ٹی وی پروڈیوسرز سے ملاقات میں عمران خان نے کہا کہ
اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے اور امید ہے موجودہ آرمی چیف شفاف انتخابات
کروائیں گے۔ عمران خان نے کہا ملک میں اب بھی سیاسی انجینئرنگ جاری ہے۔ ان
کا کہنا تھا کہ پنجاب اور وفاق میں کمزور مینڈیٹ ملا تو مزاحمت کریں
گے۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کو اسی لیے اکٹھا کیا گیا ہے جبکہ جنوبی
پنجاب کے لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی میں شامل ہو جائیں۔انہوں نے
کہا کہ علیم خان نےدو سو ارب روپے کی زمین فروخت کی۔لیکن اتنی بڑی فروخت کا
کسی نے نوٹس نہیں لیا اورحسین حقانی کو ہماری حکومت کے خلاف استعمال کیا
گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ جتنی طاقت فوج کے پاس ہے اتنی
کسی اور ادارے کے پاس نہیں۔فوج مثبت رول ادا کرے تو ملک کو آگے جانے سے
کوئی نہیں روک سکتا۔بروز سوموار عمران خان نے سینئر صحافیوں سے ملاقات میں
کہا کہ اپریل میں انتخابات ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور اب ہم قومی اسمبلی
میں واپسی کا پلان کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ رن آف الیکشن ہوا تو موقع
کے مطابق فیصلہ کریں گے اور اگر قومی اسمبلی میں نہ گئے تو موجودہ حکومت
راجہ ریاض کے ساتھ مل کر نگران حکومت لے کر آئی گی۔ ان میں اخلاقیات نام
کی کوئی چیز نہیں ہے۔عمران خان نے کہا کہ ن لیگ کے اراکین قومی اسمبلی
ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں اور ابھی بھی سیاسی انجینئرنگ جاری ہے۔ عمران خان
صاحب نے اپنی سیاسی کیرئیر میںمتعدد بیانات اور دعوے کئے ہیں۔ اور یہ بات
بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اکثر اوقات عمران خان صاحب اپنے پچھلے
بیان کی تردید نئے بیان کے ساتھ کردیا کرتے ہیں۔ اور اپنی بات سے مکر جانا
یا اپنے اعلان یا دعوے کے برخلاف وعدہ خلافی کرلینے کو بھی پی ٹی آئی
چیرمین بُرا محسوس نہیں کرتے۔بلکہ یوٹرن لینے والے کو سمجھدار لیڈر قرار دے
دیا۔ساری دنیا ایک طرف مگر ہمارے عمران خان صاحب ایک طرف۔ ویسے عمران خان
قسمت کے دھنی ہیں کیونکہ انکے چاہنے والے اپنے لیڈر کی ہاں میں ہاں اور ناں
میں ناں کہنے کے عادی ہیں۔ عمران خان کے درج بالا دو دن پہلے کے بیانات کا
بغور جائزہ لیں تو خان صاحب کی پہلی بات اگلی بات سے تین سو ساٹھ ڈگری
متضاد نظر آئے گی جیسا کہ خان صاحب فرما رہے ہیں کہ ن لیگ کے ایم این ایز
انکی جماعت کیساتھ رابطے میں ہیں اور اگلے لمحے یہ ارشاد فرمادیا کہ ابھی
بھی سیاسی انجینئرنگ جاری ہے۔ مطلب مخالف پارٹی کے ایم این ایز انکے ساتھ
مل جائیں تویہ جمہوری اقدار کے مطابق بالکل ٹھیک بات ہے لیکن اگر انکی
پارٹی کے اراکین خود یا کوئی اور انکو دوسری جانب راغب کرنے کی کوشش کرے تو
یہ سیاسی انجینئرنگ کے دائرہ میں آئے گا۔ ایک طرف خان صاحب سابقہ آرمی
چیف قمر جاوید باجوہ صاحب کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف محاذ جنگ کھولے
ہوئے ہیں اور آئے روز نت نئے انکشافات میں قمر جاوید باجوہ صاحب کو
