آزاد کشمیر میں مہنگائی اور تاجروں کے مسائل

وفاق تاجر برادری سے اپیل کر رہا ہے کہ وہ حکومت کے توانائی کے تحفظ کے منصوبے کی حمایت کریں جس میں مارکیٹوں اور ریستورانوں کی جلد بندش شامل ہے، تاکہ قومی وسائل کے منصفانہ استعمال کو یقینی بنایا جا سکے اور درآمدی بل کو کم کیا جا سکے۔ اس سے تیل کی درآمد اور ڈالر کی قیمت میں کمی آئے گی جو زراعت اور ادویات سمیت ملک کی ترقی پر خرچ کی جائے گی۔وہ ملک بھر کی تاجر برادری سے قومی وسائل کو بچانے کے لیے اس ''جہاد'' میں حصہ لینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔وہ عوام پر مزید بوجھ ڈالے بغیر آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔حکومت آئی ایم ایف کے سربراہ کو بدترین سیلاب سے بری طرح متاثر ہونے والی ملک کی معاشی حالت پرآگاہ کرتے ہوئے واضح کر چکی ہے کہ امیروں پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے، غریبوں پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ مخلوط حکومت ملازمتوں کی فراہمی سمیت عوام کی ریلیف کے لیے اپنی پوری کوشش کرنے کی بات کر رہی ہے۔ ملک میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ پاکستان کو ایک عظیم قوم کی طرف لے جانے کی بات کرتی ہے۔

آزاد جموں و کشمیر وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان بھی کچھ کرنا چاہتے ۔ مگر ان کے سر پر عدم اعتماد کی دو دھاری تلوار لٹکا دی گئی ہے۔وہ خطے کی معیشت کے استحکام کے لیے فیصلہ کن اقدامات کا اشارہ دیتے ہیں۔وہ بینک آف آزاد جموں و کشمیر کو شیڈول درجہ دلانے سمیت اس کے 49 فیصد شیئرز بزنس کمیونٹی کو دینا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیر خزانہ اور بینک بورڈ کے چیئر مین خان عبد الماجد خان نیصدر خاور سعید کے ساتھ مل کر انتہائی محنت اور لگن سے کام کیا ہے۔ بینک نے حکومت کو ٹیکس دینے ، اپنے ملازمین کی تنخواہوں کے ساتھ 950 ملین روپے کا منافع کمایا ہے۔ تاجر برادری چاہتی ہے کہ حکومت کاروبار کے فروغ کے لئے بلا سود قرضے فراہم کرے۔ خطے میں کاروبار کے فروغ کے لئے مسلسل جدوجہد کرنے والے مرکزی انجمن تاجراں مظفر آباد کے وائس چیئر مین گوہر کشمیری کہتے ہیں کہ ان کی انجمن کے ساتھ صرف دارالحکومت کے 10ہزار تاجر ہیں۔ حکومت کاروبار کو فروغ دینا چاہتی ہے تو انہیں بلاسود قرضے دے ۔اصل رقم واپسی کی مدت کم از کم دو سال رکھی جائے۔وہ کہتے ہیں مظفر آباد اور چند کلو میٹر کے فاصلے پر مانسہرہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مظفر آباد میں آٹے کا بحران پیدا کیا گیا مگر یہاں کا کوٹہ کہاں گیا۔کسی نے آٹا سمگل ہونے سے روکنے کی کوشش کی ہوتی تو یہ آٹا 40روپے فی کلو سے160روپے تک نہ پہنچتا۔ اس میں کون لوگ ملوث ہیں۔ انتظامیہ کیوں ناکام ہو رہی ہے۔

