آپ نے دیکھا ہوگا کہ اونٹ پر بیٹھنے کی سب سے بڑی بات یہ
ہے کہ اونٹ اٹھنے کے انداز میں دوسرے جانوروں سے مختلف ہوتا ہے ۔ سب سے
پہلے وہ اپنی پچھلی ٹانگیں کھڑی کرتا ہے ۔ دنیا کے دوسرے سارے جانور اگلی
ٹانگیں پہلے کھڑی کرتے ہیں اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اوپر بیٹھنے
والا سب سے پہلے سجدہ کرتا ہے ۔ یہ اللہ نے اس کا ایک کام رکھا ہے ۔ آدمی
چاہے یا نہ چاہے سجدہ خود بخود ہو جاتا ہے ۔
قومِ ثمود کی طرف حضرت صالحؑ کو اللہ نے بھیجا تھا ۔ اور وہ بہت اونچے درجے
کے نبی تھے ۔ انہیں حکم ہوا کہ جا کر اس بے ہودہ قوم کو راہ راست پر لاؤں ۔
وہ بڑی بگڑی قوم تھی ۔بیشتر میں خرابی یہ تھی کے ان کے پاس دولت بہت زیادہ
تھی ۔ علاقہ بہت سرسبز تھا ۔ ثمود کے لوگ اپنے تئیں تکبر کے مارے ہوئے اور
اپنے آپ کو بہت برتر سمجھتے ہوئے اونچے پہاڑوں کو تراش کر چھینی ، ہتھوڑی
سے اسے چھیل چھیل کر ان پہاڑوں کے اندر نہایت خوبصورت محل بنا تے تھے ۔ ایسے
اعلی درجے کے کمرے ، ستون محرابیں بناتے کے دیکھنے سے تعلق رکھتی ۔ یہ ان
کا بڑا کمال تھا ۔ وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔ تب اللہ نے حضرت صالحؑ کو
نبی بنا کے ان کے پاس بھیجا ۔ انہوں نے کہا ، ہم تجھ کو پیغمبر نہیں مانتے
۔ اگر ہم اپنی طبیعت پر بوجھ ڈال کر آپ کو پیغمبر مان بھی لےتو اس کیلئے
ایک شرط ہے ، کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھا دو ۔ ثمود قوم نے کہا ۔ حضرت صالحؑ
نے فرمایا ! آؤ ! تم کون سا معجزہ چاہتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم یہی چاہتے
ہیں کہ سامنے چٹیل پہاڑ ہے اور بہت چکنا اور مضبوط ہے ، کروڑوں سال سے اپنی
جگہ پر قائم ہے ، ہم یہ چاہتے ہیں کہ تیرا اللہ اس پہاڑ سے ایک اونٹنی
پیدا کرے ۔ وہ اونٹنی آئے ہمارے ساتھ ، ہماری بستی میں رہے ۔ تو پھر ہم
مانیں گے تم پیغمبر ہو ۔
چنانچہ انہوں نے دعا کی اور اللہ سے اس معجزے کو طلب کیا ۔ ان چٹیل پہاڑوں
کے درمیان میں سے اللہ کے حکم سے اونٹنی نمودار ہوئی ۔ تو حضرت صالحؑ نے
فرمایا ، تمہاری خواہش کے مطابق ، تمہاری آرزو کے مطابق یہ اونٹنی انہی
پہاڑوں کے درمیان میں سے پیدا ہو کر آپ کے درمیان آ گئی ہے ، اور اب یہ آپ
کی مہمان ہے ۔ اب اللہ نے ایک شرط عائد کی ہے ، کہ بستی کہ ایک کنویں سے یہ
پانی پئے گی اور اس کا ایک دن مقرر ہوگا ۔ اس دن وہاں سے کوئی دوسرا آدمی
پانی نہیں لے سکے گا ۔ نہ مویشی نہ چرند پرند نہ انسان ۔ اونٹنی ہماری معزز
ترین مہمان ہے ۔ اس کی دیکھ بھال کرنا ہمارا فرض ہے ۔ انہوں نے کہا بہت
اچھا ہم ایسا ہی کریں گے ۔ کچھ دن تو انہوں نے اونٹنی کو برداشت کیا ، اور
باری کے مطابق جو دن مقرر تھا اسے پانی دیتے رہے ۔ انسان پھر انسان ہیں ،
ان میں ایک آدمی ایسا پیدا ہوا جس نے مزید آٹھ آدمیوں کو ورغلایا اور وہ نو
ہوگئے انھوں نے کہا یہ کیا شرط ہم نے اپنے آپ پر عائد کرلی ہے اور اس
اونٹنی کی کیا حیثیت ہے ، ہم اس کا کسی نہ کسی طرح سے قلع قمع کردے چنانچہ
انہوں نے رات کے وقت اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں ، جو کہ ٹخنوں کے اوپر کا
حصہ ہوتا ہے ۔ تو اونٹنی ظاہر ہے وہاں پر اپاہج ہو کر بیٹھ گئی ۔ صبح کو جب
سب لوگ بیدار ہوئے اور اونٹنی کے پانی پینے کی باری تھی ۔ لیکن وہ تشریف نہ
لائی ۔ کیونکہ وہ وہاں نہ تھی ۔ جب حضرت صالحؑ کو علم ہوا کہ یہ واقعہ ہوا
ہے ۔ تو پھر انہوں نے اپنی قوم سے کہا ، یہ بہت برا ہوا نہ صرف تم نے اس
معجزے کو جھٹلایا ، بلکہ اس مہمان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ۔ اب تین دن
کے اندر اندر تمہارا قلع قمع ہو جائے گا اور تم نیست و نابود ہو جاؤ گے ۔ چنانچہ
جیسا فرمایا گیا تھا بالکل ویسے ہی ہوا ۔ پہلے دن جیسے کہ بتاتے ہیں کہ ان
کے منہ پیلے ہوئے ، اگلے دن بےحد سرخ ہوگئے ، پھر کالے ۔ پھر ایک ایسی
چنگھاڑ ، جیسے آجکل بم بنے ہیں ، چنھگاڑ آئی اور وہ سارے کے سارے اُوندھے
منہ گر گئے ، اور نیست و نابود ہو گئے پاکستان کا وجود میں آنا ایک معجزہ
تھا ۔ اتنا بڑا معجزہ ، جتنا بڑا قومِ ثمود کے لیے اونٹنی کے پیدا ہونے کا
تھا ۔ تم نے صالحؑ کی اونٹنی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ۔ تم نے اس کے
ساتھ وہی رویہ اختیار کیا ہوا ہے جو ثمود نے اونٹنی کے ساتھ کیا تھا ۔ اس
اونٹنی سے جو تم نے چھینا ہے اور جو کچھ لوٹا ہے ، اندر کے رہنے والو ، اس
کو لوٹاؤ ، اور اس کو دو
اس کو کوئی عام چھوٹا سا معمولی سا جغرافیائی ملک سمجھنا چھوڑ دو ۔ یہ حضرت
صالحؑ کی اونٹنی ہے ۔ ہم سب پر اس کا ادب اور اس کا احترام واجب ہے ۔ اس
کی طرف رخ کر کے کھڑے رہنا اور اب تک جو کوتاہیاں ہوئی ہے ان کی معافی
مانگتے رہنا ۔
اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا
فرمائے ۔۔۔آمین
|