انتظارِ بسیار کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے 2016 میں 1000 اور
500 روپے کے نوٹوں کو ختم کرنے کے فیصلے کو آئین کے مطابق درست ٹھہرا
دیا۔وزیر اعظم مودی جس 17 لاکھ کروڈ کی نقد معیشت کو ڈیجیٹل کرنا چاہتے تھے
وہ اب 32 لاکھ کی نقدی تک پہنچ گئی ہے۔نوٹ بندی 99 فیصد سے زیادہ نوٹ واپس
آگئے اس کا مطلب ہوا کہ سارا کالا دھن سفید ہوگیا۔ اس لیے اس کو کالا دھن
سفید کرنے کی سازش قرار دینے والوں کا دعویٰ درست لگتا ہے ۔ اس مشقت سے
معیشت تو ڈیجیٹل نہیں ہوئی کیونکہ پہلے کی طرح اب بھی85 فیصد بڑے نوٹ عوام
کے پاس ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ ہیں کہ ایک ہزار کی جگہ دوہزارکے نوٹ نےلے
لی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے 8نومبر 2016کی تقریر میں کہا تھا کہ نقد کا
سرکولیشن بدعنوانی کی سطح سے براہ راست جڑا ہوا ہے- 2011-12 سے 2015-16تک
گزشتہ 5 مالی سالوں میں کرنسی اِن سرکولیشن(سی ای سی) اور جی ڈی پی کا
تناسب 11فیصد یا اس سے زیادہ رہا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے نوٹ بندی کی
جارہی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے اندر اپنے حالیہ حلف نامہ میں بھی وزارت خزانہ
نے سرکاری فیصلے کی حمایت میں کہا تھا کہ 11.55فیصد پر ہندوستان کا کیش ٹو
جی ڈی پی فیصد تناسب امریکہ (7.74فیصد)کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا-
یہ بات درست ہے لیکن حلف نامہ میں یہ بات چھپائی گئی کہ جی ڈی پی کے فیصد
کی شکل میں سی آئی سی تین سال کے اندر نوٹ بندی سے پہلے کی سطح پر واپس آ
گیا۔ 20- 2019 میں آر بی آئی کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقدی سےجی
ڈی پی تناسب 2019-20میں 11.3فیصد سے بڑھ کر نوٹ بندی سے پہلے کی سطح
12.0فیصد ہو گیا- یہ تناسب2019-20میں بڑھ کر 14.4فیصد ہو گیا- وہیں آر بی
آئی کے مطابق 2021-22میں بھی یہ تناسب نوٹ بندی کے پہلے سے زیادہ کی سطح
یعنی 13.7فیصد پر تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ جے پی کے رکن پارلیمان سشیل مودی خود
ایوان میں کہہ چکے ہیں کہ دوہزار کا نوٹ کالا بازاری اور جمع خوری کاذریعہ
ہے اس لیے اسے بند کردیا جانا چاہیے۔ ریزرو بنک آف انڈیا کو بھی اس کا
احساس ہوگیا ہے اس لیے وہ اس کو چھاپنا بند کرچکا ہے۔نوٹ بندی کی ناکامی کا
اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے؟
سچ تو یہ ہے مودی سرکار نے نوٹ بندی کے حوالے سے جتنے بھی دعویٰ کیے تھے ان
میں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا اس کے باوجود سپریم کورٹ نے اسے آئین کے
مطابق قرار دے کر اپنی جانبداری کا ثبوت دے دیا۔ جسٹس گوائی نے اپنا متنازع
فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں مرکزی حکومت اور آر بی آئی کے
درمیان چھ ماہ تک مشاورت ہوئی تھی۔اس اکثریتی فیصلے میں یہ کیا گیا کہ ،
"ہم مانتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلے کے لیے متعلقہ فریقوں کے درمیان مناسب
غور و خوض کیا گیا ہے۔ عدالت کے اس نتیجے پر پہنچنے کی وجہ مودی حکومت کے
وزارت خزانہ کا عدالت میں داخل کیا جانے والا ایک حلف نامہ ہے۔ اس میں نوٹ
بندی کے ناعاقبت اندیش دیصلے کی حمایت میں کہا گیا کہ نوٹ بندی ایک سوچا
