فحاشی و عریانی معاشرتی برائیاں

اﷲ تبارک و تعالیٰ جہاں عدل و انصاف اور صلہ رحمی کا حکم فر ماتا ہے وہاں ظلم و زیادتی اور بے حیائی کے کاموں سے منع فرماتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے اﷲ تعالیٰ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو( النحل،90)ہر قبیحہ خصلت جس کی برائی عقلی اور قانونی طور پر خراب ہو جس سے اﷲ تعالیٰ منع فرمائے وہ فاحشہ یا فحشاء کہلاتی ہے اسلئے ان اعمال سے بھی روکا گیا ہے ایسے لباس کے استعمال سے بھی منع کیا گیا ہے جو جسم کی نمائش کرے کیونکہ اس سے جنسی اشتعال پیدا ہوتا ہے جو برائی کی طرف دھکیلتا ہے۔ فحاشی ، عریانی ، جنسی اشتعال انگیزی اورجرائم کی ہر خلاف ورزی برائی ہے جس سے اﷲ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔فحاشی کو فروغ دینے والوں کو اﷲ تعالی نے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے،یہی وجہ ہے کہ اس وقت امت مسلمہ اور بالخصوص مسلمانان پاکستان جس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں وہ پوری دنیا جانتی ہے وطن عزیز میں قتل و غارت گری، لوٹ مار، کرپشن، مہنگائی، سیلاب، طوفان، بے پردگی ،بے حیائی، ہمارے لیے پریشان کن ہے ‘‘اگر کوئی قوم بے حیائی میں مبتلا ہو کر کھلم کھلا اس کا ارتکاب کرنے لگے تو اس قوم میں طاعون اور وہ بیماریاں پھیل جاتی ہیں جن کا نام ماضی میں نہ سنا گیا ہوں’’(سنن ابن ماجہ)تو آج ہم دیکھتے ہیں کہ جب معاشرے میں حیا ناپید ہوتی جا رہی ہے اور بے حیائی کا سیلاب ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا تو کیسے کیسے اخلاقی جرائم سر اٹھا رہے ہیں، اپنوں اور غیروں کا فرق تک ختم ہوگیا ہے۔ بے حیائی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ سگی بہن اپنے بھائی سے اور سگی بیٹی اپنے باپ تک سے محفوظ نہیں ہے آخر یہ معاشرہ کس طرف جا رہا ہے؟ کوئی اس معاشرے کو دیکھ کر نہیں کہہ سکتا کہ ایک اسلامی ملک ہے کیونکہ اس کا حال بھی مغرب سے کچھ کم نہیں جس تباہی کے دہانے پر آج مغربی دنیا پہنچ چکی ہے اس بے حیائی کے سبب اسی تباہی کے دہانے پر آج پاکستان پہنچ چکا ہے،فتنوں پے فتنے سر اٹھا رہے ہیں،مزید کس فتنے کا انتظار ہے؟ روشن خیالی کے نام پر تاریکیاں مسلط کی جا رہی ہیں، بے حیائی ایک سیلاب کی صورت میں چھا گئی ہے، کسی شادی پر جا کے عوام الناس کی حیا کی صورت دیکھ لیں لباس کے نام پر بے لباسی عیاں ہے، تعلیم کے نام پر کیا پڑھایا جا رہا ہے اور مخلوط تعلیم لازم،یہ سب اس بڑھتی بے حیائی کا نتیجہ ہے اگر اب بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے اور فحاشی و عریانی فروغ کو نہ روکا گیا اس کی مذمت نہیں کی گئی تو وہ وقت دور نہیں کہ پاکستانی معاشرہ تباہی کے گڑھے میں گر جائے گا اور شاید پھر کبھی نہ اٹھ سکے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اور بے شرمی کی باتوں کے قریب ہی نہ جاؤوہ کھلی ہوں یا چھپی ہوئی ہوں(الانعام151)ارشاد باری تعالیٰ ہے اے لوگو! جو ایمان لائے ہو شیطان کے نقش قدم پر نہ چلواسکی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا(النور 21)حدیث میں ارشاد ہے جب تم میں حیا نہ رہے تو جو جی چاہے کرو(سنن ابو داؤد)اس سلسلے میں صاحب اقتدار لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ بد کاری کے اڈے ختم کریں۔بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے قصے،اشعار،گانے، تصویر یں، کلب،ہوٹل اور تفریح گاہیں جن میں مخلوط میل جول اور رقص و سرور کی محفلیں جمتی ہیں کی اشاعت فحش کے تمام ذرائع کا سد باب کرے اور ان جرائم پر باقاعدہ سزا دی جائے بے راہ روی کی ایک وجہ بے پردگی بھی ہے۔بد قسمتی سے ہم نے پردہ کو ترقی کی راہ میں رکاؤٹ سمجھ کر اس کوبالکل ختم کر دیا ہے جبکہ حضور اکرم ؐ نے اﷲ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق پردے کی سختی سے تلقین فرمائی ہے۔