دنیا میں ایساکوئی مرض نہیں جس کی "دوا" نہ ہولیکن شفاء
کیلئے بروقت " تشخیص "اور ماہر معالج کاانتخاب ناگزیر ہے ۔بابائے قوم ؒ کی
وفات کے بعدمسیحا سے محروم نوزائیدہ پاکستان کے امراض کی تشخیص کرنے کی
سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی کیونکہ مادروطن کو"نبض شناس" اور"فرض شناس" قیادت
نہیں ملی ۔بدقسمتی سے ایک کے بعد ایک شعبدہ باز آتے اورمقروض پاکستان کی
بیمار معیشت کوتختہ مشق بناتے بلکہ اس کے مرض کو مزید بگاڑتے رہے ۔اِسلامی
جمہوریہ پاکستان میں "اِسلام آباد" تو بن گیا لیکن سات دہائیوں بعد بھی
ہماری ریاست،سیاست ،معاشرت اورمعیشت میں نظامِ" اِسلام" نہ آیا۔اِسلام کے
نام پرسیاست کرنیوالے نناوے فیصد مذہبی عمائدین نے آج تک معاشرے میں "
اِسلام "کو"رواج" نہیں دیاکیونکہ ان کاہدف صرف "اسلام آباد" پر"راج" کر نا
ہے ۔ـ"جماعت اسلامی" کے پاس کردار اورافکاروالی قیادت توہے لیکن ہمارے ووٹر
محرومیوں کے باوجود باربارآزمائے ہوئے قومی چوروں میں کسی ایک کومنتخب کرتے
ہیں ،افسوس عنانِ اقتدار پربراجمان نیب زدگان کی ناکامی اوربدنامی کے باوصف
باکردارقیادت آج بھی ان کی ترجیحات کاحصہ نہیں ہے۔قاضی حسین احمدکی قائدانہ
صلاحیتوں سے استفادہ کیا گیا اورنہ عوام نے سراج الحق کے کلمہ حق پر کان
دھرے ۔عوام کی طرف سے مدبرو مخلص قیادت کے انتخاب تک انہیں بانجھ جمہوریت
اور کرپشن کے عذاب سے نجات نہیں ملے گی۔یادرکھیں کسی بھی
خودمختار،خودداراور آزاد ریاست کیلئے "قرض" ایک" مرض" ہے لیکن ہماری حکمران
اشرافیہ نے سخت شرطوں پر قرض حاصل کرنا اور اسے ناقص منصوبوں کی تعمیر کے
نام پراجاڑنااپنا حق سمجھ لیاہے۔میں سمجھتا ہوں جس وقت تک" سرمایہ دار" اور
"سریابردار" اس ملک کی قسمت کے فیصلے کرتے بلکہ اس کی تقدیراورتوقیر کے
ساتھ کھیلتے رہیں گے اس وقت تک ہماری معیشت آئی سی یوسے باہرنہیں آسکتی ۔حضرت
عمرفاروق ؓ کے دورمیں کسی سرکاری عہدیدار کوتجارت کرنے کی اجازت نہیں تھی
لیکن ہمارے ہاں کئی دہائیوں سے رئیل اسٹیٹ مافیا ،شوگرملزمالکان
اورفلورملزمالکان مقروض ملک کے وسائل میں نقب لگاتے لگاتے ہلکان ہورہے ہیں
لیکن آج تک کسی نے ان کااحتساب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ہماری ہرسیاسی جماعت
نے انتخاب کے بعد احتساب کامژداسنا یا لیکن حقیقت میں کوئی چوراپنے ساتھی
چورکا محاسبہ نہیں کرسکتا ۔جس وقت تک پاکستان کاحکمران طبقہ ریاست کے ساتھ
عداوت اور نجی تجارت سے باز نہیں آئے گااس وقت ہماری معیشت ٹریک پرواپس
نہیں آئے گی ۔یادرکھیں کوئی سرمایہ دار کسی کسان اور"مفلس "کے ساتھ" مخلص"
نہیں ہوسکتا۔
ان دنوں ہرطرف قومی معیشت کی" بدحالی" کارونارویا جارہا ہے لیکن ارباب
اقتدارواختیارمیں سے کوئی اس کی "بحالی" کیلئے سنجیدہ نہیں لگتا کیونکہ
معیشت کی منظم" بدحالی" میں ملوث نیب زدگان سے اس کی" بحالی "کی امید لگانا
بے سود ہے ۔سود کے بوجھ نے ہماری معیشت کوبانجھ بنادیا ہے ، معاشی سرگرمیوں
سے سود یعنی" سلوپوائزن" کا سوفیصدصفایاہونے تک ہماری معیشت موت کی آغوش
میں اترتی چلی جائے گی۔ہفتہ اوراتوارکی چھٹیاں ختم اورجمعتہ المبارک کی
ہفتہ وارچھٹی بحال کرنے سے یقینا ہمارے امورمملکت میں میں روحانیت اوربرکت
