استحصالی طبقہ اور مظلوم عوام

والد کی جدایٔ۔ حاجی سرور حسین ۔ ایک عہد ساز شخصیت (1944-2023)

 اگر پاکستانی عوام ا س طبقہ سے بھلائی کی امید لگائے بیٹھے ہیں جو 75سال سے ان کا خون چوس چوس کر اپنی تجوریاں لبا لب بھر چکے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے ۔ پاکستان میں دو طبقے ہیں ،ایک وہ جو محنت کرتا ہے اور اپنے محنت کے بَل بوتے پر زندگی کے پہیے کو جیسے تیسے رواں دواں رکھتا ہے ۔ دوسرا وہ طبقہ ہے جو اپنے ہاتھ سے کچھ نہیں کرتا اور دوسروں کی محنت سے کمائی ہوئی دولت بٹور کر اپنی دولت میں اضافہ کرتا ہے ،جمہوریت کے لبادے میں چھپ کر دوسرے ممالک سے قرضہ لے کر بیرونِ ملک بینکوں میں جمع کرتا رہتا ہے ۔،جائیدادیں بناتا ہے ، ان کے بچے باہر ممالک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ،عیاشیاں کرتے ہیں ۔پاکستان میں وہ صرف حکمرانی کرنے آتے ہیں ۔ مثال اپ کے سامنے ہے ، زرداری کا بیٹا بلاول جو آجکل ہماراوزیرِ خارجہ ہے ، سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا ،آکسفورڈ یونیورسٹی انگلینڈسے تعلیم حاصل کی اور 34سال کے عمر میں وزیر خارجہ بنا ،کل کو وزیر اعظم بھی بن جائے گا کیونکہ یہاں تو وزیراعظم کا عہدہ بھی وراثت میں مِلتا ہے ۔ نواز شریف کے بیٹے بھی بیرونِ ملک رہائش پذیر ہیں، وہاں کاروبار کر رہے ہیں ،ان کا جینا مرنا پاکستان سے باہر ہے ۔ عمران خان کے بیٹے بھی بر طانیہ میں زیرِ تعلیم ہیں ۔ اسی طرح کے اور ہزاروں پاکستانی ایسے ہیں جن کے بنک اکاؤنٹ بیرونِ ملک ہیں ۔ ایسے لوگوں کا پاکستان کے عام عوام کے بچوں سے کیا لینا دینا ۔ ؟ پاکستانی عوام کی ضرورت ان کو الیکشن کے وقت ہوتی ہے ۔ ان کے بڑے بڑے گھر پاکستان کے مزدور ان کو بنا کر دیتے ہیں ۔ ان کے کارخانے پاکستانی مزدور چلاتے ہیں ۔ ان کے زمینوں پر ہل پاکستانی مزدور چلاتے ہیں ۔ یہ اپنے ہاتھوں سے خود کچھ بھی نہیں کرتے صرف حساب کتاب کرتے ہیں کہ ہر ماہ ان کے دولت میں اضافہ کتنا ہوا ہے ۔ان ظالموں نے باہر کے ممالک سے مِلنے والا کھربوں روپے قرضہ بھی ہڑپ کر لیا ہے جو پاکستان کے نام پر انہوں نے حاصل کیا تھا ۔ ماضی میں جتنے بھی حکمران گزرے ہیں ، انہوں نے دیگر ممالک سے اس لئے قرضے حاصل کئے کہ اسے ہم پاکستان کی ترقی پر خرچ کریں گے مگر افسوس صد افسوس کہ باہر ممالک سے لیا ہوا قرضہ بھی انہوں نے اپنی ترقی پر ،اپنی عیاشی پر اور اپنے بنک بیلنس بڑھانے پر لگا لیا ۔ اسی طبقہ کے پر تعیش زندگی کے لئے غریب عوام کی زندگی ، زندگی ہے نہ موت ۔ آج حالت یہ ہے کہ کھانے کو روٹی نہیں مِلتی، رہنے کو مکان نہیں ، پہننے کو ڈھنگ کا کپڑا نہیں ۔گویا یہ بات اب اظہر من الشمس ہے کہ پاکستانی عوام کی تمام تر مشکلات اسی استحصالی طبقہ کی وجہ سے ہے ۔ بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ممالک بھی ہم سے آگے ہیں مگر اس طبقہ کو شرم نہیں آتی یہ ہمہ وقت اپنے اقتدار و اختیار کے حصول کے لئے سرگرداں رہتے ہیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی اس استحصالی طبقہ سے پاکستان کی غریب عوام کی کبھی جان بھی چھوٹے گی یا یہ سلسلہ چلتا رہے گا ؟اگر ہم ان کے خنی پنجوں کو دیکھیں تو مایوسی ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی خونی پنجوں میں غریب عوام کو بہت مظبوطی سے جکڑ رکھا ہے مگر دوسری طرف اگر ہم دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ناامید ہر گز نہیں ہونا چاہئیے ۔ آج جو قومیں ترقی کر چکی ہیں یا ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں ۔ وہ بھی ہماری طرح سرمایہ دار طبقہ کی گرفت میں تھے مگر جب ان کی سنگ دِلی اور ظلم حد سے بڑھ گیا تو عوام اٹھ کھڑی ہوئی اور استحصالی

طبقہ کو پھر چھپنے کی جگہ نہیں مِلی ۔یوں سارا نظام تلپٹ ہو گیا اور عوام کی حالت بدل گئی ۔

پاکستان کے غریب عوام کو بھی مایوس نہیں ہونا چاہئیے ۔ جب ان کا ظلم و ستم حد سے بڑھ جائے گا تو یہ بھوکے عوام مجبور ہوکر ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے ۔ جس کی ایک جھلک ،ان کی غیض و غضب اور غصہ گزشتہ روز آٹے کے حصول کے لئے کھڑے لوگوں میں نظر آئی ۔ اس لئے ان ظالم ،لالچی اور بے رحم حکمرانوں کو ،اس سنگدل طبقہ کو ظلم کرنے دو ، ان کا ظلم جتنا بڑھتا جائے گا ، امید کی کرن مزید روشن ہوتی جائے گی ۔ اﷲ تعالیٰ اسی غریب عوام میں سے ایک ایسا شخص پیدا کرے گا جو ان کے دلوں کا ترجمان ہو گا جو سیلاب کی طرح اس ظالم طبقہ کو بہا کر لے جائے گا اور پاکستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا ۔ (انشا اﷲ )

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284416 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More