وزیر اعظم تنویر الیاس نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے اسکل یونیورسٹی سمیت ایس ای سی پی اور نیپرا کی طرز پر ادارے قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بجلی کے محکمے کو مالی اور انتظامی خود مختاری دینے کی بات کرتے ہیں۔ پاور سپلائی کمپنی کو ڈسکو کی طرز پر تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے تا کہً سالانہ 7 ارب روپے کی بچت ہو۔ ٹیکس نظام میں بہتری کے بعد ٹیکس دہندگان کی تعداد ایک لاکھ تک بڑھائی جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں ایسے سرمایہ کار لا رہے ہیں جو ریاست میں اپنا سرمایہ لگانے کے خواہشمندہیں۔وزیر خزانہ کی کوشش سے گزشتہ چھ ماہ کے دوران ٹیکس فائلرز کی تعداد 5000 سے بڑھ کر 38000 ہوگئی۔ سسٹم میں کام کرنے والے فائلرز کی تعداد 58000 تک پہنچ گئی، ٹیکس فائلرز کی تعداد 100000 تک بڑھائی جارہی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی معیشت پرائیویٹ سیکٹر خاص طور تاجر برادری کی ترقی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔مستقبل میں آزاد کشمیر میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا بہترین ماڈل لایا جا سکتا ہے۔ خطے کے ٹیکس نظام کو آسان اور کاروبار دوست بنانے کے لیے موجودہ پیچیدگیوں کو دورکیا جا رہا ہے۔ ان لینڈ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو اصل حالت میں بحال کیا جا رہا ہے۔ تاجروں اور سرمایہ کاروں کوسہولیات ہوں تو کاروبار فروغ پا سکتا ہے۔ سی بی آر مقامی صنعتکاروں کی حوصلہ افزائی کرے، ٹیکس وصولی کے نظام کو عوام دوست اور شفاف بنا کر ٹیکس دہندگان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔لوگوں کو یہ احساس دلایا جا سکتا ہے کہ ہماری ریاست ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ آپ حکومت سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جب ریاست کی بات آتی ہے تو ہم ایک ہیں اور ریاست کا ہر ایک شہری اس کی فلاح و بہبود کے لیے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کا پابند ہے۔ آزاد کشمیر کے 100 نمایاں ٹیکس دہندگان کی فہرست مرتب کی جا رہی ہے تا کہ حکومت ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ سی بی آر ایکٹ میں قانونی خامیاں دور کی جا رہی ہیں۔ سی بی آر 1948 سے 1979 تک حکومت آزاد کشمیر کے تحت کام کر رہا تھا ۔ 1980 میں مرحوم جنرل حیات خان کے دور میں اس محکمے کو کشمیر کونسل کے کنٹرول میں لایا گیا۔ 13ویں ترمیم کے تحت آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے سی بی آر پر اپنا اختیار دوبارہ حاصل کر لیا۔ سی بی آر اس وقت سی بی آر ایکٹ 2020 کے تحت کام کر رہا ہے۔ 13ویں ترمیم کے بعد سی بی آر نے ٹیکس وصولی میں اپنے ہدف سے زیادہ آمدنی حاصل کی ہے۔سال 2020-21 میں، سی بی آر نے 28 ارب روپے کے محصولات کے ہدف کے مقابلے میں 29 ارب روپے کے ٹیکس جمع کئے۔2021-22 میں ٹیکس وصولی کا ہدف 31 ارب روپے تھا جو پورا کر لیا گیا۔ مقامی معیشت کو فروغ دینے اور ریاست کے لئے زیادہ آمدنی پیدا کرنے کے لیے سیاحت کو صنعت کا درجہ دینے کے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔اس سے ٹیکس نیٹ بھی بڑھے گا۔

