دارالخلافہ دہلی کو ’ریپ کیپٹل ‘ کا خطاب تو وزیر اعظم
مودی کے قدم رنجا فرمانے سے قبل ہی مل چکا تھا۔ان کی آمد کے بعد اسے
’وئلنس کیپٹل‘ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا۔ یہ حسن ِاتفاق ہے کہ دہلی
پولیس وزیر داخلہ امیت شاہ کے تحت کام کرتی ہے ورنہ ابھی تک کو وزیر اعلیٰ
کیجریوال کی چھٹی کرکے وہاں صدر راج نافذ کردیا گیا ہوتا۔ مہاراشٹر کے
پالگھر میں غلطی سے ہونے والی ساھووں کی ماب لنچنگ کو لے کر ارنب گوسوامی
نے جو ہنگامہ مچایا تھا اور اس پر دہلی کے خطرناک تیور ہنوز لوگ نہیں
بھولے۔ اس سال کی ابتداء دن دہاڑے ایک بزرگ پولیس اہلکار کے قتل سے ہوئی ۔
اس کی کئی ویڈیوز ذرائع ابلاغ کی زینت بنے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ آخر مودی اور شاہ کی آمد کے بعد اس شہر کو ہوکیا گیا ہے؟ اس سوال کا
مختصر جواب یہ ہے کہ جب سیاستداں تشدد کی آگ لگائیں اور میڈیا تیل ڈال
کراسے مزید بھڑکائے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ جرائم کو خوشنما بناکر پیش
کرنے سے ان کے تئیں ناراضی ختم ہوجاتی ہے۔ جرائم پیشہ عناصر جری اور بے خوف
ہوجاتے ہیں۔ ان کے دل سے سزا کا خوف نکل جاتا ہے اورپھر وہی سب ہونے لگتا
ہے جو فی الحال ہورہا ہے۔ دہلی کی حالتِ زار پر فیض احمد فیض کا مصرع’ کہ
سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد‘صادق آتا ہے۔
۴؍جنوری کو شام ۴؍بجے دہلی کے مایاپوری مارکیٹ میں پولیس تھانے سےمحض دو سو
میٹر کے فاصلے پر ایک20-21سالہ نوجوان نے اپنے والد کی عمر کے اسسٹنٹ سب
انسپکٹر شمبھو دیا ل کا بیچ سڑک پر قتل کردیا ۔ راجستھان میں سیکر کے رہنے
والے 57 سالہ شمبھو دیا ل1993 میں بطور حولدار دہلی پولیس میں بھرتی ہوئے
تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ سنجنا، دوبیٹیاں گایتری و پرینکا نیز بیٹا
دیپک گاوں میں رہتے ہیں۔ شمبھو دیا ل کو سبکدوش ہونے میں مزید تین سال کا
وقت باقی تھا ۔ اس واردات سے قبل اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے شمبھو دیال اس
نوجوان سے کہہ رہے تھے ’بیٹاجی یہ سب کرنا اچھی بات نہیں ‘۔ شمبھو لال ہر
کسی کو راہِ راست پر لانے کے قائل تھے اس لیے ہر ملزم کے ساتھ ان کا سلوک
مشفقانہ تھا۔ وہ اگر زندہ رہتے تو نہ جانے کتنے نوجوانوں کے اصلاح کی سعی
کرتے مگر انیش راج نےان کی کمر میں چاقو گھونپ کر یہ سلسلہ تمام کر دیا ۔
پولیس تھانے میں ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر سوگوار اہلکار انہیں اپنا
شفیق سرپرست مانتے تھے۔
انیش راج نے اپنی ہی بستی میں رہنے والی وندنا کے شوہر سے اس کا موبائل اور
نقدی چھین لی تو اس کی شکایت کرنے کے لیے وہ پولیس تھانے میں گئی۔ وہاں پر
شمبھولال چائے پی رہے تھے۔ ملزم کو فرار ہونے سےقبل گرفتار کرنے کی خاطر وہ
اپنی چائے چھوڑ کر وندنا کے ساتھ چل پڑے اسے پکڑ بھی لیا مگر راستے میں یہ
انہونی ہوگئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہاں موجود 20-30لوگوں میں سے کوئی
