حضرت مصعب بن عمیر ؓ درخشندہ ستارہ
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کوامت مسلمہ کا پہلا
مبلغ بننے کی سعادت عطا فرمائی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حسب ونسب ۔آپ کا نام مصعب ، کنیت ابو محمد ، والد کا نام عمیر والدہ کا نام
حناس بنت مالک اورآپ کا تعلق قریش کے معروف قبیلہ بنو ابودر سے تھا۔
سلسلہ نسب کچھ یوں ہے۔مصعب بن عمیرؓ بن ھاشم بن عبد مناف بن عبدالدار بن
قصی القرشی بچپن وجوانی ۔ آپ مکہ کے ایک دولت مند گھرانے میں پیدا ہوئے۔شکل
وصورت بہت خوبصورت اور دلکش تھی ۔ مال ودولت کی فراوانی اور غیر معمولی حسن
وجمال کی وجہ سے ماں باپ کے بہت لاڈلے تھے۔ خاص طور پر آپ کی والدہ کوتو آپ
سے بہت زیادہ پیار تھا۔ فطرتی طور پرخوش خوراک ،خوش لباس اورخوشبو ؤں کے
دلدادہ تھے۔ اعلی سے اعلی اور لطیف سے لطیف خوشبو استعمال کرتے ۔ پھرجہاں
جہاں سے بھی ان کا گزر ہوتا ۔ ادھر خوشبو ہی خوشبوپھیل جاتی۔
قبول اسلام
آپ اسلام کے پہلے مرکز دارارقم ( جو ایک صحابی حضرت ارقم بن ارقم ؓ کا مکان
تھا )میں آکر کبھی کبھار آنحضور ﷺ کی صحبت میں بیٹھتے ،آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ
اورپاک باتوں نے اپنا اثر دکھایاکہ تھوڑے ہی دنوں میں آپ نے اسلام قبول
کرلیا۔
صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں
اک نشان کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار
مشکلات اور ثبات قدم
شروع میں تو آپ نے اپنے اسلام کا سر عام اظہار نہ کیا ۔ بس چھپ چھپ کر
عبادت وریاضت کر لیتے اس لئے کسی قسم کی مخالفت نہ ہوئی۔
ایک دن آپ کہیں نماز پڑھ رہے تھے۔ تو اتفاق سے عثمان بن طلحہؓ ( اس وقت تک
مسلمان نہ ہوئے تھے )نے آپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا ۔انہوں نے جاکرحضرت
مصعبؓ کے والدین کے پاس شکایت کی کہ آپ کا بیٹا تو مسلمان ہو گیا ہے۔ اس پر
آپ کے والدین کو بہت دکھ ہوا ۔انہوں نے آپ کو بہت سمجھایاکہ دین محمد ﷺ کو
چھوڑ دو۔مگر آپ نہ مانے ۔پھر انہوں نے آپ پر سختی کی پھر بھی آپ اپنے ایمان
پر مضبوطی سے قائم رہے۔اس پر ان کے والدین نے آپ کو رسوں سے باندھ کر ایک
تاریک کمرے میں پھینک دیا۔ کہ شاید اس طرح اپنے نئے دین سے رجوع کرلیں
۔لیکن خداتعالی کے فضل اور اسکی نصرت سے آپ ہر دکھ ، درد کے امتحان میں
کامیاب وکامران رہے۔اور کسی طرح اس جیل سے بھی اللہ تعالی نے بریّت کے
اسباب پیدا فرما دیئے۔
ھجرت حبشہ اور انقلاب
جب کفار مکہ نے اپنے ظلم وستم سے بے چارے مسلمانون کا مکہ میں عرصہ حیات
تنگ کردیا۔تو آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایاکہ وہ حبشہ (حبشہ آجکل
ایتھوپیا کہلاتا ہے جو براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں ہے۔) کی طرف ہجرت
کرجائیں۔اس وقت وہاں پرایک عادل بادشاہ نجاشی(ذاتی نام اصحمہ تھا) کی حکومت
تھی ۔ جومذہبا عیسائی تھا۔آنحضورﷺ کے ارشاد کے مطابق گیارہ مرد وں اور چار
عورتوں پر مشتمل ایک قافلہ مکہ سے حبشہ کو روانہ ہوگیا ۔اس قافلہ میں آپ
بھی شامل تھے۔ لیکن بعض وجوھات کی بنا پر آپ جلد ہی واپس مکہ تشریف لے آئے۔
لیکن اس سفر سے واپسی پر آپ کی ذات میں لوگوں نے ایک عجیب انقلاب دیکھا ۔اب
آپ میں نہ پہلے والی شان وشوکت رہی اور نہ ہی ٹھاٹھ باٹھ تھی اب تو ا
