کرپشن کی عام فہم اور سیدھے لفظوں میں تعریف یہ ہے کہ
عوام کے روپے پیسے کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا جائے، یا لین دین اور
سودے بازی میں کسی ایک شخص یا کمپنی کے مفاد یا فائدے کیلئے اصولوں پر
سمجھوتہ کر لیا جائے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل نے 2021کے سروے میں دنیا کے دس
بد ترین ممالک میں عراق کو سر فہرست رکھتے ہوئے بدعنوان ترین ملک قرار دیا۔
2020میں عراق میں کرپشن کے حوالے سے کام کرنیوالے کمیشن نے سابقہ اور
موجودہ 63وزراء کو کرپشن اور بد عنوانی کے 92کیسز میں براہ راست ملوث قرار
دیا جس میں سے زیادہ تر کیسز تیل کے محکموں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی
انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ اس رپورٹ میں ڈنمارک، کینڈا اور جرمنی کو
بدعنوانی سے پاک شفاف ترین ممالک قرار دیا گیا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس
رپورٹ میں امریکہ کرپشن زدہ ملکوں میں نہ صرف شامل ہے بلکہ بدعنوانی میں
اُس کا 24واں نمبر ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دنیا کے پہلے دس کرپٹ ترین ممالک کی ترتیب میں
عراق، کولمبیا، میکسیکو، برازیل، روس، گوٹے مالا، قازقستان، لبنان، ایل
سیلوڈوراور آذربائیجان 10ویں نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ پر مجھے اس حوالے سے بہت
حیرت رہی کہ ان دس ممالک میں بھارت کو شامل کیوں نہیں کیا گیا۔ دنیا جانتی
ہے کہ بھارت کرپشن کے حوالے سے دنیا کے بد ترین اور بدنام زمانہ ممالک میں
شامل ہے۔
گذشتہ سال کے اختتام پر بھارت کو ایشیاء میں رشوت ستانی کے حوالے سے پہلے
نمبر پر رکھا گیا تھا۔ جبکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھارت کے شعبہ صحت
اور تعلیم کو سب سے زیادہ رشوت زدہ شعبے قرار دیا۔ اس رپورٹ میں بھارت کے
بعد چین کو دوسرا اور انڈونیشیا کو تیسرا نمبر دیا گیا۔ اس سروے رپورٹ میں
اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ شعبہ پولیس اور قومی شناختی کارڈ یا
پیپرز بنانے والے بھی کرپشن میں بُری طرح دھنسے ہوئے ہیں۔
دنیا کی 17قوموں میں کیے جانے والے ایک سروے میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے
20ہزار سرکاری ملازمین سے پوچھے گئے سوالوں سے رپورٹ تیار کی کہ وہ سرکاری
شعبے جو براہ راست عوام کی خدمت پر معمور ہیں۔ اُن شعبوں میں جیسا کہ
ہسپتال، پولیس، شناختی کاغذات بنانے والے ادارے، تعلیم، لینڈ ریکارڈ وغیرہ
شامل ہیں، کرپشن اور بدعنوانی زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں لوگوں نے اپنی رائے
کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرپشن یا رشوت ستانی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان
17قوموں میں شامل،نیپال، تھائی لینڈ، چین، فلپائن اور کمبوڈیا کے شہریوں کا
خیال ہے کہ اُن کے ممالک میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ بھارت کے
