مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کو اراضی کے نئے کالے
قانون کے تحت زمینوں سے جبری بے دخلی مہم کے ساتھ بھارت میں بھی مسلمانوں
کے خلاف آپریشن کو دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ بھارتی ریاست اتر
پردیش کے ضلع پریاگ راج میں ایک تاریخی شاہی مسجد کو مسمار کر دیاگیا۔یہ
مسجد 16ویں صدی میں شیر شاہ سوری کے دور میں تعمیر کی گئی جسے بھارتی فورسز
کی موجودگی میں منہدم کیاگیا۔ تاریخی مسجد کو مسمار نہ کرنے کیلئیکیس ضلعی
عدالت میں زیر سماعت تھااس کے بعدباوجود مسجد کو مسمار کر دیاگیا۔ گزشتہ
سال اگست میں لہ آباد ہائی کورٹ نے مسجد کومسمار کئے جانے کے خلاف درخواست
کو مسترد کردیاتھا۔ مسجد کو مسمار کئے جانے کے خلاف مسلمانوں میں شدید غم و
غصہ پایاجاتا ہے۔
دنیا میں قوانین عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بنتے ہیں وہیں مودی حکومت
مسلمانوں کومعاشی طور پر مفلوک الحال بنانے، بے اختیار کرنے اور انتقامی
سزا دینے کیلئے کالے قوانین بنا رہی ہے۔نئے اراضی قوانین کے تحت کشمیریوں
کو جبری طورپر انکی زمینوں سے بے دخل کرنے کے اس جابرانہ قانون مسلمانوں کی
توہین کی جا رہی ہے۔بندوق،فوجی طاقت، ریاستہ دہشتگردی کے وحشیانہ استعمال
اور مقبوضہ علاقے میں رائج کالے قوانین کے ذریعے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی
کوکچلنے میں ناکام ہونے کے بعدمقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کو انکی زمینوں سے
بے دخل کرنے کیلئے اراضی کا نیا قانون متعارف کرایا گیا ۔ تجاوزات کے نام
پر کشمیریوں کو انکی اراضی سے بے دخل کرنا بی جے پی کا سیاہ کارنامہ ہے۔
وادی چناب اور پیر پنجال کے مسلمانوں کوانکی زمینوں اور دیگر جائیدادوں سے
بے دخل کرنے کا مقصد کشمیریوں کو ہجرت کرنے پر مجبورکرنا ہے۔
قابض حکام جموں میں انسداد تجاوزات مہم کے نام پر مسلمانوں کے گھروں کو
مسمار کر رہے ہیں۔مہم کا نشانہ بننے والے کئی دہائیوں سے علاقے میں رہ رہے
ہیں۔وہ اچانک غیر قانونی قابض بنا دیئے گئے۔ مسلمان باشندوں کو چن چن کر
نشانہ بنایا جا رہا ہے۔یہ سب روشنی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے۔ جن سنگھی
رہنماؤں کے گھر بھی روشنی ایکٹ کے تحت بنائے گئے ہیں۔مگر ان کے خلاف آپریشن
نہیں کیا جا رہا ہے۔مسلمانوں کے گھر گرائے جا رہے ہیں مگر بی جے پی اپنے
رہنماؤں کے گھر نہیں گرا رہی ہے۔بی جے پی ایک طرف دعویٰ کرتی ہے کہ وہ
قبائلی برادریوں کو بااختیار بنا رہی ہے مگر دوسری طرف وہ مسلم آبادی کے
خلاف بر سر پیکار ہے اور انہیں بے گھر کررہی ہے۔لوگوں نے گھر کی تعمیر میں
زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کی مگر اب وہ نہیں جانتے کہ ان کا مستقبل کیا
ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی تازہ رپورٹ میں ہندوستانی مسلمانوں اور کم آمدنی
والے طبقوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے لئے مختلف ریاستی حکومتوں کی مہم
سوال اٹھائے گئے ہیں۔ ہندوستان کی مختلف صوبائی حکومتوں نے ماورائے عدالت
سزا کے اقدام کے طور پر کم آمدنی والے گروہوں خصوصاً اقلیتوں ،مسلمانوں کے
خلاف گھروں کی مسماری کی مہم چلائی ہے۔
نئے سال کے آغاز پر جنوری 2023 میں، ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی
ریاست اتر پردیش کے شدت پسند وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے، جسے 'بلڈوزر بابا'
بھی کہا جاتا ہے، اس طرح کے انہدام کی مہم کو ممکنہ ''امن کی علامت'' کے
طور پر استعمال کرنے کا جواز پیش کیا ہے۔ گھروں کی مسمار ی مہم بی جے پی کی
زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف تیزی سے چلائی گئی ہے۔گزشتہ سال
اپریل میں، مدھیہ پردیش، گجرات اور دہلی کے حکام نے فرقہ وارانہ تصادم کی
آڑ میں مسلمانوں کی ملکیتی جائیدادوں کو منہدم کر دیا۔ اگرچہ ڈھانچے کو غیر
قانونی قرار دے کر مسمار کرنے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن
مبصرین اور انسانی حقوق کے ادارے اس تباہی کا مقصد مسلمانوں کو اجتماعی سزا
دینا سے تعبیر کرتے ہیں۔مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے وزیر داخلہ نے عوامی
طور پر دھمکی دی تھی کہ جو لوگ ''پتھراؤ'' میں ملوث تھے ان کے گھروں کو ''ملبے
میں تبدیل کر دیا جائے گا''۔ بی جے پی کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے تین
مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کیا اور الٹا ان پر فرقہ وارانہ تشدد میں حصہ
لینے کا الزام لگا دیا لیکن ہندو برادری کے اسی طرح کے ملزموں کو نظر انداز
کیا گیا ۔ بھارت میں مسلمان ہی امتیازی سلوک کا شکار بنائے جا رہے ہیں۔
تشدد سے متاثرہ دہلی جہانگیر پوری علاقے میں مقامی اداروں اور پولیس کی
مشترکہ انسداد تجاوزات مہم کے دوران مسلمانوں کی تعمیرات کو مسمار کرنے کے
لئے بلڈوزرچلائے گئے۔جون میں، بی جے پی کے ایک سیاست دان کے پیغمبر محمدﷺ
کی توہین کی وجہ سے پورے بھارت میں مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔
جھارکھنڈ میں پولیس نے مظاہرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا،
جس سے دو افرادشہید ہو گئے۔ اتر پردیش میں حکام نے مسلمانوں کے گھروں کو
مسمار کر دیا جن پر احتجاجی تشدد کے پیچھے ''کلیدی سازش کار'' کا الزام لگا
یا گیا۔ریاستی حکومتوں کے پاس کوئی ''قانونی اجازت'' نہیں تھی۔ متعدد بی جے
پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں حکام نے احتجاج یا مبینہ جرائم کی سزا کے
طور پر قانونی اجازت یا مناسب عمل کے بغیر مسلمانوں کے گھروں اور جائیدادوں
کو مسمار کر دیا۔اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے جون 2022 میں بی جے پی
کی زیرقیادت مرکزی حکومت کو خط لکھاجس میں مسلم برادریوں اور دیگر کم آمدنی
والے گروہوں کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے خلاف
من مانی گھروں کی مسماری پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔خصوصی نمائندوں نے
کہا کہ بھارتی حکام ان واقعات کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہے۔ انسانی حقوق
کے عالمی معیارات کی خلاف ورزی کرنے خاص طور پر اقلیتوں کے خلاف بی جے پی
کی طرف سے اکثریتی جارحیت کے بڑھتے ہوئے استعمال کی تفصیل بھی پیش کی جاتی
رہی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے
مذہبی اقلیتوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک، پرامن اختلاف رائے کو دبانا، اور
آزادی اظہار کو دبانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ بی جے پی کی زیر
قیادت حکومت نے مذہبی اور دیگر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ منظم
امتیازی سلوک اور بدنامی کا سلسلہ جاری رکھا ہو اہے۔ بی جے پی کے حامیوں نے
پرتشدد حملوں کا ارتکاب کیا۔ مودی کا ہندو اکثریتی نظریہ انصاف کے نظام اور
نام نہاد قومی انسانی حقوق کمیشن جیسے آئینی اداروں سمیت اداروں میں تعصب
کی عکاسی کرتا ہے۔
بی جے پی کی زیرقیادت ہندوستانی حکومتہی آمرانہ تحریکوں کو آگے بڑھانے میں
ریاستی اداروں کی فعال مداخلت بنیادی طور پر ہندوستان میں بڑے پیمانے پر
