75 سال سے ہمارے مُلک پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے
سربراہوں کے نزدیک ایک ہی خاص سوچ ہوتی ہے کہ اس ہی سسٹم میں رہے کہ پرامن
تبدیلی یا نظام میں کس طرح تبدیلی لائی جائے۔ پاکستان کے بہت سے دانشور
حضرات بھی اس ہی پر زور دیتے ہیں کہ اس ہی نظام کے اندر ہی رہ کر مرحلہ وار
نظام میں اسے صیح کیا جائے۔
پاکستان کی اکثریتی عوام کی تعداد اس ہی سوچ پر قائل تھی لیکن اب برصغیر کی
سیاست اور سیاسی جماعتوں کی سیاست دیکھ کر اب یہ راستہ صرف اس وقت کامیاب
ہو سکتا ہے جب تک نظام کے حصہ دار اس بات پر رضامند نہ ہوں۔ مثبت اصلاحات
ملک اور اُس کی عوام یعنی سب کے مفاد میں ہے۔
جب یہ نظر آنے لگے اور واضح ہو کہ نظام کے دوسرے فریق کسی قسم کی بدلاؤ میں
تبدیلی لانے میں دلچسپی تو کیا اس چیز ہر بات ہی کرنا گوارہ نہیں کرتے اور
نہ ہی ان پر بات کرنا چاہتے ہیں اور جب یہ اقتدار کی کشمکش و بھاگ دوڑ میں
مبتلا ہیں تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورت میں دنیا کی تاریخ میں کوئی
مثال نہیں ہے کہ نظام کے اندر رہ کے کوئی بدلاؤ آ سکے۔ اور یہ مختلف ملکوں
میں اس طرح کی کوشش کیں مگر بری ناکام و نامراد ہوئیں
مثال کے طور پر امریکہ میں جنوبی اور شمالی ریاستوں میں بڑے بڑے مذاکرات کے
دور ہوئے مگر جب یہ کامیاب نہ ہوئے تو اس وقت ان کے علاقوں میں محلے محلے
اور گلی گلی ایریاز میں خانہ جنگی ہوئی، جب ان میں اس پر اتفاق نہ ہو سکا
کہ سیاہ فام غلاموں کو ملکیت میں نہیں رکھا جاسکتا اور انہیں بھی حقوق دینے
ہوں گے۔ اس ہی طرح فرانس میں بھی بادشاہت اور مساوی حقوق کا مطالبہ کرنے
والوں کے درمیان لڑائی ہوئی۔
سابق انڈین وزیر خارجہ اور وزیر دفاع آنجہانی جسونت سنگھ نے 2008 میں اپنی
لکھی ہوئی قائد اعظم کی سوانح حیات جس میں یہ واضح طور پر یہ نشاندہی کی ہے
کہ آل انڈیا کانگریس نے آل انڈیا مسلم لیگ کی کسی تجویز کو اُس وقت قبول
نہیں کیا جس سے ہندو مسلم اتحاد قائم و دائم رہتا۔ بالآخر قائد اعظم کو
مشکل فیصلہ کرنا پڑا اس کے لیے ایک الگ ملک کا مطالبہ کرنا پڑا۔
اور پھر 1971 میں مجیب الرحمان بھی اسی ہی نقطہ پر پہنچے ان کے لیے علیحدگی
کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا جس پر کچھ لے دے کر بات کی جائے۔ ہمارے
موجودہ پاکستان کے عوام ایک مثالی قوم کے طور پر رہنا چاہتے ہے اور ملک میں
اس گلے سڑے نظام کو تبدیلی کی طرف لیجانے کے لیے ایک انقلابی سوچ ایک نئے
سسٹم یا نظام کی جدوجہد کے انتیظار میں اپنی سیاسی جماعتوں کی طرف دیکھ رہے
ہیں مگر حالیہ اور موجودہ سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما ء اُن کی سوچ اپنی
عوام سے بالکل مختلف سوچ رکھتے ہیں یہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں آخری حد تک
جانے کو تیار ہیں کہ نظام کو کچھ نہ ہو ان کے مفاد میں چلتا رہے تو چلے
ورنہ بھلے ملک تقسیم ہوجائے۔
