کرتار پور ،جس کا لغوی معنیٰ رب کا شہر ہے، سکھوں کے مقدس
تریں مقامات میں سے ایک ہے جسے گورو نانک نے 1504 میں بسایا۔ یہ جگہ بھارت
اور پاکستان کی سرحد سے صرف ایک کلو میٹر کے فاصلے پر پاکستانی حدود میں
ڈسٹرکٹ نارو وال کی تحصیل شکر گڑھ میں دریائے راوی کے قریب واقع ہے۔ سکھوں
کو اس مقدس مقام کی زیارت کے لئے ایک لمبا چکر لگانا پڑتا تھا جب کہ یہ جگہ
بارڈر سے صاف دکھائی دیتی تھی۔ ویزہ لے کر وہ لاہور آتے اور پھر لاہور سے
سیالکوٹ کی حدود میں بارڈر کے قریب کرتار پور پہنچتے۔ عمران خان نے سکھوں
کی اس مشکل کو محسوس کرتے ہوئے انہیں سرحد سے انتہائی قریبی رسائی دی۔
عمران خان کی یہ مہربانی ہے کہ اب سکھ حضرات بڑی آسانی سے اپنے اس متبرک
مقام کی زیارت ویزے اور پاسپورٹ کی جھنجھٹ میں پڑے بغیر آسانی سے کر سکتے
ہیں۔اس مقام پر پاکستان نے بہت سی تعمیرات بھی کی ہیں اور ان تعمیرات کے
بعد کہا جاتا ہے کہ یہ سکھوں کا دنیامیں سب سے بڑا گور دوارہ ہے۔یہ مقام اب
سیاحوں کے لئے بھی ایک کشش رکھتا ہے۔ ہر روز پاکستان بھر کے بہت سے لوگ بھی
کرتار پور زیارت کے لئے جاتے اور وہاں آئے ہوئے سکھوں سے ملاقات بھی کرتے
ہیں۔یہی وہ مقام ہے جہاں 1539 میں جناب بابا گورونانک نے وفات پائی اور ان
کو دفنانے کے لئے مسلمانوں اور ہندوؤں میں جھگڑا شروع ہوا کہ کہ انہیں
مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق دفنایا جائے یا پھر ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق
اگنی کی نظر کیا جائے۔تصفیہ کے لئے جب وہ اس چارپائی کے پاس آئے تو چارپائی
پر بابا جی کے جسد خاکی کی بجائے پھولوں سے بھری ایک چادر پڑی تھی۔ چنانچہ
وہاں جو کچھ تھا اسے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ مسلمانوں نے اپنا حصہ اپنے
عقائد کے مطابق دفنا دیا جب کہ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق گورو کے بیٹے
دوسرا حصہ جلا کر اس کی راکھ محفوظ کر لی ۔ وہ دونوں چیزیں وہاں ساتھ ساتھ
دفن اور محفوظ ہیں۔یہاں ایک گوردروارہ بھی بنایا گیا ہے جو گوردوارہ کرتار
پور یا کرتار پور صاحب کہلاتا ہے اور سکھوں کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔
اٹھارہ سال تک بابا گورو نابک نے مکہ، مدینہ، سری لنکا، بغداد، کشمیر اور
ہری دوار کا سفر کرنے کے بعد اس جگہ سکونت اختیار کی اور اپنی وفات تک یہیں
مقیم رہے۔ رب کا یہ شہرآج کل بھائی چارے اور امن و آتشی کا پیامبر ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں سکھ یاتری روزانہ یہاں پہنچتے اور گورونانک کے لطف
وکرم سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ روزانہ ہزاروں پاکستانی سیاح بھی وہاں پہنچتے
اور وہاں یاتریوں کو آتے دیکھتے اور ان سے ملتے ہیں۔ 1947 میں ہجرت کے وقت
جو کشت وخون ہوا تھا اور جس کی وجہ سے آپس میں ایک کھچاؤ تھا وہ بھی بہت کم
ہوا ہے اور آج وہاں کرتار پور میں پیار، محبت اور آہنگی کا پرچار جاری و