میرانہ اور قیمتی ملبوسات کی بجائے آپ نہایت ہی سادہ اور فقیرانہ لباس
پہنتے اور پھر وہ بھی ایسا لباس جس میں کئی کئی پیوند لگے ہوتے تھے۔ عموما
ایک سادہ سا کمبل اوڑھے ہوئے نظر آتے۔
ترکوا الغبوق وبدلوا من ذوقہ
ذوق الدعاء بلیلۃ الاحزان
پہلے مبلغ اسلام کا تاریخی اعزاز
حضرت مصعب بن عمیرؓ وہ خوش نصیب وجود ہیں ۔جن کو خدا تعالی نے قرآنی ارشاد
ولتکن منکم امۃ یدعون ألی الخیر یأمرون بالمعروف و ینھون عن المنکر کے
مطابق دنیائے اسلام کے سب سے پہلے مبلغ بننے کی سعادت اوراعزازسے نوازا۔
بارہ سال نبوی میں مدینہ سے بارہ افراد حج کی غرض سے مکہ آئے ،ان میں سے
پانچ تو وہی لوگ تھے جو پچھلے سال اسلام قبول کرچکے تھے۔اب ان کے ہمراہ سات
نئے دوست بھی تھے۔اس وفد کے ساتھ آپ کی ملاقات منی کی جانب عقبہ کے پاس
ہوئی ۔ آنحضورﷺ نے ان کے ساتھ لوگوں سے الگ ہوکرایک گھاٹی میں ملاقات کی
۔اور باقاعدہ ان لوگوں سے بیعت لی۔اس لئے تاریخ میں اس بیعت کو بیعت عقبہ
اولی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔کیونکہ وہ جگہ جہاں بیعت لی گئی وہ عقبہ
کہلاتی ہے۔
ان نو مبایعین نے آنحضورﷺ کی خدمت میں گزارش کی کہ ہمیں ایک معلم عنائت
فرما دیں ،جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور ہمارے مشرک بھائیوں کو اسلام کی
تبلیغ کرے۔آنحضورﷺ نے ازراہ شفقت ان کی درخواست کو قبول فرمایا۔
اب آپ ﷺ کوکسی ایسے قابل گوہر کی تلاش تھی ،جو علمی لحاظ سے اس قابل ہو کہ
تعلیم وتربیت کے مضامین کو احسن رنگ میں بیان کرسکے۔اس کے اخلاق ایسے ہوں
کہ وہ نو مبا یعین کے اندر حقیقت اسلام کو آشکار کرسکے۔پھر اس میں پیغام حق
پہنچانے کا وہ ملکہ ہو کہ وہ اپنی ان تھک دعاؤں ، علمی وسعت ،شیریں زبان
اور حکمت عملی کے ساتھ مخالفین کے دلوں میں اسلام کی شمع روشن کرسکے۔
جب آنحضورﷺ نے ہر سمت نظردوڑائی تو آپکی کی نظر انتخاب کل کے شہزادے اور آج
کے درویش حضرت مصعب بن عمیرؓ پر پڑی۔
اس پرآپ ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو مدینہ جانے کے لیئے ارشاد فرمایا۔ ، جس
پرآپ نے ،جان و مال و آبروحاضر ہے تیری راہ میں کہتے ہوئے ، بسرو چشم لبیک
کہا ، پھرآپ ﷺ نے حضرت مصعبؓ کو اس مقدس مشن کے مقاصد ، اہمیت اور نزاکت کے
متعلق کچھ زریں نصائح کیں اور پھراپنی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ اس
مبلغ اسلام کو خدا حافظ کہا۔
مدینہ میں روحانی انقلاب
ارشاد نبوی ﷺ کے تحت آپ نے مدینہ پہنچ کر، قرآن پاک کے بیان کردہ تبلیغ کے
بنیادی اور مرکزی اصول
أدع ألی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ کے مطابق کچھ اس شوق ،جذبہ،
محنت،جانفشانی اورحکمت عملی کے ساتھ یہ نیک کام سرانجام دیا کہ صرف ایک سال
کی قلیل مدت میں، مدنیہ کی سر زمین نور اسلام سے جگمگا اٹھی۔
مدینہ کی پاک بستی کے باسیوں کا قبول اسلام اور اس روحانی انقلاب کے سامنے
سر تسلیم خم کرنا کسی تیغ و تفنگ اور تلواروں کی جھنکار کا ثمرہ نہ تھا
بلکہ یہ تو صرف اور صرف اسلام کی حسین، دلکش اور پاک تعلیم کا نتیجہ تھا۔
اہل مدینہ کا ایک سال کے مختصر عرصہ میں اسلام قبول کرلینا ،اسلام کے متعصب
مخالفین اور معترضین کے لیئے ایک کافی و شافی جواب ہے۔
بشرطیکہ : گر دل میں ہو خوف کردگار!