پاکستان کی آزادی کے بعد پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے بعد عمران خان
نے قوم کو اشتراکیت کے نظریے پر جمع کیا اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا
کرنے کی کوشش کی مگر پھر دونوں ہی بالآخر اقتدار کے لیے استحصالی قوتوں کے
زیر اثر ہتھیار ڈالکر اس ہی نظام میں آگے اور اس ہی میں ہوکر رہے گئے. ان
دونوں رہنماؤں کو شروعات میں امداد اور حمایت مڈل کلاس طبقے نے ہی دی لیکن
جیسے ہی یہ اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے لگے اور منزل پر پہنچے، ان دونوں نے
استحصالی قوتوں کو اپنا شریک سفر بنایا۔ اور پھر نظام کو عوامی بنانے کی
بجائے یہ دونوں استحصالی نظام کا حصہ بنے۔
پاکستان میں جتنے بھی مارشل لا نظام کے خلاف جو بھی عوام کی بدولت کامیاب
تحریک نمودار ہوئیں وہ بھی عوام کو بیچ بھنور منجھدار میں چھوڑ کر مقتدر
حلقوں کی آغوش میں جا بیٹھیں اور جھپکیاں مارتی ہوئی مفاہمت کرتی رہیں۔ یہی
نہیں بےنظیر بھٹو شہید اور نواز شریف بھی اسی ہی استحصالی نظام کی بدولت
اقتدار کی منزل پر پہنچے ہیں اور کبھی بھی سنجیدگی سے اس کے خلاف تحریک نہ
چلا سکے اور نہ ہی دلچسپی لینے میں آمادہ ہوئے اور یہ نہ آتے یہ رہنماء
اتنے بے بس ولاچار نہ تھے یہ سب مُلکی اور صوبائی حکومتوں میں کئی بار بار
اپنی باریاں لینے کہ باوجود اس کی خاص وجہ صرف یہ ہی نظر آتی ہے کہ یہ اب
یہ اپنے آنے والے وارثوں کے لیے ان سے دو ہاتھ آگے اسی روش پر چل نکلے ہیں.
مسلم لیگ رہنماء نواز شریف جن کے نعرے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی صدا آئے دن
جلسوں و ریلیوں پر لگتے تو ہیں اور اس پر جذباتی تقاریر تو آئے دن ہوتیں
ہیں مگر ووٹ کی عزت کی بات تو کر رہے ہیں مگر موجودہ ناکارہ گلا سڑا نظام
کو بدلنے پر ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نہیں نکالتے اور نہ ہی یہ چاہتے کہ
کوئی اور اس پر بولے اور ووٹ کی عزت پاکستان کے اس موجودہ نظام میں ممکن
نہیں بلکہ ناممکن ہے اور یہ نعرہ لگا کہ پاکستانی عوام کو دھوکہ دینا ایک
بہت بڑا دھوکا ہے جو اس قوم سے کیا جارہا ہے یہی وہ تضاد ہے جس کا ان کے
پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
پاکستانی عوام کب تک ان سیاسی جماعتوں جن میں بڑی اور مرکزی سیاسی جماعت پی
ٹی آئی، پی ڈی ایم وغیرہ اور ( اسٹیبلشمنٹ ) کی طرف دیکھیں گی کہ وہ اس
نظام کوئی بدلاؤ لائینگے اور نظام کو بہتری کی طرف لے جائیں گے۔ کیا یہ
کوئی سوچ سکتا یا ( ممکن ) ہے کہ غیرجمہوری جماعتیں وقت کے ساتھ جمہوری بن
جائیں گی۔ایسا نظر نہیں آرہا بلکہ دن بدن ان جماعتوں میں غیرجمہوری رجحانات
بہت بڑھتے جارہے ہیں۔ اب یہ پاکستانی قوم پر منحصر ہے اس گلے سڑے نظام کا
حصہ بنے رہینگے یا اس سے اپنی آنے والی نسلوں کو اس گلے سڑے نظام کو اپنے
ملُک سے نکال باہر کریں ان سب کے خلاف ایک باقاعدہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں
پر زور ڈالا جائے .
