ٹی وی چینل بدلتے ھوئے ایک ملی
نغمے کے بول کان میں پڑے کافی تعجب سے ٹی وی کی طرف دیکھا 14 اگست تو گزر
گیا پھر یہ انقلاب کیونکر ۔
23 مارچ سے پہلے ٹی وی اینکر پرسن اپنا سارا علم گیان بیان کر دیتے ھیں
پاکستان بننے کا مقصد کیا تھا کیسے قرار داد منظور ھوئی کون لوگ تھے کچھ
لوگ جو ان پروگراموں سے متاثر ھوتے ھیں اپنے بچوں کے ساتھ مینار ِ پاکستان
جاتے ھیں اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ھیں پھر 23 مارچ گزر جاتا ھے ھم
واپس اپنی جون میں واپس آجاتے ھیں -
پھر 14 اگست آتا ھے پرانے ریکارڈ کردہ قومی نغمے نکالے جاتے ھیں بار بار
لگائے جاتے ھیں ان لوگوں کا ذکر کیا جاتا ھے جنھوں نے اپنی جان و مال کی
قربانیاں پیش کیں ان کو خراج ِ تحسین پیش کیا جاتا ھے ھمیں احساس ھوتا ھے
پاکستان ایک رحمت ھے قومی لباس پہن کر ھمارے قومی رھنما جو ھماری کسی قومی
مشکل میں رھنمائی نہیں کرتے جنھیں ھم اپنے رہنما کہنے پہ مجبور ھیں مگر
اپنے دل کا غبار ایس ایم ایس کے زریعے نکالتے رھتے ھیں وہ اپنا قومی لباس
اپنی الماریوں سے نکال کر پہنتے ھیں تقاریر کرتے اپنے آپ کو محب ِ وطن ثابت
کرتے ھیں پورے ملک کی گلی گلی قومی جھنڈوں سے سج جاتی ھے ھر ایک پاکستانی
بن جاتا ھے قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جاتی ھے پھر چودہ اگست گزر جاتا
ھے ھم اپنے حال اور اپنی کھال میں مست ھو جاتے ھیں ھمارے سامنے درجنوں قائد
آجاتے ھیں کوئی قائدِ انقلاب ھے کوئی قائدِ جمہوریت ھر پارٹی کا اپنا الگ
قائد ھے اور قوم ایک ایسے قائد کے انتظار میں ھے جو پوری قوم کا قائد ھو جو
پوری قوم کو اکٹھا کرے سندھی پلوچی پٹھان پنجابیوں کا قائد نہ ھو ھر علاقے
کے لوگ اسے اپنا سمجھیں مگر ایسا ممکن نہیں جیسے مافیا سے تعلق رکھنے والوں
کے اپنے اپنے علاقے ھوتے ھیں اسی طرح ھمارے سیاسی رھنماؤں کے بھی اپنے اپنے
علاقے ھیں کسی کا سندھ ھے کسی کا پنجاب کوئی بلوچستان کا محافظ ھے کوئی
سرحد کا وارث ھے پاکستانی کون ھے پاکستان کا محافظ کون ھے -
مجھے قومی دن منانا اس لیے بھی اچھا لگتا ھے کہ اس دن سب اپنی ذات برادری
بھول کر کچھ پل کے لیے ھی سہی پاکستانی بن جاتے ھیں ایک پرچم کے سائے تلے
ھنستے مسکراتے لوگ بہت اچھے لگتے ھیں چودہ اگست گزرتے ھی ھر پارٹی کے اپنے
اپنے جھنڈے نکل آتے ھیں پاکستان زندہ باد کی جگہ ان کی پارٹی کے نعرے
گونجنے لگتے ھیں -
سب کو یاد آجاتا ھے کون پنجابی بولنے والا ھے کون اردو بولتا ھے کون مہاجر