مدینہ میں ابتدائی ایام۔
مدینہ پہنچ کرابتدا میں آپ نے حضرت اسعد بن زرارہؓ کے ہاں قیام فرمایا۔ جسے
ہم مدینہ میں پہلا اسلامی مرکز کہہ سکتے ہیں اور وہاں سے ہی آپ نے مدینہ
اور اس کے ماحول میں انفرادی اور اجتماعی طور پر دین حق کا پرچار شروع
کیا۔جس کے نتیجے میں آپ کی سخت مخالفت شروع ہوگئی ۔مگر آپ اپنے ھادی و
مرشدنبی کریم ﷺ کی سنت اور ارشاد کے مطابق صبرورضا کے ساتھ اپنے مشن کے
حصول میں مصروف رہے۔اس دوران اللہ تعالی نے آپ کوپاکبازوں کی ایک چھوٹی سی
جماعت عطا فرمادی۔
حضرت اسید بن النضرؓ کا قبول اسلام
آپ کبھی حضرت اسعدؓ کے گھر اور کبھی بنی ظفر کے ہاں تعلیم وتربیت کا مقدس
فریضہ سر انجا م دیتے رہتے۔ایک روزآپ بنی ظفر کے ہاں درس وتدریس میں مصروف
تھے۔کہ قبیلہ بنو عبدالاشھل کے سردارحضرت اسعدبن زرارہؓ نے اپنے ایک دوست
اسید بن النضرؓ کو کہا کہ مسلمانوں کا ایک مبلغ جواسعد بن زرارہ ؓ کے گھر
پر رہتا ہے ۔وہ ہمارے ضعیف اور کمزور ایمان لوگوں کے ایمان کوخراب کررہاہے۔
اس کو یہاں سے نکال دو۔اور اگر میرے اسعد بن زرارہؓ کے ساتھ قریبی مراسم نہ
ہوتے تو میں خود جا کر اس مبلغ کو یہاں سے باہر نکال دیتا۔
اس پر حضرت اسید بن النضرؓ سیدھے حضرت اسعدؓ کے ہاں آئے جہاں پر حضرت مصعبؓ
تبلیغ میں مصروف تھے۔اسیدؓ نے بڑے غصے کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ
کو کس نے اجازت دی ہے کہ ہمارے سادہ لوح لوگوں کے ایمان خراب کرتے پھرو۔
حضرت مصعبؓ نے بڑے صبر اور تحمل سے ان کی باتیں سنیں۔ان کی اس زیادتی پر
کسی قسم کے منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔بلکہ بڑے ادب واحترام کے ساتھ سے
ان کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ زرا تشریف تو رکھیں اور ہماری بات سنیں
اگر آپ کوہماری بات چیت پسند آئے تو ٹھیک ہے ۔ ورنہ جیسے آپ کی مرضی ایسے
ہی کرلیں گے۔ حضرت مصعبؓ کے اس پاک رویہ اور انداز تکلم نے ان کے دل پر کچھ
ایسا اثر کیا کہ وہ آپ کی بات مان کرادھر ہی بیٹھ گئے۔حضرت مصعبؓ نے بڑی
پرسوز اور دلکش آواز میں قرآن پاک کی چند آیات تلاوت فرمائیں ۔اور اس کے
بعد اپنے خداداد پراثر اورشیریں لہجہ میں اسلام کی پاک اور حسین تعلیم کو
کچھ ایسے انداز سے بیان فرمایاکہ تھوڑی ہی دیر میں حضرت اسید بن النضرؓ ؓ
کا پتھر دل ،اسلام کے لیئے موم ہوگیا۔اور بے اختیار بول اٹھے کہ کیا ہی پاک
تعلیم ہے اور کیا خوب مذہب ہے ۔پھرکلمہ شہادت پڑھا اوردین متین کے جانثار
صحابہ میں داخل ہوگئے۔
حضرت سعد بن معاذؓ کا قبول اسلام
حضرت اسید بن النضرؓ نے جب اپنے مسلمان ہونے کااعلان کیا توساتھ یہ بھی کہا
کہ میرے بعد ایک اور شخص کوبھی اسلام میں داخل کرنا ہوگا۔کیونکہ اگر اس نے