ملک کی طرح آزاد کشمیر کی تاجر برادری بھی کوویڈ 19 لاک ڈاؤن کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ اب کاروباری برادری کو غیر روایتی شعبوں جیسے کہ ای کامرس اور ڈیجیٹل دنیا میں مزید اقتصادی مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔کووڈ-19 کی وجہ سے کاروبار بڑی حد تک ذاتی خریداری سے ڈیجیٹل طریقوں کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔خطے کا کاروبار اس وجہ سے بھی بڑھ سکتاہے کہ وفاقی حکومت نے ہزارہ موٹروے کو مانسہرہ مظفرآباد موٹروے سے ملانے کے لیے پوٹھہ انٹر چینج کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دے دی ہے۔ بدرہ انٹر چینج ہزارہ موٹروے کو قراقرم ہائی وے اور مانسہرہ شہر سے جوڑتا ہے لیکن مانسہرہ مظفرآباد موٹروے سے دور واقع ہے۔ مانسہرہ شہر اور اس کے مضافات کے رہائشی ہزارہ موٹر وے تک پہنچنے کے لیے قراقرم ہائی وے کے ذریعے قلندر آباد انٹرچینج کا استعمال کرتے تھے، اس لئے پوٹھہ انٹر چینج کی تعمیر سے سفر کا وقت کم ہو جائے گا۔ ہزارہ موٹر وے کو مانسہرہ مظفرآباد موٹروے سے براری کے راستے منسلک کیا جائے گا اور بکریال کے علاقے سے گزرے گا۔اس سے آزادکشمیر کو معاشی فائدہ ہو گا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ میرپور میں طویل انتظار کے بعد ’ڈرائی پورٹ کمپلیکس‘ کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔منگلاجھیل کے کنارے واقع شہر کی خشک بندرگاہ، جو نہ صرف برطانیہ میں مقیم لاکھوں تارکین وطن کا گھر ہے بلکہ آزاد خطے کا صنعتی مرکز بھی ہے،ڈرائی پورٹ کے لئے مقامی اور غیر مقامی درآمد کنندگان، صنعت کاروں اور تاجروں کا مطالبہ تھا۔سردار تنویر الیاس کے آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس مطالبے نے زور پکڑا۔مسٹر الیاس، ایک رئیل اسٹیٹ ٹائیکون، جن کا خاندان پاکستان کے ساتھ ساتھ سعودی عرب میں بھی وسیع کاروبار چلاتا ہے، آزاد جموں و کشمیر کی سیاست میں باضابطہ طور پر قدم رکھنے سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کے کاروبار، سرمایہ کاری اور تجارت سے متعلق امور کے مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔آزاد جموں و کشمیر کے سیکرٹری تجارت، صنعت اور معدنیات مرزا وجاہت رشید بیگ کے مطابق ڈرائی پورٹ کمپلیکس 815.8 ملین روپے کی تخمینہ لاگت سے 110 کنال سے زیادہ کے پلاٹ پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی اہم منصوبہ 32 سال سے زیر التوا تھا بالآخر اسے دن کی روشنی دیکھنے کو ملی۔

یہ تاریخی منصوبہ کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ملحقہ علاقوں میں رہنے والوں کے لیے سماجی و اقتصادی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع کھولے گا۔ میرپور میں ایک صنعتی زون بھی قائم کیا جارہا ہے۔ اس سے نہ صرف بین الاقوامی اور اندرون ملک تجارت میں آسانی ہوگی بلکہ ہماری ریاست میں آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔میرپور میں بین الاقوامی ہوائی اڈہ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کشمیری نژاد امریکی تاجر نے آزادخطے کی پہلی بین الاقوامی نجی ایئر لائن کا لائسنس بھی حاصل کیاہے۔اس سب سے آزاد کشمیر میں کاروبار کا فروغ ہو گا۔ تاجر برادری بھی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ تا ہم یہ ضروری ہے کہ حکومت تاجر برادری کو کاروبار کے فروغ کے لئے ریلیف دے اور اس کے ساتھ بھرپور تعاون کرے تا کہ باشعورتاجر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے خطے میں ناجائز منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں، ناقص اور غیر معیاری اشیاء کی خرید و فروخت کرنے والوں کے قلع قمع کے لئے حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کریں۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 487914 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More