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ذمہ دار ہے۔بھارتی حکام نے سول سوسائٹی کے
کارکنوں اور آزاد صحافیوں کو سیاسی طور پر محرک مجرمانہ الزامات بشمول دہشت
گردی کا استعمال کرتے ہوئے خاموش کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، تاکہ
حکومتی زیادتیوں کو بے نقاب یا تنقید کرنے والوں کو جیل میں بھر دیا جائے۔
حکومت غیر ملکی فنڈنگ کے ضوابط اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کو حقوق
گروپوں، سیاسی مخالفین اور دیگر کو ہراساں کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔
ریاستی حکام عیسائیوں، خاص طور پر دلت اور آدیواسی برادریوں کو نشانہ بنانے
کے لئے جبری مذہب کی تبدیلی پر پابندی کے خلاف قوانین کا ''غلط استعمال''
کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے 2002 کے فرقہ وارانہ تشدد میں
بلقیس بانو کے اجتماعی عصمت دری کے 11 ہندو مجرموں اور اس کے خاندان کے 14
افراد کی رہائی کا بھی خاص طور پر ذکرکر رہے ہیں کہ جس میں ''خواتین کے
خلاف تشدد کے واقعات میں بھی اقلیتی برادریوں کے ساتھ حکومت کا امتیازی
رویہ''دکھایا گیا ہے۔
کشمیرکی مسلم اکثریتی ریاست جو اب جبری طور پرمرکز کے زیر انتظام علاقے میں
تبدیل کر دی گئی ہے، آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے تین سال بعد بھی، آزادی
اظہار، پرامن اجتماع اور دیگر بنیادی حقوق پر پابندیاں جاری رکھی گئی
ہے۔پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے جیسے کالے قوانین کے تحت صحافیوں اور
کارکنوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔ بھارتی قومی انسانی حقوق کمیشن نے
گزشتہ سال کے پہلے نو مہینوں میں 147پولیس حراست میں، 1,882 عدالتی حراست
میں، اور 119 ماورائے عدالت قتل کے واقعات درج کئے۔مگر فورسز کے خلاف کوئی
کارروائی نہ ہوئی۔ آرمڈ فورسز (خصوصی اختیارات) ایکٹ کے ذریعے فورسز کے لیے
استثنیٰ جاری رکھا گیا ۔مسلح افواج (خصوصی اختیارات) ایکٹ (AFSPA) کے تحت
لائے گئے بھارتی اضلاع کی تعداد کم کردی گئی۔ تاہم، یہ مقبوضہ جموں و کشمیر
اور چار شمال مشرقی ریاستوں کے 90 میں سے 43 اضلاع میں نافذہے، جو انسانی
حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود بھارتی فورسزکے اہلکاروں کو
پراسیکیوشن سے استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔
بھارتی عدالتیں بھی قوم پرست بی جے پی کے مفاد میں فیصلے کر رہی ہیں۔مسلم
طالبات بی جے پی کی زیر قیادت کرناٹک ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب نہیں
پہن سکتی ہیں۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے گزشتہ سال کے اوائل میں ریاست کے تعلیمی
اداروں میں حجاب یا اسکارف پر پابندی کے ریاستی حکومت کے حکم کو برقرار
رکھا تھا۔ بھارتی حکام اقلیتوں کے خلاف بدسلوکی کے ذمہ داروں کے خلاف
کارروائی کرنے کے بجائے اس کے ناقدین کو جیلوں میں ڈالنے اور انسانی حقوق
کے گروپوں کو بند کررہے ہیں۔بھارت میں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف
ورزیوں کے بعد اب بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کے گھروں کو
بلڈوز کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض فورسز نے انتقامی کارروائی
کرتے ہوئے درجنوں گھر آزادی پسندوں کی ملکیت کی آڑ میں بلڈوز کر دیئے ۔ اب
یہی واردات جموں خطے ، بھارتی ریاستوں میں بھی دوہرائی جا رہی ہے۔ بھارت
میں اقلییوں کے تحفظ کے لئے پاک بھارت معاہدوں کے تحت پاکستان کو دنیا میں
آواز بلند کرنی چاہیئے۔
|