راہ حق کو قبول کرلیا ۔تو اس کاتمام قبیلہ بنوعبدالاشھل اس کی پیروی کرے
گا۔اور میں ابھی اس کو آپ کے پاس بھیجتاہوں۔
حضرت اسید بن النضرؓ نے ایک ایسا منصوبہ تیار کیا ،جس کے نتیجہ میں حضرت
سعد بن معاذؓ کو حضرت اسعدبن زرارہؓ کے ہاں فوری طور پر جانا پڑا۔
جب حضرت سعد بن معاذؓؓ ، حضرت اسعدبن زرارہؓ کے ہاں پہنچے ۔توکیادیکھتے ہیں
کہ وہاں پر حضرت مصعبؓ تودرس وتدریس میں مصروف ہیں۔ ۔حضرت سعد بن معاذؓنے
جب حضرت مصعبؓ کو ادھر اس حال میں دیکھا ۔ کہ یہ تو بڑے آرام سے اپنی تبلیغ
میں مصروف ہیں ۔تو اس سے بڑے طیش میںآگئے۔اور بڑی درشتگی سے حضرت مصعبؓ سے
مخاطب ہو کر کہا۔ کہ تم کیوں ہمارے لوگوں کو بے دین کر رہے ہو۔تمھاری وجہ
سے ہمارے درمیان نفرت اور افتراق کا دائرہ وسیع ہو رھا ہے۔ تمھاری بہتری
اسی میں ہے کہ جسقدر جلد ممکن ہو ہمارا علاقے سے چلے جاؤ۔
حضرت مصعب ؓ نے بڑے صبر وتحمل اور گہری حکمت عملی کے ساتھ ان کی غصہ والی
ساری باتیں سنیں ۔جب وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال چکے۔تو پھر حضرت مصعبؓ نے
بڑے ادب واحترام اور نرمی سے انکی خدمت میں درخواست کی ۔ کہ جناب آپ زرا
تشریف تو ر کھیں اور ہماری بھی تھوڑی سی بات سن لیں۔
حضرت مصعبؓ کے انداز تکلم اور نرم رویہ سے حضرت سعد بن معاذؓ قدرے متاثر
ہوئے اور ادھر ہی بیٹھ گئے۔اس پر حضرت مصعبؓ نے کچھ ایسے پیار بھرے انداز
میں قرآن پاک کی چند آیات تلاوت کیں اور اس کے بعد اسلام کی خوبصور ت تعلیم
کو اس قدردلکش انداز میں بیان فرمایا۔کہ تھوڑی ہی دیر میں،حضرت سعد بن
معاذؓ جو ایک صاحب فراست اور صاحب حکمت انسان تھے۔حقیقت سمجھ گئے۔ اور
اسلام کی صداقت و حقانیت روز روشن کی طرح ان پرعیاں ہوگئی۔ نفرت کے مھیب
بادل ،عشق و محبت کی باران رحمت میں تحلیل ہوگئے۔اسپر آپ بڑے اطمینان قلب
کے ساتھ کلمہ تشھد پڑھ کر داخل اسلام ہوگئے۔ پھر انہی کے نیک اثر کی وجہ سے
بنوعبدالا شھل کا سار ا قبیلہ دولت اسلام سے مالا مال ہوگیا۔
ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ، دشمنان اسلام کے بغض و حسد،ظلم وتشدد اور
مخالفت میں بھی شدت آتی گئی۔ خاص طور پر بنی نجار نے حضرت مصعبؓ پراسقدر
ظلم وتشدد کیا کہ نے اس ماحول سے مجبور ہو کر حضرت اسعد بن زرارہؓ کا گھر
خیرباد کردیااور حضرت سعد بن معاذؓ کے ہاں ڈیرہ لگالیا۔
والدہ کی مخالفت اور قید کا منصوبہ
اگلے سال آنحضو وﷺ کے ارشاد کے مطابق حج کے فریضہ کی ادئیگی کے لیئے مکہ
تشریف لائے۔اھل مدینہ میں سے۷۲ نو مبایعین کا ایک قافلہ بھی آپ کے ہمراہ
تھا۔۔ آپ سیدھے دربار نبوی ﷺ پر حاضر ہوئے ،اور پھر آپ نے اپنے کام کی