سمجھا فیصلہ تھا۔ یہ آر بی آئی کے ساتھ وسیع مشاورت اور پیشگی تیاریوں کے
بعد لیا گیاتھاحالانکہ آر ٹی آئی کے ذریعے سامنے آنے والی معلومات مرکزی
حکومت کے عدالت عظمیٰ میں پیش کردہ حلف نامے کےخلاف ہیں۔
مودی سرکار کے ذریعہ ریزرو بنک کے ساتھ ۶؍ ماہ تبادلہ خیال کی حقیقت یہ ہے
کہ 15؍ مارچ 2016 کو کرناٹک کی انسداد بدعنوانی کمیٹی نے وزیر اعظم، وزیر
خزانہ اور آر بی آئی کے گورنر کو ایک خط لکھ کر کالے دھن کے مسئلے سے نمٹنے
کے لیے 500 اور 1000 روپے کے بینک نوٹوں پر پابندی لگانے کا مشورہ دیا
تھا۔اس کے جواب میں آر بی آئی نے کہا تھا کہ 500 اور 1000 روپے کے نوٹ چلن
میں موجود نوٹوں کی قیمت کا 85 فیصد ہیں ۔ نقدی کی عوامی ضروریات کو پورا
کرنے میں وہ نوٹ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے فی الحال 500 اور 1000
روپے کی مالیت کے بینک نوٹوں کو واپس لیناعملی نہیں ہوگا۔آر بی آئی کا یہ
خط شاہد ہے کہ نومبر 2016 کو نریندر مودی حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلے سے
چند ماہ قبل ریزرو بینک آف انڈیا نے اس قدم کی سختی سے مخالفت کی تھی ۔ اس
کی رائے نوٹ بندی کے خلاف تھی۔ آج بھی تقریباً اسی تناسب میں نقدی کا چلن
اس حقیقت کی تائید کرتا ہے مگر سرکار نے اس پر اپنا فیصلہ بزورِ قوت تھوپ
دیا تھا ۔
آر بی آئی کے سینٹرل بورڈ کی میٹنگ کے منٹس کی تفصیلات بھی اس بات کی تصدیق
کرتی ہیں کہ بورڈ کو نوٹ بندی بارے میں علم نہیں تھا۔ میٹنگ کے منٹس میں
واضح طور پر کہا گیا تھا کہ بورڈ کو صرفیقین دہانی کرائی گئی تھی کہ یہ
معاملہ مرکزی حکومت اور آر بی آئی کے درمیان بات چیت کا موضوع تھا۔ کسی
موضوع پر گفتگو کرنا اور کوئی فیصلہ کرنا یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ سچ تو
یہ ہے اس طرح کا فیصلہ کرنا آر بی آئی کا اپنا حق اور اس کی ذمہ داری تھی
مگر وہ حکومت کے ذریعہ کیا گیا۔ وزیر اعظم کے نوٹ بندی کے فیصلے کا اعلان
کرنے کے ۶؍ گھنٹے سے بھی کم وقت پہلے اس موضوع پر ڈپٹی گورنر کے مسودے
کوبورڈ کے سامنے رکھا تھا۔اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے بھی تصدیق کی
تھی کہ شام میں جب انہیں میٹنگ کے لیے بلایا گیا تو وہ اس فیصلے سے ناواقف
تھے۔ سرکاری حلف نامہ میں نوٹ بندی کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا
کہ یہ اقدام جعلی کرنسی، دہشت گردی کی مالی معاونت، کالے دھن اور ٹیکس چوری
کی لعنت سے نمٹنے کی خاطر اختیار کی جانے والی ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ
تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کو ان میں سے کوئی ایک بھی ہدف حاصل کرنے میں
کامیابی ہوئے؟ تو اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
فی زمانہ سب سے زیادہ جعلی نوٹ دوہزار کے ہیں جن کی چھپائی بہت آسان ہے۔
بے حساب نقد رقم کا ذخیرہ ہنوز موجود ہے ۔ آئے دن ای ڈی اور سی بی آئی
اسے چھاپہ مار کر برآمد کرتی ہے۔ملک میں تخریبی سرگرمیاں اب بھی زور و شور
سے جاری و ساری ہیں اور ان کی مالی اعانت ہورہی ہے۔ اس لیے یہ بات تسلیم
کرلینا چاہیے کہ نوٹ بندی کے فیصلے سے کوئی فائدہ تو نہیں ہواہاں معیشت کا
زبردست نقصان ضرور ہوگیا نیز عام لوگوں مشقت کا سامنا کرنا پڑا۔ سپریم کورٹ
