف اس طرز
حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ جمہوریت کی دو بڑی قسمیں
ہیں:
،،،بلا واسطہ جمہوریت اور بالواسطہ جمہوریت۔،،،،
بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے
ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے جہاں ریاست کا
رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا
ممکن ہو۔ اس طرز کی جمہوریت قدیم یونان کی شہری مملکتوں میں موجود تھی اور
موجودہ دور میں یہ طرز جمہوریت سوئٹیزلینڈ کے چند شہروں اور امریکا میں نیو
انگلینڈ کی چند بلدیات تک محدود ہے۔جمہوریت میں حکومت کی ایک ایسی حالت جس
میں عوام کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے''۔ یونانی مفکر
ہیروڈوٹس نے جمہوریت کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے کہ: ''جمہوریت ایک ایسی
حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے
کو حاصل ہوتے ہیں''۔جمہوریت کے حوالے سے آج کی دنیا میں کیا ہورہا ہے اس پر
جمہوریت اور انسانی حقوق کی غیرسرکاری تنظیم فریڈم ہاؤس جو ہر سال اپنی
جائزہ رپورٹ شائع کرتی ہے اس نے گزرے دس برسوں میں جو جائزہ رپورٹس شائع کی
ہیں ان میں جمہوری اور انسانی حقوق کی پامالی کے عمل میں فوجی حکمرانوں کی
جاری کارروائیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے دنیا کے کئی ممالک میں حقیقی
جمہوریت کی پامالی قرار دیا ہے،کئی ممالک میں جمہوریت کے نام پر مسلط آمریت
کے خلاف جاری تحریکوں کو تقویت دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔جمہوریت کے
استحکام اور جمہوریت کی روایات کو فروغ دینے کے لئیتحریر اور تقریر کی
آزادی ضروری ہے۔ فریڈم آف پریس کا نظریہ 1790ء میں سوئیڈن میں پروان چڑھا۔
دُوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے عالمی حقوق انسانی چارٹر کی ترتیب
نے فرد کے سوچنے، لکھنے، بولنے کی آزادی کو فروغ دیا۔ اقوام متحدہ کے
عالمگیر اعلان، انسانی حقوق کا عالمی اعلان اور آفاقی اعلان جیسے اقدام
ریگستان میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کے مترادف ہیں۔ جمہوری روایات اور مذکورہ
عالمی چارٹرز بڑی حد تک انسانی آزادی کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتے
ہیں-پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے حوالے سے دیکھا جائے تو ملک میں زیادہ
عرصہ آمریت رہی ُ اور پھر آمریت کی کوکھ سے جنم لیتی جعلی جمہوریتوں کے
مختلف انداز میں مارشلاؤں کا چلن ہی فروغ پاتا رہا!پاکستان میں بھی ہر
سیاسی جماعت جمہوریت کے گن گاتی ہے، خود کو جمہوری نظام کا علمبردار کہتی
ہے اور اس مقصد کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا ذکر فخر سے کرتی ہے۔ آخری
فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف تو اتنے جمہوریت نواز نکلے کہ انہوں نے
سویلینز کی ’جعلی جمہوریت‘ کو اصل سے بدلنے کا بیڑا اٹھا لیا اور اس کوشش
میں سبھی جمہوری جماعتوں کے بہت سے رکن بھی ان کے ساتھ ہو گئے-ان حالات میں
کئی حکومتوں کے تبدیل ہونے پر بھی عوام کے لئے کوئی ریلیف دینے کی صورت
پیدا نہ ہوسکی اس حوالے سے بلاشبہ سارے ہی آنے والے حکمران جانے والی
حکومتوں کی نام نہاد جمہوریت کے بارے میں سچ بولتے ہیں مگر یہ آدھا سچ ہوتا
ہے -کیونکہ ہر آنے والی حکومت صرف جانے والی حکومت کا ہی کچا چٹھا کھول کر
بیان کرتی ہے،کوئی حکومت اپنے دور کی حقیقت سے عوام کو آشکار کیوں نہیں
کرتی،اپنی بے بسی کا رونا حکومت جانے پر ہی رویا جاتا ہے،اس وقت جب حالات
اس کی دسترس میں ہونے کا یقین ہوتا ہے تو پھر اقتدار بچانے کی خاطر سچ کو
چھپا لینے کے حیلے کیوں تلاش کرلئے جاتے ہیں،آج جب یہ حکومت برسر اقتدار ہے
تو پھر پورا سچ کیوں نہیں بولتی،پنجاب میں ہرطرح سے سرگرم رہنے والے
وزیراعلیٰ پورے ملک کے وزیراعظم منتخب ہونے پر بھی عوام کے خادم اعلیٰ کے
ٹائٹل کیساتھ ماضی والی سرگرمی دکھاتے ہوئے عوام کو حقیقی ریلیف دینے کی
واضح صورت پیدا کرنے کی کاوش کرتے کیوں نظر نہیں آتے؟۔عوام کو براہ راست
ریلیف دینے کا نام ہی تو جمہوریت ہے اگر عوام کو ریلیف نہیں ملے گا تو پھر
کیسی جمہوریت؟
|