پاکستان کے32ہزار سے زیادہ شہری دنیا کے40 ممالک کی جیلوں
میں قید تھے جن میں سے19ہزار کو واپس لایا گیا ہے۔13ہزار سے زیادہ اب بھی
بیرونی جیلوں میں قید ہیں۔59فیصد قیدی عرب ممالک میں ہیں۔سعودی عرب، متحدہ
عرب امارات، میں سب سے زیادہ قیدی ہیں۔ عراق، عمان، قطر، بحرین، ایارن،
کویت، اردن، شام، لبنان، ترکی، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، مالدیپ،
افغانستان، ملیشیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، کمبوڈیہ، ویتنام، سنگاپور، چین،
فلپین، قبرص، مصر، آزربائیجان، جیارجیا،کرغزستان، ہنگری، سربیا، بوسنیا،
مقدونیہ، یوکرائن، رومانیا، یونان، اٹلی، سپین، آسٹریا، پولینڈ، جرمنی،
سویڈن، ہالینڈ، ڈنمارک، بلجیئم، پرتگال، برطانیہ ، فرانس کی جیلوں میں
پاکستانی قیدی موجود ہیں۔ قومی اسمبلی میں پارلیمانی سیکریٹری امور خارجہ
حسین طارق کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے وزارت خارجہ کی نگرانی میں ایک فنڈ کے
تحت فی قیدی کی وکیل فیس، جرمانے کی ادائیگی یا وطن واپسی کے لئے تین ہزار
تا پانچ ہزار ڈالر مختص کئے ہیں۔جن کی رہائی کے لئے سنجیدگی سے کوشش کرنے
کی ضرورت ہے۔لاتعداد کو مناسب ٹرائل کے بغیر حراست میں رکھا گیا ہے۔ان کے
پاس وکیل یا قانونی چارہ جوئی کے وسائل نہیں۔
دنیا میں اس وقت 80لاکھ تارکین وطن پاکستانی موجود ہیں جو یہاں زر مبادلہ
بھیج رہے ہیں۔ وہ جب کبھی قانونء پیچیدگیوں کے شکار ہوتے ہیں تو برسوں
جیلوں میں سڑتے ہیں۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل کے دفتر کے ساتھ
142ایڈیشنل،ڈپٹی یا اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کام کرتے ہیں۔مگر کوئی بھی
انٹرنیشنل لیگل معاملات کا تجربہ نہیں رکھتا۔ انٹرنیشنل ڈیسپیوٹ یونٹ کی
تشکیل کے باوجود اٹارنی جنرل کا دفتر سمندر پار قید پاکستانیوں کی مدد نہ
کرسکا۔ اسی طرح صوبے بھی ایڈوکیٹ جنرلز اور لاء افسران کی موجودگی کے
باوجود انٹرنیشنل معاملات سے بے خبری کی وجہ سے کچھ نہ کر سکے۔کیوں کہ عام
خیال یہ ہے کہ میرٹ کے بجائے سفارش پر بھرتیوں کی وجہ سے ہم کئی شعبوں میں
ترقی کا خوب پورا نہ کرسکے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی اسی فقدان کے
نذر ہو گیا ہے جس کی امریکی حراست میں تقریباً 20سال ہو گئے ہیں۔ امریکہ سے
نیوروسائنس میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر صدیقی پر کسی کے قتل کا الزام نہیں بلکہ
اقدام قتل کا کیس ہے۔ ڈاکٹر صدیقی مارچ2003سے امریکی قید میں ہے ۔ 2008میں
مقدمہ چلایا گیا۔ 2010میں امریکی عدالت نے 86سال سزائے قید سنائی ۔ تین
بچوں کی ماں ، پاکستانی سائنسدان کو پہلے سزا ہوئی، مقدمہ بعد میں چلا۔
کوئی حکومت رہائی کے لئے کچھ نہ کر سکی۔ ڈاکٹر صاحبہ کی ہمشیرہ اکیلی
دردمندی سے اپنی قیدی بہن کی رہائی کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں۔ایک ماہ
قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی دفتر خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ امریکہ
کے ساتھ اس معاملہ کو اٹھائے۔
اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی کرنل جوزف نے نشے کی حالت