بنچ نے اپنے بزدلانہ فیصلے میں کہا کہ اقتصادی پالیسی کے معاملات میں بہت
تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوتا اور مقننہ کی جگہ عدالت نہیں لے سکتی۔ اس فیصلے
واحد خاتون جج جسٹس ناگرتنا نے اختلاف کرتے ہوئے الگ فیصلہ دیالیکن انہوں
نے بھی کہا کہ سیکشن 26(2) کی جانچ کا مقصد نوٹ بندی کی خوبیوں و نقصان پر
غور کرنا نہیں تھا ، اس لیے یہ عدالت کی طرف سے طے شدہ حدود کے اندر تھا۔
سپریم کورٹ کے ذریعہ نوٹ بندی کو لے کر داخل عرضیوں کے اخراج پر اکثریت کے
نظریہ سے عدم اتفاق ظاہر کرتے ہوئے جسٹس ناگرتنا نے فیصلہ دیا کہ مرکزی
حکومت کے ذریعہ 8 نومبر کو نوٹ بندی سے متعلق کیا جانے والا فیصلہ غیر
قانونی تھا۔ ان کے نزدیک حکومت کے ذریعہ 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی
سبھی سیریز کو چلن سے باہر کیا جانا ایک بے حدنازک موضوع ہے۔موصوفہ نے مودی
حکومت کے طریقہ کار پر کہا کہ نوٹ بندی جیسا فیصلہ صرف نوٹیفکیشن کے ذریعہ
نہیں بلکہ بل کے ذریعہ ہونا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ کی جسٹس کے مطابق اتنا
بڑا فیصلہ لینے سے پہلے اسے پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جانا چاہیے تھا۔ اس
بابت حکومت کے اہلکار یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر یہ راز پہلے سے کھول دیا
جاتا تو لوگ اپنا کالا دھن ٹھکانے لگا دیتے لیکن ویسے بھی اگر ننانوے فیصد
سے زیادہ نقدی کا بنکوں میں آجانا بتاتا ہے کہ یہ رازداری کسی کام نہیں
آئی۔
جسٹس ناگرتنا کا نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ صرف 24 گھنٹے
میں لیا گیا۔ اس طرح انہوں نے سرکار کے ۶؍ ماہ غورو خوض والے دعویٰ کو بے
بنیاد بتا کر خارج کردیا ۔ اس کے علاوہ یہ کہنا کہ آر بی آئی نے اپنا
دماغ استعمال کرنے کے بجائے صرف حکومت کی تعمیل ارشاد کا کام کیا ہے صد
فیصد درست ہےکیونکہ مرکزی حکومت کی تجویز پر ریزرو بینک کے ذریعہ دی گئی
صلاح کو قانون کے مطابق دی گئی سفارش نہیں مانا جا سکتا۔ قانون میں آر بی
آئی کو دی گئی طاقتوں کے مطابق کسی بھی کرنسی کی سبھی سیریز پر پابندی
نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ سیکشن 26(2) کے تحت کسی بھی سیریز کا مطلب سبھی
سیریز نہیں ہے۔جسٹس ناگرتنا کو سب سے بڑا اعتراض اس بات پر ہے کہ ریزرو
بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے جو ریکارڈ پیش کیے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ
آر بی آئی نے آزادانہ طریقے سے کوئی فیصلہ نہیں لیا بلکہ سب کچھ مرکزی
حکومت کی خواہش کے مطابق ہوا۔ مودی کے نئے ہندوستان میں یہ معاملہ صرف آر
بی آئی تک محدود نہیں ہے بلکہ فی زمانہ سارے سرکاری اداروں نے اپنی عقل کا
استعمال بند کردیا ہے۔ مرکزی وزراء اپنے پاس آنے والے وفود کو تصویر
کھنچوانے کے بعد پی ایم او سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ ایک ایک کرکے
سارے آئینی ادارے اپنی انفرادیت اور خود مختاری کھوتے جارہے ہیں ۔ عدالت
عظمیٰ کے چار ججوں کی رائے عدلیہ کی خود مختاری پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ
نشان لگاتی ہے۔ نوٹ بندی کا معاملہ ہونٹ بندی سے ہوتا ہوا فکر و عمل پر
بندش میں تبدیل ہوچکا ہے۔
|