انہیں بچانے میں کامیاب کیوں نہیں ہوا؟ اسی بستی کی رہنے والی رخسار نے اس
سوال کا یہ جواب دیا کہ وہاں موجود ہجوم میں بڑی تعداد بچوں کی تھی ۔ وہ
خود اس واردات کے فوراً بعد اپنے شوہر کے ساتھ مدد کے لیے دوڑ پڑی مگر تب
تک انیش فرار ہوچکا تھا ۔ پہلے تو ان لوگوں نے شمبھو دیا ل کا خون بہنے سے
روکنے کی خاطرانہیں چادر سے باندھا اور پھر خاوند انہیں اسپتال پہنچایا۔ اس
بہیمانہ قتل کے بعد انیش بھاگ کر پاس کے ایک کارخانے میں گھس کر وہاں موجود
ایک مزدور کو یرغمال بنالیا۔ اس نے مزدور کی گردن پر چاقو رکھ کر اسے بھی
ہلاک کردینے کی دھمکی دی۔ پولیس کو اسے گرفتار کرنے میں کافی مشقت اٹھانی
پڑی۔
رخسار کے مطابق دس بارہ سال قبل جب وہ اس بستی میں رہائش پذیر ہوئی تھی تو
وہاں کا ماحول بہت صاف ستھرا تھا لیکن پچھلے چند سالوں میں سارے برے کام
وہاں پر ہونے لگے۔ انیش راج کی ماں سندری گھروں میں کام کرتی ہے اور بھائی
انیل مزدوری کرتا ہے۔ سندری نے شمبھو دیا ل کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے
ہوئے کہا کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر انیش نے ایک نیک آدمی کے
ساتھ ایسا کیوں کردیا؟ اپنے بیٹے کو سمجھا سمجھا کر تھک جانے والی سندری اس
سے کہتی تھی کہ جیسے تیسے محنت کرکے اسے کھلا تو رہی ہے مگر کوئی الٹا
سیدھا کام نہ کردینا ۔ سندری کے مطابق جوکچھ اس نے کیا وہ خود تو اسے بھوگ
ہی رہا ہے مگر انیش نے اہل خانہ کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔
سندری اور انیل نے بتایا کہ پہلے وہ ایسا نہیں تھا مگر نشے کی لت نے اسے
برباد کردیا ۔ وہ نشہ کرنے کے لیے چاقو دکھا کر لوگوں سے پیسے چھین لیتا
تھا۔ اس دن وندنا کا شوہر ہتھے چڑھ گیا تو نقد کے ساتھ موبائل بھی لے
بھاگا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بیروزگار انیش سوشیل میڈیا پر بھی سرگرم تھا۔
وہ ریلس پوسٹ کرتا تھا ۔ فیس بک پروفائل کے سر ورق پر پستول کی تصویر انیش
کے متشدد ذہن کی عکاس تھی ۔ماتھے پر بڑے سے سرخ ٹیکے کے ساتھ اپنی کئی
تصاویر اس نے پوسٹ کررکھی تھیں ۔ شمبھولال کے قتل کی کہانی میں جملہ تین
اہم کردار ہیں ۔ ان میں قاتل انیش راج اور شمبھودیال کا تعلق ہندو سماج سے
ہے جبکہ انہیں بچانے کی کوشش کرنے والی رخسار اور اسپتال پہنچانے والا اس
کا شوہر مسلمان ہے اس کے باوجود میڈیا نے سارا کھیل الٹ دیا۔ اس بڑئ عیاری
کے ساتھ رخسار کو درمیان سے غائب کرکے انیش راج کو محمد انیس بناکر پیش
کیا۔
معروف ہندوتوا نواز سدرشن نیوز کے صحافی ساگر کمار نے اپنے ٹویٹ
لکھا،’جہادی محمد انیش نے جس بہادر پولیس اہلکار پر حملہ کیا تھا، آج ان کی
موت ہو گئی۔ جہادی نے کیا تھا چاقو سے گود کر ایک جاں بازاے ایس آئی کا
قتل۔ سلام ایسے بہادر مجاہد کو جس نے اپنی جان تک کی پروا نہیں کی لیکن بڑا
سوال ۰۰۰مجرموں کے حوصلے اتنے بلند کیوں۰۰۰؟‘ سدرشن نیوز نے خبر دکھاتے
ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اے ایس آئی شمبھو دیال کا قتل کرنے والے کا نام
جہادی محمد انیش ہے۔ سدرشن کو خیر جھوٹ کا پٹارہ ہے لیکن ’ٹائمس ناؤ
نوبھارت‘ اور نیوز ٹریک نے بھی ملزم کو محمد انیش بتایا اور ویڈیوکو منسلک
کرکے ٹویٹ کردیا۔اتفاق سے یہ خبر این ڈی ٹی وی پر بھی نشر ہوگئی۔ یہ
نادانستہ غلطی سے ہوگیا یا اڈانی جی کو خوش کرنے کے لیے قصداً کیا گیا اس
کا فیصلہ کرنا فی الحال مشکل ہے کیونکہ پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا ۔
اس کے بعد تو کئی دیگر معروف لوگوں اور صحافیوں نے اس واقعے کے بارے میں
ٹویٹ کرکے ملزم کا نام ‘محمد انیش’ یا ‘جہادی انیش’ بتایا ۔ اس طرح کا
دعویٰ کرنے والوں کی فہرست میں وشو ہندو پریشد کے قومی ترجمان ونود بنسل،
نیوز ایجنسی اے این آئی کےسینئر صحافی روی جلہوترا، سدرشن نیوز سے وابستہ
صحافی مہیش کمار سریواستو، سدرشن نیوز کے آشیش ویاس، بی جے پی دہلی کے
ترجمان کھیم چند شرما اور وزیر اعظم کو فالو کرنے والے روی بھدوریا بھی
شامل ہو گئے۔ یہ احمق اگر انیش راج کے والد کانام پرہلاد راج جان لیتے یا
اس کے اہل خانہ کی جانچ پڑتال کرلیتے تو رسوائی سے بچ سکتے تھے۔ اس حقائق
کی بازیافت کے لیے انیش راج کے فیس بک صفحات کی ورق گردانی کافی تھی مگر
ہندو مسلم کھیلنے والوں کو اس کی نہ فرصت ہے اور نہ ضرورت ۔ انہیں تو جب
بھی کوئی ایسا موقع ملتا ہے وہ بغیر سوچے سمجھے دوڑ پڑتے ہیں اور منہ کی
کھا کر لوٹ جاتے ہیں۔
معاشرے کے اندر جھوٹ اور منافرت کو روکنا حکومت کا کام ہے لیکن چونکہ وہ اس
ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام ہے اس لیے ذرائع ابلاغ میں نفرت انگیزی کا
معاملہ عدالت عظمی ٰ میں پہنچ گیا ۔ ملک بھر میں ہیٹ اسپیچ کے واقعات کی
روک تھام اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کامطالبہ کرنے والی عرضیوں کی
سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگ رتنا کی
بنچ نے نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈز اتھارٹی کی وکیل نشا بھمبانی پوچھا کہ
نیوز چینلوں پر بحث کے دوران بدسلوکی کرنے والے ٹیلی ویژن اینکروں کو کتنی
بار آف ائیر کیا گیا ہے؟ کیا آپ نے اینکروں کے ساتھ اس طرح کا کوئی سلوک
کیا ہے کہ وہ سبق سیکھیں؟ اس سوال کے جواب میں حکومت کی طرف سے پیش ہونے
والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹ راج نے بتایا کہ ٹی وی پر دکھائے جانے
والے مواد کو متوازن کرنے کے لیے خاطر خواہ چیک اینڈ بیلنس موجود ہیں۔اس پر
جسٹس جوزف نے کہا کہ چیک اینڈ بیلنس کا استعمال اس طرح سے نہیں ہو رہا کہ
کوئی اثر نظر آئے۔اس صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ
ہیٹ اسپیچ ایک ‘بڑا خطرہ’ ہے اور ہندوستان کو ‘آزاد اور متوازن پریس’ کی
ضرورت ہےلیکن موجودہ حکومت اس کو پورا نہیں کرسکتی کیونکہ اپنے سیاسی فائدے
کی خاطر وہ خود بھی اس میں ملوث ہے ۔ میڈیا سے جھوٹ اور نفرت غائب ہوجائے
تو ان لوگوں کا دوبارہ اقتدار میں آنا ناممکن ہے۔
|