پاکستان کے موجودہ حالات کے ذمہ دار نمبر ایک قرار دے رہے ہیں دوسری جانب
موجودہ آرمی چیف عاصم منیر صاحب سے عام انتخابات شفاف کروانے کی
امیدیںقائم کئے ہوئے ہیں۔ خان صاحب اگر قمر جاوید باجوہ صاحب کا سیاسی
معاملات میں مداخلت کرنا ناجائز تھا تو پھر موجودہ آرمی چیف کو آئین کے
کس آرٹیکل کے تحت انتخابات کروانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔یادرہے قمر جاوید
باجودہ صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے
اپنے سابقہ بیانات پر یوٹرن لیا تھا کیونکہ اپوزیشن لیڈر عمران خان کسی بھی
صورت میں سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کے سخت ہوا کرتے تھے ، یہاں
تک کہ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کے آرمی چیف کی تبدیلی کی مثالیں بھی
دیا کرتے تھے۔ یاد رہے آئین پاکستان کے تحت شفاف انتخابات کروانا الیکشن
کمیشن آف پاکستان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے ۔ عمران خان صاحب کا یہ
کہنا کہ عام انتخابات میں پنجاب اور وفاق میں کمزور مینڈیٹ ملا تو مزاحمت
کریں گے یعنی انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی کا رونا رو دیا اور ساتھ ہی ساتھ
پاکستانی حکام اور عوام کو متنبہ کردیا کہ اگر انکو اقتدار نہ ملا تو چین
سےنہ خود بیٹھیں گے اور نہ کسی اور کو سکون کا سانس لینے دیں گے۔ یعنی
عمران خان صاحب نے یہ طے کرلیا ہے کہ حقیقی جمہوریت صرف وہی تصور کی جائے
گی جس میں مسند اقتدار پر جناب عمران خان صاحب ہی براجمان ہوں۔ علیم خان
صاحب بارے بات کرنے سے پہلے خان صاحب کو یاددہانی کروانے کی اشد ضرورت ہے
کہ جناب والا علیم خان صاحب اور جہانگیر ترین صاحب وہی عظیم شخصیات ہیں کہ
جنکے بارے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی زیر سرپرستی کمیشن نے اپنی سفارشات
میں کہا تھا کہ پارٹی کے جنرل سیکریٹر ی جہانگیر ترین ، پرویز خٹک اور علیم
خان نے پارٹی میں اپنے عہدے بچانے کے لیے قواعدو ضوابط کی خلاف ورزیاں کرنے
کے ساتھ ساتھ ووٹ لینے کے لیے پیسوں کا استعمال بھی کیا ہے اس لیے ان سمیت
چار افراد کو پارٹی کے عہدوں سے فارغ کردیا جائے تاہم کمیشن کی ان سفارشات
پر عمل درآمد نہیں ہوا۔بلکہ عمران خان صاحب نے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین
کو ہی پارٹی سے فارغ کردیا تھا۔ ایم کیو ایم کے دوبارہ اتحاد متعلق بات
کرنے سے پہلے خان صاحب شاید بھول گئے کہ ایم کیو ایم آخری وقت تک انکی
حکومت کا حصہ تھی اور ایم کیو ایم والوں کو نفیس لوگ قرار دیا کرتے تھے۔
قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دینے سے پہلے شائد عمران خان صاحب بھول گئے
ہونگے کہ انکی جماعت نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر استعفوں کا اعلان
کردیا تھا ۔ حالانکہ پی ٹی آئی اراکین اسمبلی آج تک تنخواہیں وصول کررہے
ہیں۔ بہرحال ایک بات تو طے شدہ ہے کہ خان صاحب دن کو رات کہیں یا رات کو دن
انکے چاہنے والے کبھی بھی عمران خان کو غلط نہیں کہیں گے۔
|