آئے گی ۔سعودیہ سمیت خلیجی ریاستوں میں جمعتہ المبار ک کوچھٹی ہوتی اور اﷲ
ربّ العزت کے حکم پروہاں نمازجمعہ کابھرپوراہتمام ہوتاہے جبکہ ہمارے ملک
میں جمعتہ المبارک کااس کے شایان شان اہتمام اوراحترام نہیں ہوتا۔جمعتہ
المبارک کی بجائے اتوار کی سرکاری چھٹی کرنے سے ہمارے ملک پر بیرونی قرض
کابوجھ مزید بڑھ گیا ہے لہٰذاء یہ فیصلہ ہرگز درست نہیں ۔ہم مادی فائدے
کیلئے دوڑتے دوڑتے روحانی ثمرات سے محروم ہوتے چلے جارہے ہیں ،ہم نے معبود
برحق اور"الرزاق"کا"قرب" تلاش کرنے کی بجائے مغرب کا"مقرب "بنناپسندکیا
اورنتیجتاً"کرب" اورکشکول ہمارامقدر بن گیا ۔یادرکھیں ہم مسلمانوں کا نظام
معیشت ہماری انتھک محنت ومشقت کے باوجود اﷲ تعالیٰ کی رحمت اورغیبی مدد
کامرہون منت ہے لہٰذاء سود کسی اسلامی ریاست اورمعاشرت کوراس آیا نہ آئندہ
کبھی آئے گا ۔ جوقوم ہوشربامہنگائی اور معاشی بحرانوں سے نبردآزماہو وہ
ہفتہ واردوچھٹیوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔قائداعظمؒ نے فرمایا تھا ،"کام ،کام
اورکام "لیکن ان کے وارث ہونے کے دعویدار" قومی چور"اور"کام چور" بنے بیٹھے
ہیں ۔تعجب ہے توانائی بچانے کیلئے دوچھٹیاں کرنیوالی ریاست زیادہ محنت کرتے
ہوئے اپنی قومی ضرورت کے مطابق توانائی پیداکیوں نہیں کرتی،خدانخواستہ اگر
توانائی بحران میں مزید شدت آگئی توکیا ایمپورٹڈوفاقی حکومت اپنے زیرانتظام
محکموں میں ہفتہ وار تین یاچار تعطیلات کاحکم صادر کرد ے گی۔"بچت "کی اہمیت
سے انکار نہیں لیکن معاشی دیوالیہ سے بچاؤ کیلئے " کھپت" کے مطابق توانائی
پیداکرنا ہوگی، بحیثیت قوم 24/7 کام کرنا ہوگا ۔کاروباری اورتجارتی
سرگرمیوں پرشب خو ن مارنے سے معیشت بحال نہیں بلکہ مزید بدحال ہوگی ،اگرٹریڈرز
سمیت عام صارف حکومت کوبجلی کی مقررہ قیمت د ے ر ہے ہیں تووفاقی حکومت کو
قومی ضروریات پوری کرنے کیلئے بجلی پیداکرنا ہوگی۔جس طرح آٹا بحران پرقابو
پانے کی بجائے عوام کوناشتہ اورڈنر نہ کرنے پرمجبورنہیں دیاجاسکتااس طرح
ٹریڈرز کوآٹھ بجے شب کاروباری سرگرمیاں بندکرنے کاآمرانہ اورعاقبت
نااندیشانہ حکم نہیں دیاجاسکتا ،وفاقی حکومت کایہ متنازعہ اقدام نیم مردہ
معیشت پرشب خون تصور کیاجائے گا۔
میں" بچپن" کی گلی میں گھومتاگھومتا"پچپن "کی دہلیز تک آپہنچا ہوں لیکن
ہنوز ہمارا ملک سیاسی ،انتظامی اورمعاشی بحرانوں کی بندگلی میں کھڑا
ہے،کیونکہ اسلامی ریاست کے روشن خیال حکمران اس مملکت خداداد کو سود کے
دوزخ میں گراتے چلے جار ہے ہیں۔ہمارے ملک میں کئی ملین ہنرمند
اوربیروزگارافراد باعزت روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں لیکن ان
کی توانائیوں اورصلاحیتوں سے استفادہ نہیں کیا جارہا ۔مستحق افراد کے نام
پرانہیں ماہانہ بنیادوں پرچندہزار کی خیرات دینے کی بجائے انہیں
خودداراورخودکفیل بنانے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام یااحساس پروگرام
کے مخصوص سرمایہ سے باری باری مختلف شہروں اورقصبوں میں فیکٹریاں شروع کی
جاسکتی ہیں جوچند ماہ میں منفعت بخش بن کرابھریں گی اوریوں امداد کے
مستحقین ریاست پربوجھ بننے کی بجائے اپنااوراپنوں کابوجھ خوداٹھانے کی
پوزیشن میں آجائیں گے ۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اوراحساس پروگرام سے ناقص
