وزیر اعلیٰ پرویز الہی کی جانب سے اعتماد کا ووٹ
حاصل کرلینے کے بعد سابقہ وزیراعظم عمران خان کے اعلان کے عین مطابق پنجاب
اسمبلی تحلیل کردی گئی ہے۔ اورامید یہی کی جارہی ہے کہ خیبر پختونخواہ
اسمبلی بھی بہت جلد تحلیل کردی جائےگی۔ پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب اور
خیبر پختونخواہ دونوں صوبوں میں قائم حکومتوں کے خاتمہ اور اسمبلیوں کی
تحلیل کی وجہ سے پاکستان کی تقریبا 70 فیصد آبادی ایوان اقتدار میں عوامی
نمائندگی سے محروم ہوجائے گی۔عمران خان کی جانب سے ان دونوں صوبوں کی
اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ بظاہر وفاقی حکومت پر دباؤ ڈال کر پورے ملک
میں عام انتخابات کروانے کے لئے راہ ہموار کرنا ہے۔ پورے ملک میں عام
انتخابات کا انعقاد کب ہوگا ابھی یہ بات کہنا قبل ازوقت ہوگا ۔کیونکہ نہ تو
وفاقی حکومت ختم ہوئی ہے او ر نہ ہی قومی اسمبلی، صوبہ سندھ اور صوبہ
بلوچستان کی اسمبلیوں کو قبل از وقت تحلیل کرنے کے پروگرام منظرعام پر آئے
ہیں۔ دوسری جانب حال ہی میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ ملک
میں عام انتخابات کم از کم سات ماہ سے قبل نہیں ہو سکتے کیوں کہ صرف
انتخابی حد بندیوں کیلئے اضافی چار ماہ درکار ہیں۔ دوسری جانب ان صوبائی
اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نئی بحث نے جنم لیا ہے کہ آیا ان دونوں صوبوں
میں عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا یا پھر ضمنی انتخابات ہونگے۔
اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد صوبائی حکومتی معاملات کیسے چلائے جائیں
گے؟اسمبلیوں کے تحلیل ہونے یا نئے عام انتخابات کے حوالے سے آئین کیا کہتا
ہے؟ آئینی پوزیشن کیا ہوگی؟ان تمام سوالات کے لئے آئین پاکستان سے
رہنمائی لینے کی ضرورت ہے ۔ ریاست پاکستان کے تمام تر انتظامی امور چلانے
کے لئے آئین پاکستان واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ملک میں عام انتخابات اور
ضمنی انتخابات کے حوالہ سے آئین کے آرٹیکل 224 میں واضح ہدایات موجود ہیں۔
آرٹیکل 224 کے مطابق اگر قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی اپنی آئینی (پانچ
سالہ) مدت پوری ہونے پر تحلیل ہو گی تو 60 روز کے اندر نئے الیکشن کرائے
جائیں گے۔ جبکہ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی عام انتخابات کے بعد آئینی (پانچ
سالہ) مدت پوری ہوئے بغیر قبل از وقت تحلیل کردی جائے (جیسا کہ آئین کے
آرٹیکل 112 کے تحت وزیر اعلی پرویز الہی نے کی ہے)تو اس صورت میں ضمنی
انتخابات کی بجائے اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کےاندرپورے صوبہ میں عام
انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔اب اگلا سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ صوبائی
حکومت اور صوبائی اسمبلی کی غیر موجودگی میں صوبہ کے انتظامی امور کیسے
چلائے جائیں گے۔ آئین کا آرٹیکل 224اس معاملہ پر بھی رہنمائی مہیا کرتا
ہے۔قومی اسمبلی تحلیل کی صورت میں صدر پاکستان نگران کابینہ (نگران وزیر
اعظم کی ہدایت کے تابع ) تقرر کرے گا مگر شرط یہ ہے کہ صدر نگران وزیر اعظم
کا تقرر تحلیل ہونے والی قومی اسمبلی کے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی
مشاورت سے کرے گا۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی تحلیل کی صورت میں گورنر نگران
کابینہ (نگران وزیر اعلی کی ہدایت کے تابع) تقررکرے گا مگر شرط یہ ہے کہ
گورنر نگر ان وزیر اعلی کا تقرر تحلیل ہونے والی اسمبلی کے وزیر اعلیٰ اور
اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کرے گا۔اسی آرٹیکل میں اک واضح نقطہ درج ہے کہ
نگران وزیر اعظم، نگران وزیراعلی سمیت نگران کابینہ کے اراکین اور قریبی
خاندان (انکے زوج اور بچے) فی الفور آنے والے انتخابات میں الیکشن لڑنے کے
لئے اہل نہ ہونگے۔ آئین کے مطابق نگران وزیراعظم /نگران وزیراعلی کےتقریر
کے لئے وزیر اعظم /وزیر اعلی اپوزیشن لیڈر کو خط لکھے گا اور دونوں طرف سے
نگراں وزیر اعلیٰ کیلئے تجویز کردہ نام بھیجے جائیں گے۔ اب اگلا سوال/مسئلہ
یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ختم ہونے والی اسمبلی کے قائد ایوان اور اپوزیشن
لیڈر کے درمیان مشاورت میں نگران وزیر اعظم یا نگران وزیراعلیٰ پر اتفاق
رائے پیدا نہ ہوتو پھر؟ ایسی صورت میں آئین کا آرٹیکل 224-A واضح رہنمائی
فراہم کرتا ہے۔تین دن کے اندر نگران وزیر اعظم/نگران وزیر اعلیٰ پر اتفاق
رائےنہ ہونے کی صورت میں معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا ۔قائد
ایوان اور اپوزیشن لیڈر تجویر کردہ دو نام پارلیمانی کمیٹی (جس میں حکومتی
اراکین اور اپوزیشن دونوں کی مساوی نمائندگی ہو گی) کو بھیجیں گے۔پارلیمانی
کمیٹی کے پاس بھی تین دن کی مہلت ہو گی اور 3 دن میں اگر پارلیمانی کمیٹی
نے نگران وزیر اعظم/نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق نہ کیا تو حتمی فیصلے
کیلئے معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا۔ الیکشن کمیشن دو دن کے اندر
نگران وزیراعظم/نگران وزیر اعلی کا فیصلہ کرنے کا پابند ہو گا۔ آئین
پاکستان کے آرٹیکل224-A میں یہ بھی واضح طور درج ہے کہ تحلیل ہونے والی
اسمبلی کے وزیراعظم/وزیراعلی، نگران وزیراعظم/نگران وزیراعلی کے تقرر تک
اپنے عہدہ پر براجمان رہیں گے۔ آئین پاکستان میں واضح ہدایات اور رہنمائی
اپنی جگہ موجود ہیں مگر گذشتہ چند سالوں کی سیاسی تلخیوں، سیاسی انتقامی
کاروائیوں کے باعث یہ قیاس آرائی کی جاسکتی ہے کہ صوبہ پنجاب اور مجوزہ
طورپر صوبہ خیبر پختونخواہ میں نگران سیٹ اپ کے لئے پی ڈی ایم جماعتوں اور
پاکستان تحریک انصاف کے درمیان نگران وزائے اعلیٰ کی تعیناتی پر اتفاق رائے
انتہائی مشکل ہوگا اور بالآخرنگران سیٹ اپ کا حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کو
ہی کرنا پڑے گا کیونکہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم خصوصا مسلم لیگ ن کسی قسم
کی مکالمہ آرائی کیلئے تیارنہیں ہیں۔ایک طرف پی ٹی آئی پورے ملک میں فی
الفور عام انتخابات کا مطالبے پر قائم ہے جبکہ دوسری جانب وفاقی حکومت ،
صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان میں برسراقتدار جماعتیں اسمبلیوں کو تحلیل
کرتی نظر نہیں آرہی ہیں۔اس لئے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں تو
عام انتخابات منعقد ہوجائیں مگر پورے ملک میں عام انتخابات کا انعقاد فی
الفور ہونا شائد ممکن نہ ہوسکے ۔
|