شہریوں کا خیال ہے کہ یہاں 2021میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ ایشیاء کی اِن
17قوموں میں جاپان ایک ایسا ملک ہے جہاں کرپشن کی شرح صرف 2فیصد ہے۔ یہاں
کے لوگ اپنے ملک کی شفافیت کے لحاظ سے مطمئن ہیں۔
ایشیاء کے ممالک میں جہاں جاپان کے شہری مطمئن ہیں وہاں بھارتی اپنے ملک
میں پھیلی کرپشن سے قطعی غیر مطمئن ہیں۔ 62فیصد بھارتیوں کا خیال ہے کہ جب
تک وہ شوت نہ دیں اُن کا کام نہیں ہوتا۔ بھار ت میں بہنے والی کرپشن کی
گنگا جمنا میں سب سے زیادہ ڈوبے ہوئے لوگوں میں سیاست دان سر فہرست ہیں۔
بھارت میں اس وقت بھی سیاست دانوں نے 20ہزار کروڑ سے بھی زائد رقم کے اثاثے
ڈکلیئر نہیں کئے۔
2010میں Common wealth gamesکے دوران بھارت کے کچھ صوبوں کے وزراء اعلیٰ
اور کابینہ کے وزرا ء نے ستر ہزار کروڑ روپے کی کرپشن کا کارنامہ سر انجام
دیا تھا۔ جبکہ آدرش ہاؤسنگ سوسائٹی کے سیکنڈل میں بھارتی سیاست دانوں نے
26ارب امریکی ڈالر ز جتنی بڑی رقم کو بڑی صفائی سے اِدھر اُدھر کر دیا تھا۔
بھارت کے سیاستدانوں کو بڑے بڑے کرپشن کیسز کا سامنا ہے لا لو پرشاد جیسے
سینئر ترین سیاست دان بھی چارے کی رقم میں کرپشن کرنے کے جرم میں جیل کی
ہوا کھا چکے ہیں۔
بھارت کی بیوروکریسی یعنی سرکاری آفسر شاہی نیچے سے لے کر اوپر تک کرپشن
اور بدعنوانی کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ 92فیصد بھارتیوں نے ایک سروے میں
بتایا ہے کہ کسی بھی سرکاری محکمے میں انہوں نے کسی نہ کسی سٹیج پر رشوت دے
کر اپنا کام کروایا ہے۔
ٹرانسپورٹ کے شعبے کے حوالے سے ایک سروے میں یہ خوفناک انکشاف سامنے آیا ہے
کہ ٹرک ڈرائیور حضرات ایک شہرسے دوسرے شہر یا ایک صوبے کی حدود سے دوسرے
صوبے کی حدود میں داخل ہوتے ہوئے رشوت دئیے بغیر نہیں جا سکتے۔ جبکہ ٹرک
ڈرائیور حضرات کی جانب سے دی جانے والی یہ رشوت سالانہ 222کروڑ روپے بنتی
ہے۔
اب ذرا کالے دھن کا بھی تذکرہ ہو جائے، بھارتی انگلش روزنامہ دی ہندو کے
مطابق ایک کھرب ڈالر سے بھی کہیں زیادہ رقم بہت سے بھارتیوں کی بیرون ملک
بنکوں میں جمع ہے جو کالا دھن ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کچھ بھارتی ماہرین
معاشیات کا ماننا ہے کہ بھارت کے سالانہ بجٹ سے تیرہ گنازائد رقم کالے دھن
کی صورت میں سوئس بنکوں میں جمع ہے۔
بھارت کی کرپشن کی تاریخ دوچار سالوں پر مشتمل نہیں ہے۔ ہندوستان کا میڈیا،
فوج، عدلیہ، پولیس، سیاست اور بیوروکریسی بے ایمان بدعنوان اور کرپٹ ترین
سیکنڈلوں کی تاریخ سے بھری پڑی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برصغیر میں کرپشن
اور بدعنوانی کا بیج انگریز بو کر گئے تھے۔ جو آج تناور درخت بن چکا ہے۔
ہندوستان میں پھلتے پھولتے کرپشن کے درخت کی کچھ شاخیں پاکستان پر بھی اپنا
سایہ کئے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اُن شاخوں کو کاٹ رہے ہیں۔
اگر پاکستان پر پھیلے کرپشن کے کالے بادلوں کا سایہ چھٹ گیا تو پاکستان نیا
جنم لے گا۔
کاش یہ ممکن ہو سکے۔
|