تفصیلی رپورٹ بڑے ادب واحترام کے ساتھ آنحضور ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کی۔
حضور ﷺ نے انکے مشن کی کامیابی پر بڑی خوش دلی کا اظھار فرمایا
جب آپ کی والدہ کو آپ کی مکہ میں آمد کا علم ہوا ۔اس نے آپ کو پیغام
بجھوایا۔کہ اے نافرمان بیٹے یہ کیسے ممکن ہے کہ جس شھر میں میں رہتی ہوں
۔تواس شھر میں آئے اور پہلے مجھے ملنے نہ آئے۔آپ نے جواب دیا ۔میں رسول خدا
ﷺ کی زیارت سے پہلے کسی اور نہیں مل سکتا۔ خیر آنحضرت ﷺ سے ملاقات کی۔پھر
آپ سے رخصت لے کر اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
آپکی ماں کو اس بات کا شدیدقلق تھا کہ آپ نے ان کے آباء و اجداد کے دین کو
چھوڑ کر ایک نئے دین کو اپنالیا ہے۔
آپ کو دیکھ کر نہایت دکھ سے بولی۔ کہ اے بیٹے تو اب ہمارے دین سے برگشتہ
ہوگیا ہے۔تو اپنے دین میں واپس آجائے تو تمھارے لیئے بھی اور ہم سب کے لیئے
بہتر ہے۔اس طرح وہ آپ کو سمجھانے کی کوشش کرنے لگی ۔آپ نے اس کی باتوں کی
کوئی پرواہ نہ کی ۔ بلکہ آپ نے اپنی ماں کو سمجھایا اور بڑے پیار کے ساتھ
اسے قبول حق کی دعوت دی۔آپکی ماں نے سمجھ لیا کہ اس کا سوائے سختی کے کوئی
علاج نہیں ہے۔اس لیئے اس نے یہ ارادہ کر لیاکہ اپنے رشتہ داروں کے زریعہ آپ
کو پہلے کی طرح قید میں ڈال دے تو شاید بھوک اور پیاس کی شدت اور تکلیف
انہیں راہ راست پر لے آئے۔
آپ نے ماں کے خطرناک ارادہ کو بھانپ کراسے کہا۔اے میری ماں ، اگر تم نے
کوئی ایسا قدم اٹھایا۔ تو خدا کی قسم جوآدمی سب سے پہلے میرے قریب آئے گا
۔میں اسکو ضرور قتل کر دوں گا۔ماں نے جب آپ کی یہ بات سنی تو ڈر گئی، پھر
اس نے روتے ہوئے کہا کہ تم میری نظروں سے اوجھل ہو جاؤ۔
اس پر آپ نے بڑے ادب اوراحترام کے دائرے میں رہ کراپنی ماں کواسلام قبول
کرنے کی دعوت دی۔مگر آپ کی ماں نے دین اسلام سے سخت بیزاری کا اظہار کیا۔
اور اپنے دین سے ہی وابستہ رہنے کی قسم کھائی۔اس پر آپ اپنی ماں کے افسوس
ناک رویہ کی وجہ سے مایوس کر اپنے گھر سے واپس لوٹ آئے۔
قدآثروک وفارقوا احبابھم
وتباعدوا من حلقۃ الاخوان
میدان جھاد میں
حضرت مصعبؓ بن عمیر کو قرآن کریم میں بیان کردہ ہر قسم کے جھاد میں شرکت کی
سعادت نصیب ہوئی۔ قول نبوی ﷺاصحابی کالنجوم کس قدر پرحکمت اور سچا ئی پر
مبنی ہے۔ صحابہ کرام خدا تعالی کے جانباز سپاہی ۔ان کی عجیب شان تھی۔ کہ
دفاع اسلام اور حمیت دین متین کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جہاد میں
آجاتے ہیں۔پھردن بھر بھاری بھرکم جنگی اوزار اٹھائے ،اپنے سے کئی گنا
طاقتور دشمنوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔دو ہی منزلیں ہیں۔ غازی یا شھید
پھررات کو ان کی مقدس جبینیں رب کائنات کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے مقصد