ھے حیرت کی بات ھے کسی بھی ملک میں چلے جائیں چاہے وہ یورپ ھو یا امریکہ
کچھ عرصہ وہاں رھیں آپ کو وہاں کی نشنیلٹی مل جاتی ھے وہ سب حقوق حاصل ھو
جاتے ھیں جو باقی شہریوں کے ھوتے ھیں مگر ھم اپنے جیسے لوگوں جو ھمارے ھم
مذہب ھیں جو ایک اسلامی ملک بننے پر اپنے گھر اپنی جائدادیں چھوڑ کر آئے
تھے انھیں آج تک مہاجر کہتے ھیں لسانی تعصب کو بڑھایا جاتا ھے اس پہ سیاست
کی جاتی ھے -
پورا سال یہی کھیل کھیلا جاتا ھے قوم کے مسائل کیا ھے ان کی نظر کرنے کی
فرصت کیسے ھے پاکستان کہیں پس ِ منظر میں رھتا ھے ایسے میں قومی نغمے لگنا
تعجب کی بات ھے چھ ستمبر ھمارا یوم ِ دفاع ھے جس کا ذکر ھم بہت فخر
سے کرتے ھیں وہ ایسا وقت تھا جب فوج کے ساتھ پوری قوم کھڑی تھی پاکستان کی
تاریخ میں کچھ آمروں نے فوج کے کردار کو داغدار کیا آج بھی ایسی ھزاروں
مائیں ھیں جو بیٹے کی پیدائش کے ساتھ ھی یہ خواب سجا لیتی ھیں کہ ان کا
بیٹا بڑا ھو کر اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کرے گا
گاؤں کے سادہ سے لوگ جن کی فطرت میں مٹی سے محبت کے ساتھ وطن کی محبت رچی
بسی ھوتی ھے ان کے لیے یہ بات قابل ِ فخر ھوتی ھے ان کے بیٹے چاھے معمولی
تنخواہ لیتے ھیں مگر کام بڑا کرتے ھیں اپنے وطن کیحفاظت کرتے ھیں -
آج نہ صرف سرحدوں کی حفاظت کی ضرورت پہلے سے زیادہ ھے بلکہ سرحد کے اندر ھر
شہر ھر علاقے میں بھی ھے دشمن اب نہ صرف سرحدوں سے باھر ھیں بلکہ ھمارے آس
پاس بھی موجود ھیں ان کو پہنچاننا ان سے بچنا اور ان کو مٹانا بھی ضروری ھے
یہ کام صرف فوج کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ھے کتنی حیرت کی بات ھے ھم ووٹ
سیاست دانوں کے دیتے ھیں اور جب کوئی مشکل پڑتی ھے تو فوج کی طرف دیکھتے
ھیں کوئی ھنگامی حلات ھوں تو فوج کی طرف دیکھتے ھیں امن و اماں کا مسلہ ھو
تو بھی فوج کی طرف نظر جاتی ھے سیاسی رہنما اپنی مدت پوری کرنے اتحاد بنانے
جوڑ توڑ کرنے میں مصروف ھیں عوام دو وقت کی روٹی کے پیچھے بھاگ رھے ھیں
حکومت اور اپوزیشن کو اپنا کردار صحیح انداز میں نبھانا چاھیے ۔ یومِ دفاع
کر یاد کرتے ھوئے تجدیدِ عہد کرنا ھے اور کچھ لوگوں کو اپنے ملک سے دفع
کرنا ھے جو ھمارے وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کر رھے ھیں -
ان ماؤں کا سلام پیش کرنا ھے جن کے بیٹے اپنے وطن کی حفاظت کرتے ھوئے شہید
ھوئے ان بے نام شہیدوں کو بھی سلام جن کا نام نہ ٹی وی پہ آتا ھے نہ کسی
کتاب میں - ان کا جذبہ ان کا جوش و ولولہ قابل ِ تعریف تھا ان کی قربانی
بھی- |