اس لیے کہ مومن ایک ہی سوراخ سے کب تک ڈسا جائے گا؟
اگر پاکستانی عوام ان کی بات نہیں مانتے تو سائینس دان آئن سٹائن کی بات پر
کیا کہنگے جس نے ہمیں بتایا کہ کوئی عمل اگر دس ہزار بار بھی دہرایا جائے
تو نتیجہ وہی نکلے گا جو پہلی دفعہ نکلا تھا۔
ہمارے ملک کا پڑھا لکھا طبقہ جس میں دانشور حضرات ، شاعر ، لکھاری، ڈاکٹرز،
انجنئیرز، فنکارز، کھیلاڑی حضرات ، فرض ہر وہ طبقہ جو شعور رکھتا ہو وہ خود
سوچے ہر دھاندلی شدہ الیکشن کے بعد اس میں کوئی مثبت پہلو دیکھنے کی کوشش
کرتے ہیں۔ جو بھٹو کے بعد اس کی بیٹی اور اب نواسے سے انقلابی بننے کی امید
لگائے ہوئے ہیں۔ یا وہ جو دو دہائیوں سے یہ مشورہ دیتے رہے کہ خان صاحب کا
ساتھ دو ان کے پیچھے خاموشی سے لگے رہو اور قدم بڑھاؤ انقلاب لاؤ یا وہ جو
اب مریم نواز کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور اس کو انقلابی سمجھ رہے ہیں کہ یہ
تبدیلی لائیگی یہ وہی مسلم لیگ ن ہے جس نے گزشتہ مہینوں پہلے کچھ سیاسی
لوٹوں کو اپنی جماعت کا ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا کی اسلام آباد کی ایک
سینیٹ کی سیٹ مسلم لیگ ( ن) کی جھولی میں آجائیگی اور اگلی باری کا موقع
ملے.
آج کل جو عمران خان بھی ابھی تک ایک ہی نعرہ پر قائم ہیں کہ الیکشن کی
تاریخ دو دوسری کوئی بات نہ عوام کو اور نہ ہی عمران خان کے کارکنان کو
معلوم ہے. اس وقت عوام نہ الیکشن اور نہ ہی مارشل لاء کے حق میں ہے پاکستان
کی عوام کی اکثریتی آبادی نظام میں بدلاؤ کے حق میں ہے. پی ٹی آئی اور
حکمران جماعتوں میں بیک ڈور مزاکرات و گفت و شنید کے کئ ادوار پوجنے ہیں
مگر جس طرح سے رفتار دھیمی سے دھیمی ہورہی ہے مزاکرات اور گفت و شنید کے
دروازے بند ہو رہے ہیں اگر ان دروازوں کے بند ہونے سے پہلے قومی سیاسی
مذاکرات نہ کیے گئے اور عوامی جمہوریہ قائم نہ کی گئی تو پھر اس نظام کو
صرف عوامی کی طاقت ہی سے مسمار کرسکتی ہے یہ کام کسی سے زبردستی سے لائے
گئے لانگ مارچ یا دھرنے سے نہیں یا بریانی کی دیگوں سے نہیں ہوگا جس میں
جذباتی تقاریریں و شعلے برستے نعرے گانے اور ناچ و گانے کرنے سے ہی یہ سب
کچھ ہوتا تو کب کا ہوجاتا اس کے لیے بلکہ ہر شہر اور ہر گلی سے لوگ نکلیں
گے۔جب یہ عوام نکلیں گے تو پھر یہ کیا بنی گالہ کیا جاتی عمرہ کے علاوہ
پاکستان بھر کے بلاول ہاؤس بھی مشکل میں آجائینگےگے اور راولپنڈی والے بھی
کچھ نہ کر پائیں گے۔ یہ عوامی ریلا ملک توڑنے کے لیے نہیں بلکہ ملک بچانے
کے لیے نکلے گا۔ یہ لسانیت اور مذہبیت بھرا طوفان نہیں ہوگا بلکہ پوری
پاکستانی قوم ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر استحصالی قوتوں کے خلاف نکلے گی۔ بلکہ
پاکستان کے نظام اُنہیں اُس طرف لے جارہا ہے اگر اب بھی سمجھ نہیں پارہے تو
یہ اس ملک کے ساتھ ستم گیری ہے
ہمار ے ملک کی اشرافیہ کی یہ خوش فہمی میں مبتلہ ہے کہ پاکستان کے عوام
انقلابی نہیں ہیں، اس لیے کبھی نہیں اُٹھیں گے جبکہ روس، فرانس، چین اور
امریکہ کی تاریخ نکال کر پڑھیں تو ان کے عوام تو اشرافیہ کے ہم سے زیادہ
غلام در غلام تھے مگر جب کھڑے ہوئے تو پھر وہ انقلاب کی داستانیں رونما
ہوئی کے انسانیت بھی ادھر آکر شرمندہ ہے .عوام کے غیض و غضب کے پیمانہ کو
جانچیں اُسے مت آزمائیں ۔ اس ہی میں تمام جماعت اور لیڈران اور اقتدار سے
چمٹے خاندانوں کی بقا ہے۔ |