ساری ہے۔ لوگ دوستوں سے ملتے اور باہمی یکجہتی کا پیام دیتے ہیں۔ کرتار پور
آج سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کے خاتمے اور محبت کے پیغام کا علم
بردار ہے۔سب سے بڑی آسانی یہ ہے کہ اگر میں اپنے کسی سکھ دوست سے ملنا
چاہوں تو بغیر کسی مشکل کے گوردوارہ کی حدود میں سارا دن اکٹھے گزارا جا
سکتا ہے۔ کبھی کبھی بہت سے ادبی دوست پروگرام بنا کر وہاں اکٹھے ہوتے اور
ادبی محفلیں سجاتے، مشاعرے کرتے اور آپس میں پیار محبت بانٹتے نظر آتے ہیں
جو سرحدوں کے آر پار کی نفرت اور کرواہٹ کو کم کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔
مجھے بھی اتفاق سے تین چار مرتبہ اس جگہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ڈیڑھ سو ایکڑ
کے قریب اس وسیع گردوارہ میں روزانہ بھارت سے پانچ ہزار تک سکھ یاتریوں کو
ویزہ فری آنے کی اجازت ہے۔ پاکستان کے شہری بھی بڑی تعداد میں روزانہ وہاں
موجود ہوتے اور بابا جی جی پر عقیدت و احترام کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔
آخری دفعہ پچھلے سال میں دوستوں کے ایک وفد کے ہمراہ گیا تو ایک عجیب واقعہ
ہوا۔ دربار کے پاکستانی مینجر ہمارے ایک دوست کے واقف تھے۔ ہم سب سے پہلے
انہیں ملے۔ جیسے مسلمان اپنے کسی مقدس مقام پر جاتے ہوئے سر ڈھانپ لیتے
ہیں، سکھ بھی اپنے مقدس مقامات کے بارے اسی طرح احترام کے عادی ہیں۔ مینجر
صاحب نے ہمیں نارنگی سے رنگ کے رومال دیئے کہ گوردوارہ صاحب کے احترام کا
تقاضہ ہے کہ آپ یہاں سر پر رومال رکھیں ۔ ہم دس بارہ دوست تھے۔سب نے رومال
باندھے اور دربار کا چکر لگانے لگے۔ایک جگہ ہم نے رک کر فوٹو بنائی تو ایک
پاکستانی عورت بھاگتی ہوئی آئی کہ میرے بچے آپ کے ساتھ تصویر بنا لیں۔ بچے
ہمارے ساتھ کھڑے کرکے عورت نے بہت ساری تصویریں لیں۔ہمیں کیا اعتراض تھا۔
ارد گرد رش بہت تھا۔ عورت کے بعد لڑکوں کی کئی ٹولیاں فرمائش کر کے ہمارے
ساتھ فوٹو بنوانے لگیں۔ میرے ساتھ کھڑے ایک لڑکے نے مجھے پوچھا ، بھائی
صاحب آپ بھارت کے کس علاقے سے ہیں۔ اب ہمیں سمجھ آیا کہ وہ سب لوگ ہمیں سکھ
سمجھ کر ہمارے ساتھ یادگار فوٹو بنوانے کے چکر میں تھے۔لڑکے کے سوال پر
میری حس ظرافت پھڑکی ۔میں نے بڑی سنجیدگی سے اسے بتایا کہ میں چندی گڑھ سے
ہوں۔ دوبارہ سوال ہوا، اور باقی۔ میں نے کہا مختلف جگہ سے ہیں کوئی جالندھر
، کوئی امرتسر اور کوئی کہیں۔ چند لمحوں بعد وہ لڑکا میری طرف اشارہ کرکے
ساتھیوں کو بتا رہا تھا کہ وہ سکھ چندی گڑھ سے ہے ، وہ ارتسر سے اور وہ ۔۔،
میں نے اسے جو جو شہر بتایا تھا ۔ اس کی لمحوں میں سب کو خبر ہو گئی۔ ہم
مسکراتے رہے اور پندرہ بیس منٹ تک کئی ٹولیوں کے ساتھ بطور سکھ فوٹو
اترواتے رہے۔سوچتا ہوں کہ کئی سادہ دلوں نے ان پاکستانی سکھوں کی اپنے گھر
میں تصویریں سجائی ہوں گی کہ وہ چندی گڑھ سے ہے، وہ امرتسر سے اور وہ۔۔۔
تنویر صادق
|