حیات کے حصول ، غلبہ اسلام اور خدا کی خوشنودی کی مناجات کرتی ہیں۔یہ سب
دیکھ کر انسانی عقل ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔اور پھربے اختیار ہر مومن کے
دل کی گہرائی سے ان عظیم وجودوں کے لیئے دعائیں نکلتی ہیں۔
غزوہ بدر میں علم برداری کا اعزاز
اللہ تعالی نے جہاں آپ کوبہترین داعی أِلی اللہ اور کامیاب مبلغ کے اوصاف
جمیلہ سے نوازا تھا۔ اس کے ساتھ آپ ایک بہادر سپہ سالار بھی تھے۔یہی وجہ ہے
کہ جب دفاع اسلام کی خاطر خدا تعالی کی طرف سے جہاد بالسیف کی اجازت ملتی
ہے۔تو پھر غزوہ بدر کے میدان میں بھی رسول مقبول ﷺ کی نگاہ انتخاب آپ پر
پڑتی ہے۔جس کی وجہ سے اسلامی پرچم آپ کے ہاتھوں میں ہی لہراتا نظر آتا ہے۔
یہ آپکی جانبازی ،بہادری ، شجاعت پر آنحضور ﷺ کی طرف سے ایک سند امتیاز
ہے۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور ﷺ کی نگاہ اقدس میں آپ کا مقام کتنا
ارفع اور اعلی تھا۔ یہ آنحضو ﷺ کا آپ پر اعتماد ہی تھا ۔
غزوہ احد میں شرکت،علم برداری کا اعزاز ،جام شھادت
اگلے سال غزوہ احد کے موقع پر ایک بار نبی کریم ﷺ نے پھر علم اسلامی کا
مبارک اور اہم فریضہ آپ کے ذمہ لگایا۔جنگ کے دوران کچھ مسلمانوں کی غلطی سے
جب مسلمانوں کو عارضی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت آپ اکیلے دشمنوں
کے نرغہ میں آگئے۔ اس موقع پر ابن قمۂ نے آپ پر حملہ کرکے جھنڈے والے ہاتھ
کو شہید کردیا۔
آپ نے فوراً دوسرے ہاتھ سے اسلامی جھنڈے کو سنبھال لیا۔ مگر دشمن اسلام ابن
قمۂ نے پھر ایک زور دار حملہ سے آپ کا دوسرا ھاتھ بھی شہید کردیا۔ اس
دلخراش حالت میں بھی آپ نے اسلام کے مقدس جھنڈے کو زمین بوس نہیں ہونے دیا۔
بلکہ کٹے ہوئے بازؤں کا حصار بنا کر پرچمِ اسلامی کو تھامے رکھا۔ پھر ابن
قمۂ نے آپ کے سینہ میں ایک نیزہ مارا ۔جس کی اَنی آپ کے سینہ میں ٹوٹ گئی
۔جس کے باعث اس جانباز نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ أنا للہ وأنا
ألیہ راجعون
جونہی اسلامی جھنڈا ان کے ہاتھ سے گرا ۔اسی لمحہ ان کے بھائی ابو الروم بن
عمیرؓ نے اسلامی جھنڈے کو تھام لیا۔
آپ کی شکل وصورت آنحضور ﷺ کی شبیہ مبارک سے بہت زیادہ ملتی تھی ۔یہی وجہ ہے
کہ جنگ احد میں آپؓ جب شہید ہوئے تو یہ افواہ پھیل گئی ۔کہ آنحضورﷺ شہید
ہوگئے ہیں۔
تجہیز و تدفین
یہ مسلمانوں کے لیئے مشکل حالات اور تنگ دستی کا ایسا زمانہ تھا۔ کہ جنگ
احد کے عظیم شہداء کے کفن کے لئے کپڑے بھی کافی نہ تھے۔حضرت مصعب بن عمیرؓ
کی نعش کے کفن کے لیئے بڑی مشکل سے صرف ایک کپڑے کا انتظام ہو سکا۔جو آپ کے
پورے جسم کو ڈھانپنے کے لیئے ناکافی تھا۔اگربالائی حصہ کو ڈھانپتے ہیں تو
