6 ستمبر ہماری تاریخ کا ایک روشن
دِن ہے جب پاکستان کی بہادر فوج نے لاہور میں ناشتہ کرنے کے خواب دیکھنے
والوں کا وہ حشر کیا کہ وہ عمربھر خواب دیکھنا بھول گئے،جب پاکستانی
شاہینوں نے بھارتی کرگسوں کے پرکاٹ اور قومی سلامتی کی طرف بڑھنے والے ہاتھ
پاﺅں توڑکررکھ دیے۔6ستمبر ایک دِن ہی نہیں ایک باب ہے اُس حسیں جذبے کاجس
نے بدروحنین کے شہیدوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے جرات واستقامت کی وہ داستان
رقم کی جس پر آج 46سال بعد بھی پوری دنیا انگشت بدنداں ہے۔آج ایک ایسے وقت
میں جب پاکستان دنیائے اسلام میں طاقتورترین فوج رکھنے کے ساتھ ساتھ واحد
ایٹمی ملک بھی ہے جس سے عالمِ کفر لرزاں ہے اور ہمیں کمزور کرنے کیلئے ہم
پر ایک نئے انداز سے حملہ آور ہے یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد جب
امریکی و نیٹو افواج نے افغانستان کا رخ کیا تو وطنِ عزیز کے نامور دفاعی
ماہرین نے اسی وقت ہی یہ کہہ دیا تھا کہ امریکہ کی افغانستان آمد صرف اسامہ
اور طالبان کو ''نافرمانی''کی سزا دینا ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ
امریکہ اپنے لئے مستقبل میں دردِ سر بننے والے ممالک چین،ایران روس اور سب
سے بڑھ کر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر نظر رکھنا چاہتا ہے بلکہ اس سلسلے
میں جنرل حمیدگل کا حکمت و دانش سے لبریز یہ فقرہ تو آج بھی زبان زدِ عام
ہے کہ ''نائن الیون بہانہ افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے'' اٰن کے
اس جامع تبصرے کی حقانیت کو گزشتہ ماہ ایک امریکی ٹی وی چینل کی یہ رپورٹ
بھی چغلی کھاتی نظر آتی ہے جس میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ امریکہ کا
مقصدِ اول پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا خاتمہ یا اُن کو اپنے قبضے میں لینا
ہے ''چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے نام پر
شروع کی گئی اس صلیبی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان ہمارا ہی ہوا ہے معاشی طور
پر پر ہم 67ارب ڈالر ان کوئلوں کی دلالی میں جھونک چکے ہیں جس کا براہِ
راست اثر ایک عام آدمی پر پڑا اور ملک غربت و بیروزگاری کی دلدل میں پھنس
کررہ گیا اوریہ ''کریڈٹ'' بھی اسی جنگ کوہی جاتا ہے کہ ہمارے حکمران دنیا
کو ''محفوظ''بنانے میں اس قدر گم ہوئے کہ اپنی عوام کی بنیادی اشیائے
ضروریہ کی فراہمی کی بنیادی ریاستی ذمہ داریوں تک کو فراموش کر بیٹھے
چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں بجلی،گیس اور پانی تک سے بھی ہم محروم ہیں جس سے
ایک عام آدمی ذہنی مریض اور معیشت کا بیڑا غرق ہوکررہ گیا ہے اور آئے روز
مختلف شہروں سے اٹھنے والی بیگناہ پاکستانیوں کی لاشیں بھی اسی پرائی جنگ
کا ہی نتیجہ ہیں جو آج افغانستان کے سے نکل کر ہمارے درودیوار ہلا رہی
ہے،اور یہ دن بھی اس جنگ نے ہمیں دکھایا کہ وہ کشمیر جو جنگ ستمبرکا باعث
ہوا ہم اس سے پیچھے ہٹ گئے اور ہم نے کشمیر میں لڑنے والی بے دام پاکستانی
فوج یعنی مجاہدین کو دہشتگرد قرار دے دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج بھارت
کو کشمیر میں ظلم و بربریت کی کھلی چھوٹ ہے اور ہم بھارتی سرحد سے فوجیں
ہٹا کر اپنے ہی شہروں میں تعینات کررہے ہیں ۔یہ وہ تمام عوامل ہیں جو نہ
صرف عوام کو مایوسی کی دلدل میں پھینک رہے ہیں بلکہ فوج کو بھی کمزور اور
متنازعہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔اور یہ کون نہیں جانتا کہ جنگیں ہمیشہ فوج
کے ساتھ ساتھ عوامی جذبے سے جیتی جاتی ہیں جس کا ایک مظاہرہ ہمیں خود جنگ
ستمبر میں نظر آتا ہے جب پوری قوم اپنی بہادر سپاہ کے پیچھے سیسہ پلائی
دیوار بن کر کھڑی تھی جس سے ہم نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ناکوں چنے
چبوادئے ۔آج جنگِ ستمبر کے 46سال بعد اگر ہم حقیقت پسندی سے آج اُن عوامل
کا جائزہ لیں جو 1965ءمیں ہم میں بحیثیت ایک قوم موجود تھے جنہوں نے ایک
ڈکٹیٹر کی پکار پر بھارتی غرور کو خاک میں ملا دیا تھا تو یقیناََ یہ بحث
ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردے گی اور اس بحث کا نتیجہ لازمی طور پر یہی
نکلے گا کہ آج ہمارے حکمرانوں کودہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ فوری ختم
کرنے سمیت اپنی دیگر داخلی و خارجی پالیسیوں کو بدل کر انہیں امریکہ،بھارت
و اسرائیل کے مفادات کی بجائے عوامی مفادات کے مطابق ڈھالنا ہوگااور عوام
کی خوشحالی و ترقی کے ہنگامی منصوبے شروع کرنا ہوں گے اور سب سے بڑھ کر یہ
کہ ہمیں بحیثیت قوم بشمول حکمران اجتماعی توبہ کا اہتمام کرتے ہوئے قرآن و
سنت کی جانب رجوع کرنا ہوگا جس سے منہ پھیر کر ہم بہترین وسائل ،ایٹمی طاقت
اوردنیا کی بہترین فوج رکھنے کے باوجودگوناں گوں سیکورٹی اور معاشی مسائل
کا شکار ہیں اور دنیا ہم پر ہنس رہی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ جس دن ہم نے
اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے خود انحصاری اور قومی غیرت پر مبنی زندگی گزارنے
کا فیصلہ کرلیا اسی دن پورا عالمِ کفر ہمارے قدموں کے نیچے ہوگا کیوں کہ یہ
میرے اللہ کا وعدہ ہے کہ ''اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو'' - |