میں ٹریفک سگنل توڑتے ہوئے عتیق بیگ نامی ایک پاکستانی شہری کو کچل کر ہلاک
اور اس کے دوست کو شدید زخمی کردیا ۔ 2010ء میں ریمنڈ ڈیوس نامی امریکی
جاسوس نے 2 پاکستانی شہریوں کو لاہور میں اپنے پستول سے قتل کردیا تھا اور
اس کی مدد کو آنے والی امریکی قونصل خانے کی گاڑی نے مزید ایک شہری کو کچل
کر ہلاک کردیا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس نے The Contractor کے ٹائٹل کے ساتھ کتاب
لکھ کراس بات کا اعترافکیا کہ وہ امریکی سفارتکار نہیں بلکہ ایک جاسوس
تھااور اس نے اپنی کتاب میں تفصیل سے اپنی رہائی کیلئے ہماری اس وقت کی
قومی قیادت کے کردار کو توہین آمیز طریقہ سے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور
جس سے یہ افسوسناک پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی نظر میں ملک
کے وقار اور پاکستانی شہریوں کی زندگی کی کوئی وقعت نہیں ہے۔پانچ سال قبل
بھی فروری 2013 ء میں اسی طرح کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا جب امریکی
سفارتخانے کی ایک گاڑی نے اسلام آباد میں ٹریفک سگنل توڑ کر ایک پاکستانی
سرکاری ملازم کو کچل کر شہید اور اس کے دوست کو شدید زخمی کردیا تھامگر
کوئی کاروائی نہیں کی گئی تھی کیونکہ قاتل امریکی تھا۔ امریکیوں نے پاکستان
کے قوانین کی اس قدر سنگین خلاف ورزی کی کہ 5 پاکستانیوں کی جانیں چلی گئیں
مگر امریکی قاتل مکمل پروٹوکول کے ساتھ چھوڑ دئیے گئے۔ اگر کوئی امریکی کسی
پاکستانی سفارتکار کی گاڑی سے اس طرح کچل کر مارا جائے کہ ٹریفک کا اشارہ
بھی توڑا گیا ہو تو امریکی معاشرہ کا احتجاج اور امریکی میڈیا کے کردار کا
اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ قاتل کو استثناء کیسے حاصل ہوسکتاہے؟ ۔
بھارت نے تصدیق کی ہے کہ اس کے پاس 400سے زیادہ پاکستانی قیدی ہیں۔مگر یہ
تعداد دوگنی سے زیادہ ہے۔یکم جنوری کو ایک بار پھردونوں ممالک کے درمیان
ایک دوسرے کی تحویل میں قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا۔ فہرستوں کا بیک
وقت تبادلہ 2008 کے قونصلر رسائی کے معاہدے کے تحت ہوتا ہے ۔معاہدے کے تحت
دونوں ممالک ہر سال یکم جنوری اور یکم جولائی کو ایک دوسرے کی تحویل میں
قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن
کے ساتھ پاکستان میں زیر حراست 705 بھارتی قیدیوں کی فہرست فراہم کی جس میں
51 عام شہری اور 654 ماہی گیر شامل ہیں۔بھارتی حکومت نے نئی دہلی میں
پاکستان کے ہائی کمیشن کے ساتھ بھارت میں 434 پاکستانی قیدیوں کی فہرست
فراہم کی جن میں 339 سولین قیدی اور 95 ماہی گیر شامل ہیں۔ پاکستان نے اپنے
51 سولین قیدیوں اور 94 ماہی گیروں کی جلد رہائی اور وطن واپسی کی درخواست
کی جنہوں نے اپنی متعلقہ سزا پوری کر لی ہے اور ان کی قومی حیثیت کی تصدیق
ہو چکی ہے۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں لاپتہ ہونے والے دفاعی اہلکاروں کو
قونصلر رسائی دینے اور 56 سول قیدیوں تک خصوصی قونصلر رسائی کی درخواست بھی
کی گئی ہے۔توقع ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت سمندر پار قید
پاکستانیوں کی رہائی کے لئے فوری اقدامات کرے گی۔
|