محرم اور نا محرم کا امتیاز پیدا کر کے قوانین و ضوابط ارشاد فر مائے ہیں تاکہ ممکنہ برائی کو پھیلنے ہی نہ دیا جائے جو آگے چل کر اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اس سلسلہ میں ازواج مطہرات کو بھی گھروں سے نکلنے کی ممانعت کر دی گئی تھی۔بدقسمتی سے فیشن پرستی اور دوسروں کی نقالی میں آجکل مسلمان بہت آگے نکلنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں اس سے ایک طرف تو اسلامی اقدار مجروح ہوتی ہیں تو دوسری طرف معاشرے میں بگاڑ کے یہی لوگ ذمہ دار ہوتے ہیں حضور ؐ نے فرمایا ہے لعنت ہے اُن عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت پیدا کرتی ہیں اور اُن مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت پیدا کرتے ہیں ،حقیقت میں جہاں ہر شخص معاشرے کی اصلاح یا بگاڑ کا خود ذمہ دار ہوتا ہے وہاں معاشرے کو سدھارنے کی ذمہ داری حکام پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے قوانین پر عمل درآمد کریں اور لوگوں کو کرائیں جن سے معاشرہ بگاڑ کی طرف آگے بڑھنے کے بجائے اصلاحی پہلو نکل سکے۔ جناب نبی کریمﷺ نے زندگی بسر کرنے کا اسلوب لوگوں کو عملی طور پر سکھائے مسلمانوں کو بیکار،فضول کاموں،گفتگو،کھیل تماشے کو وقت کی بر بادی گناہ کا ارتکاب فرمایااور ان سے منع فرما کر اپنی صلاحیتوں کو بامعنی اور تعمیری کاموں میں صرف کرنے پر زور دیا اور اسکی اصلاح اپنے گھر سے شروع کرنے کی تلقین فر مائی۔آج معاشرہ بدامنی،بے چینی،کے دور سے گزر رہا ہے۔قتل و غارت گری،دہشت گردی، ڈاکے،رہزنی،نسل کشی،زنا،شراب نوشی،اور قمار بازی کا بازار گرم ہے۔شرعی احکام کی پابندی کے بجائے اس سے مذاق کیاجا رہا ہے اور نفرت پیدا کی جارہی ہے۔ایسے میں اس کی اصلاح کیلئے اسلامی احکامات کو بحیثیت نظام زندگی غالب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ایک صالح قیادت ہی کر سکتی ہے عصمت کی حفاظت اور بے حیائی کا سد باب کرنے کیلئے اسلام نے عورتوں کیلئے پردہ لازم قرار دیااور ساتھ ہی مردوں پر پابندی ہے کہ وہ غیر محرم عورتوں کی طرف لالچ بھری نظروں سے نہ دیکھیں بلکہ نگاہیں پست رکھنے کا حکم آیا ہے،کیونکہ ایسی نگاہ ڈالنے سے فتنہ کا ڈر ہوتا ہے جس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح عورتوں پر محارم کے علاوہ دوسروں کو دیکھنا حرام قرار دیا گیا ہے خواہ وہ بری نیت سے ہو یا کسی نیت کے بغیر ہو بلکہ نابینا مردوں سے بھی پردہ کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔خوش نما لباس پہننا،زیور،سر منہ، ہاتھ وغیرہ کی آرائش جو عمو ماً عورتیں کرتی ہیں اس کو صرف اپنے خاوند کیلئے جائز قرار دیا گیا ہے باریک لباس زیب تن کرنا بھی منع ہے جس سے جسم نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی قوم کی بد اعمالیاں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں تو پہلے خدا کی رحمت اور قانون اُسے مہلت دیتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کر لے۔جب اُ س پر بھی وہ اپنی روش نہ بدلے تو خدا کا قانون پاداش عمل حرکت میں آتا ہے اور عذاب آخرت کے علاوہ دنیا ہی میں اسے ذلت اور پستیوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔مسلمانوں کیلئے زندگی کا سرچشمہ اور نصب العین دین اسلام ہے۔مسلمانوں کو دنیاوی عروج اسی کے ذریعے حاصل ہوا اور آئندہ بھی اسی کے سہارے زندہ رہنا ممکن ہو سکتا ہے جو قومیں اچھے اوصاف کو اپناتی ہیں ان کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں دبا سکتی کیونکہ ملک اور وطن کی صحیح خدمت بھی دین ہی کے ذریعے ہو سکتی ہے۔حیا سے ہماری پہچان ہے ، حیا ہی تو جان ہے ہماری حیا کا احترام کرنا، حیا کے کلچر کو عام کرناہے
 

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 187750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.