نچلا حصہ ننگا ہو جاتا تھا۔اور پھر اگر نچلے کو ڈھانپتے تو اوپر کا حصہ
ننگا رہ جاتا تھا۔ اس پر حضرت سرورکائنات ﷺ کے ارشاد پر آپ کے اوپر والے
حصہ کو کپڑے اور نچلے حصہ کو اذخر گھاس سے ڈھانک دیا گیا ۔
حضرت مصعب بن عمیر اپنے آقا آنحضور ﷺ کی نگاہ میں۔
غزوہ احدکے خاتمہ پر آنحضرت ﷺ نے حضرت مصعبؓ کی نعش کے قریب کھڑے ہوکر قرآن
کریم کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔
من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ
پھر لاش کو مخاطب ہو کر آپ ﷺ نے فرمایا۔
میں نے تم کو مکہ میں دیکھا۔جہاں تمھارے جیسا حسین اور خوش لباس کوئی نہ
تھا۔ لیکن آج میں دیکھتا ہوں کہ تمھارے بال پراگندہ ہیں۔اور جسم پر صرف ایک
چادر ہے۔پھر فرمایا۔بے شک خدا کا رسول گواھی دیتا ہے۔کہ تم لوگ قیامت کے د
ن بارگاہ ایزدی میں حاضر ہو گے۔اس کے بعدصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو
اشاد فرمایا۔کہ شہداء کی آخری زیارت کر کے سلام بھیجیں۔اور فرمایا۔قسم ہے
اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔کہ روز قیامت تک جو کوئی ان پر سلام
بھیجے گا۔ وہ اس کا جواب دیں گے۔
اے ہمارے رب کریم ! آسمانِ روحانی کے ان روشن ستاروں کو دارلبقاء میں ارفع
و اعلی مقامات سے نواز ۔اور ہمیں بھی اپنے خاص فضل ورحمت سے ان کے نقش قدم
پر چلنے کی سعادت وتوفیق عطا فرما،تاکہ روز محشر ہم بھی ان اصحاب رسول کی
طرح رضی اللہ عنہم ورضواعنہ کی سند کو حاصل کرنے والے ہوں ۔آمین
اے خدا بر تربت اوابر رحمت ببار
داخلش کن ازکمال فضل در بیت النعیم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے عظیم مقام کے
بارے میں فرماتے ہیں۔
انصافادیکھا جاوے کہ ہمارے ہادئ کامل ﷺکے صحابہؓ نے اپنے خدااوررسول کے لئے
کیا کیا جانثاریاں کیں۔جلاوطن ہوئے۔ظلم اٹھائے۔طرح طرح کے مصائب برداشت کیے
جانیں دیں۔لیکن صدق ووفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے۔پس وہ کیا بات تھی کہ جس
نے انہیں ایسا جانثار بنادیا تھا۔وہ سچی الہی محبت کا جوش تھا۔جس کی شعاع
ان کے دل میں پڑچکی تھی۔اس لئے خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کرلیا جائے۔آپ
کی تعلیم،تزکیہ نفس،اپنے پیروؤں کو دنیا سے متنفر کرادینا،شجاعت کے ساتھ
صداقت کے لئے خون بہادینا،اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی۔یہ مقام آنحضرت ﷺ
کے صحابہؓ کا ہے اور جو ان کے درمیان باہمی محبت و الفت تھی۔اس کا نقشہ دو
فقروں میں بیان فرمایا ہے۔
وَاَلَّفَ بَینَ قُلُوبِِہِم لَو أنفقت ما فی االأرض جمیعاما ألفت بین
قلوبہم (الانفال 249۶۴)
اللھم صل علی محمد وعلی آلہ و اصحابہ اجمعین |