منصوبوں نے ہم وطنوں کوبھکاری بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا،یہ متنازعہ نظام
کسی ناکام انسان کومعاشرے کامفیدشہری نہیں بناسکتا۔ ہمارے ملک میں رائج
معاشی نظام کے تحت سودپرلیا گیاقرض اتارنے کیلئے مزیدسود پر قرض لیا جاتا
ہے اور ہمارے نام نہادمسیحا اس قرض کے عوض عالمی مالیاتی اداروں کے پاس
ہماری قومی خودداری اورخودمختاری گروی رکھ دیتے ہیں ۔میں سمجھتاہوں
ایک"سودخور"انسان" سورخور"درندوں سے بدترہے۔سود کے کاروبارمیں ملوث ہونااﷲ
تعالیٰ اوررسول اﷲ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم کے
ساتھ جنگ کرنا ہے تواس میں ہماری مات اورمعاشی موت یقینی ہے ۔
ہم نے فوجی آمروں،سول آمر وں سمیت معین قریشی اورشوکت عزیزکی صورت میں
بیرون ملک سے آنیوالے نام نہاد" ناخدا" بھی آزمائے لیکن ان میں سے کوئی
ہمارانجات دہندہ نہیں تھا،ہماری ناؤکومنجدھار سے نکالنا سودکے حامی معاشی
ماہرین کے بس کی بات نہیں۔ستر کی دہائی سے اب تک جوبھی حکمران اقتدارمیں
آیا ان میں سے ہرکسی نے عوام کو خوشحالی کامژداسنایا لیکن ان بیچاروں کو
معاشی بدحالی کے کنویں میں گرانے کے بعد خودچلتابنا۔ معاشی استحکام کیلئے
کرپشن میں ملوث عناصر کوکسی امتیاز کے بغیرتختہ دار پرلٹکاناہوگا،کوئی
گھڑیال چورہویاگھڑی چورقومی وسائل میں نقب لگا نیوالے قومی چوروں سے پائی
پائی وصول کی جائے۔ وفاق سے صوبوں تک حکومت کے عہدیداران اورمنتخب ارکان
اسمبلی کوتنخواہ سمیت ہر قسم کی مراعات سے دستبردارکیاجائے ،گریڈسترہ سے
بائیس تک آفیسرز کی مراعات میں پچاس فیصد کمی کرناہوگی۔ملک بھر میں ہرموٹر
وے کے ساتھ اورشہروں سے دیہاتوں تک صرف پھل داردرخت لگانااورقومی ضرورت
کودیکھتے ہوئے ڈیم بناناہوں گے۔"سادگی میں آسودگی" کے تحت پرتعیش گاڑیوں
سمیت مختلف مصنوعات کی درآمددودہائیوں کیلئے بندکرتے ہوئے زرعی اجناس
اورصنعتی مصنوعات سمیت مختلف برآمدات پرفوکس کیا جائے۔ملک میں کرپشن کلچر
کے بل پر مٹھی بھر سیاسی شخصیات اپنے اپنے نجی کاروبارکے بل پربزنس ٹائیکون
بن گئی ہیں لیکن ان کے ہاتھوں تختہ مشق بننے والی ہماری قومی معیشت آئی سی
یومیں جاپہنچی ہے ۔افسوس معاشی استحکام کیلئے کوئی مناسب تدبیر نہیں کی
گئی۔جس وقت ہماری ریاست ،سیاست اورمعیشت چندمخصوص سرمایہ دارخاندانوں کے
رحم وکرم پررہے گی اس وقت تک ہماری ایٹمی ریاست معاشی طاقت نہیں بن
سکتی۔ہماری ریاست کومیثاق جمہوریت نہیں میثاق معیشت اورمیثاق اخلاقیات کی
ضرورت ہے۔اگرخدانخواستہ معاشی بحران مزیدشدت اختیارکرجاتا ہے توان نام
نہاداسٹیک ہولڈرز میں سے زیادہ ترتو بیرون ملک اپنے محلات میں جا بیٹھیں
گے،نقصان تو ان عام پاکستانیوں کاہوگا جواس ملک سے ہجرت کاتصور تک نہیں
کرسکتے ۔مجھے تعجب ہے جو پاک سرزمین ان سیاسی خاندانوں کے نجی کاروبار
کیلئے انتہائی سازگار اورزرخیر ہے وہاں قومی معیشت کیوں اورکس طرح بانجھ ہو
گئی ۔اگرحکمران اشرافیہ کے وفادار منیجرزان کی نجی انڈسٹری کومنفعت بخش
بناسکتے ہیں تو ان کی ٹیم کے معاشی ماہرین قومی معیشت کادھڑن تختہ کیوں
کردیتے ہیں ۔کیا 22کروڑ کی آبادی والی ریاست میں 22عدد ماہرین اورصالحین
تلاش نہیں کئے جاسکتے ،آزمائے ہوئے ناکام وبدنام معاشی ماہرین کوبار بار
کیوں آزمایاجاتا ہے۔
|